اسلام آباد (ٹی این ایس) مسلم کمیونٹیز میں لڑکیوں کی تعلیم کےحوالے سےعالمی تعلیمی کانفرنس کاآ ج سے آغاز

 
0
47

(اصغر علی مبارک)

.اسلام آباد (ٹی این ایس) پاکستان آج سے “مسلم کمیونٹیز میں لڑکیوں کی تعلیم: چیلنجز اور مواقع” کے موضوع پر دو روزہ عالمی تعلیمی کانفرنس کی میزبانی کرے گا۔
عالمی تعلیمی کانفرنس کا افتتاح پاکستان کے وزیر اعظم محمد شہباز شریف کریں گے، جو افتتاحی سیشن سے کلیدی خطاب کریں گے اور لڑکیوں کی تعلیم اور صنفی مساوات کے فروغ کے لیے قوم کے عزم کا اعادہ کریں گے۔مسلم کمیونٹیز میں لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سےعالمی تعلیمی کانفرنس ایک اہم سنگ میل قرار دی جا رہی ہے۔
ورلڈ مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل محمد بن عبدالکریم العیسی اور او آئی سی کے سیکریٹری جنرل حسین ابراہیم طحہٰ لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے منعقد ہونے والی عالمی تعلیمی کانفرنس میں شرکت کے لیےاسلام آبادپہنچ گئے ہیں , یہ دو روزہ کانفرنس اتوار کو اختتام پزیر ہو گی۔
او آئی سی کے سیکریٹری جنرل حسین ابراہیم طحہٰ اس کانفرنس میں شرکت کےلیے اسلام آباد پہنچے تو وفاقی وزیر تعلیم خالد مقبول نے اُن کا استقبال کیا۔او آئی سی کے سیکریٹری جنرل حسین ابراہیم طحہٰ اورورلڈ مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل محمد بن عبدالکریم العیسی جو دین اور انسان دوستی کے شعبوں سے تعلق رکھنے والی ممتاز شخصیات ہیں اہم دورے پر پاکستان پہنچ گئے جس کا مقصد بین المذاہب مکالمے اور تعاون کو فروغ دینا ہے۔
مسلم ورلڈ لیگ کے سیکرٹری جنرل اور کونسل آف مسلم اسکالرز کے چیئرمین کی حیثیت سے ڈاکٹر العیسی طویل عرصے سے اسلام کے بارے میں زیادہ جامع اور روادار تفہیم کو فروغ دینے میں پیش پیش رہے 2019 میں انہوں نے مسلم اور غیر مسلم علما کے درمیان ایک اہم مکالمے کی قیادت کی ، جس کے نتیجے میں ”میثاق مکہ” پر دستخط ہوئے ، جو افہام و تفہیم اور باہمی احترام کو فروغ دینے کے لئے ان کی لگن کا ثبوت ہے۔ ڈاکٹر العیسی کے دورے کے پروگرام میں پاکستانی حکومت کی اہم شخصیات سے اعلی سطح کی ملاقاتیں بھی شامل ہیں، جو پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان مضبوط سفارتی اور ثقافتی تعلقات کو فروغ دینے کی اہمیت پر زور دیتی ہیں۔

کانفرنس کا موضوع ’مسلم کمیونٹیز میں لڑکیوں تعلیم، اس حوالے سے چیلنجز اور مواقع‘ ہے
اس کانفرنس میں 47 ممالک کے 150 ماہرِ تعلیم، مذہبی اسکالرز، سفارت کار اور اہم سیاسی شخصیات شرکت کریں گی۔
خواتین کی تعلیم سے متعلق اسلام آباد میں ہونے والی کانفرنس میں نوبیل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی اتوار کو شرکت کریں گی۔
یاد رہے کہ بطور میزبان پاکستان نےافغانستان کو انٹرنیشنل گرلز ایجوکیشن کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی ہے۔ افغانستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں خواتین کی تعلیم پر پابندیاں عائد ہیں ۔
خیال رہے کہ نوبیل امن انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی پاکستان میں لڑکیوں کی تعلیم سے متعلق سربراہی اجلاس میں شرکت کریں گی۔ ملالہ نے ’ایکس‘ پر ایک پوسٹ میں لکھا کہ ’میں لڑکیوں کی تعلیم پر ایک کانفرنس میں دنیا بھر کے مسلم رہنماؤں کے ساتھ شامل ہونے کے لیے پرجوش ہوں‘۔
ملالہ یوسف زئی کو 2012 میں پاکستانی طالبان کی فائرنگ سے زخمی ہونے کے بعد بیرون ملک منتقل کر دیا گیا تھا، پاکستان میں بعض لوگ ان کی سرگرمی سے مشتعل تھے اور اس کے بعد سے وہ صرف ایک بار ہی ملک واپس آسکی ہیں۔
ملالہ یوسف زئی نے کہا کہ اتوار کو میں تمام لڑکیوں کے اسکول جانے کے حقوق کے تحفظ کے بارے میں بات کروں گی، اس پر بھی بات ہوگی کہ کیوں عالمی رہنماؤں کو افغان خواتین اور لڑکیوں کے خلاف جرائم کے لیے طالبان کو جوابدہ ٹھہرانا چاہیے۔
ملالہ فنڈ چیریٹی کے ترجمان نے تصدیق کی ہے کہ وہ اس سمٹ میں ذاتی طور پر شرکت کریں گی۔ دو روزہ سربراہی اجلاس دارالحکومت اسلام آباد میں ہوگا، جس میں مسلم کمیونٹی میں لڑکیوں کی تعلیم پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔
او آئی سی کے خصوصی نمائندے برائے افغانستان طارق بخت اور او آئی سی کے دیگر حکام بھی کانفرنس میں شرکت کریں گے۔
اقوام متحدہ کے بچوں کے امور سے متعلق ادارے یونیسیف کا کہنا ہے کہ اس پابندی سے 10 لاکھ سے زیادہ لڑکیاں متاثر ہوئی ہیں۔
تاہم ادارے کے اندازے کے مطابق طالبان کے قبضے سے قبل 50 لاکھ لڑکیاں اسکول سے باہر تھیں جس کی وجہ سہولیات کی کمی اور دیگر مسائل تھے۔
لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی کی عالمی سطح پر مذمت کی گئی اور یہ اقدام طالبان کو افغانستان کے جائز حکمران کے طور پر تسلیم کرنے کی راہ میں حائل رکاوٹوں میں سے ایک ہے۔ لیکن طالبان اس عالمی ردعمل کو مسترد کرتے ہیں اور اسی نوعیت کے مزید اقدامات کرتے ہوئے انہوں نے خواتین اور لڑکیوں کو نہ صرف اعلیٰ تعلیم بلکہ عوامی سطح پر بیشتر ملازمتوں سےبھی محروم کر دیا ہے۔
طالبان نے چھٹی جماعت کے بعد لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے سے روک دیا کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ یہ اسلامی قانون یا شریعت کے مطابق نہیں ہے۔ انہوں نے لڑکوں کے لیے تعلیم پر پابندی عائد نہیں کی ۔ طالبان نے گزشتہ3برسوں میں ایسے حالات پیدا کرنے میں کوئی پیش رفت نہیں کی جو ان کے بقول لڑکیوں کی کلاسز میں شرکت کے لیے ضروری ہیں ۔
طالبان قیادت کا خیال ہے کہ خواتین کو کسی بھی نوعیت کے سماجی یا عوامی امور میں حصہ نہیں لینا چاہیے اور خاص طور پر انہیں تعلیم سے دور رکھنا چاہیے۔
طالبان نے 1990 کی دہائی کے اواخر میں بھی، جب افغانستان کا کنٹرول سنبھالا تھا، لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی لگائی تھی۔
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق 15 سے 19 سال عمر کی افغان لڑکیوں میں بچے پیدا کرنے کی شرح زیادہ ہے اور ان کے پاس ثانوی یا اعلیٰ تعلیم نہیں ہے۔

امدادی گروپوں کا کہنا ہے کہ خاندانوں کو درپیش مشکلات کے تناظر میں سکول نہ جانے کی صورت میں لڑکیوں کے لیے چائلڈ لیبر اور کم عمری کی شادی کا خطرہ بڑھ جاتا ہے
طالبان نے شریعت کے بارے میں اپنے نکتہ نظر کو عملی جامہ پہنانے کے لیے عشروں تک جہاد کیا ہے۔اب وہ آسانی سے اپنے مؤقف سے پیچھے نہیں ہٹ رہے ۔ پابندیاں، منجمد اثاثے، سرکاری سطح پر شناخت کا فقدان اور وسیع پیمانے پر مذمت جیسے عوامل کا بھی ان پر کوئی اثر نہیں ہوا۔
طالبان کے ساتھ تعلقات رکھنے والے ممالک اس حوالے سے اپنا اثرورسوخ استعمال کر سکتے ہیں۔ لیکن ان کی ترجیحات مختلف ہیں ,جن کے نتیجے میں لڑکیوں کی تعلیم کے بارے میں کسی اتفاق رائے کے امکانات کو کم کیا جا سکےافغانستان کے عوام میں یہ خواہش پائی جاتی ہے کہ طالبان کو کسی حد تک بین الاقوامی سطح پر قبولیت حاصل ہو تاکہ معیشت ترقی کر سکے ۔چاہے اسے مکمل طور پر تسلیم نہ بھی کیا جائے۔
90 کی دہائی میں طالبان دور کے مقابلے میں آج رائے عامہ زیادہ متعلقہ اور بااثر ہے۔ افغا ن عوام کی جانب سے اندرونی دباؤ بالآخر فرق پیدا کر سکے گالیکن لڑکیوں پر اس پابندی کے نتائج سے افغان مردوں پر اثر مرتب ہونے اورنتیجے میں بدامنی کی فضا پیدا ہونے میں برسوں لگ سکتے ہیں۔ ابھی یہ پابندی صرف لڑکیوں کو متاثر کررہی ہے اور یہ زیادہ تر خواتین ہیں جنہوں نےان پابندیوں کے خلاف احتجاج کیا ہے
یاد رہے کہ وہ قوم کسی شان کی حقدار نہیں,جس قوم کی عورت ابھی بیدار نہیں ہےامید ہے کہ افغان حکومت کے رہنماؤں کے موقف کو انٹرنیشنل گرلز ایجوکیشن کانفرنس بدل سکتی ہے۔وفاقی وزیر تعلیم خالد مقبول صدیقی نے کہا ہےکہ اسلامی دنیا اپنے حالات کی وجہ سے فیصلہ کن موڑ پر ہے، عالمی تعلیمی کانفرنس اسلام آباد ایک اہم سنگ میل ہے، تعلیم کے شعبے میں کانفرنس ایک بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ جدید تعلیم کے فروغ کے لیے عالم اسلام کو بہت کچھ کرنا ہے،
پاکستان نے افغانستان حکومت کو بھی انٹرنیشنل گرلز ایجوکیشن کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی ہے۔ ہم افغان معاشرے کی روایات کی قدر کرتے ہیں، خیال رہے کہ گزشتہ روز وفاقی وزیر تعلیم ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے اسلام آباد میں تعلیمی کانفرنس منعقد کرنے سے متعلق بتاتے ہوئے کہا تھا کہ چاروں صوبائی وزرائے تعلیم کانفرنس میں شرکت کریں گے، تعلیمی کانفرنس میں وزرائے اعلیٰ بھی شرکت کریں گے۔ اب خواتین کی تعلیم کا مقصد ایک بہتر گھر ایک بہتر نسل اور ایک بہتر مستقبل ہے، انٹرنیشنل کانفرنس برائے مسلم خواتین، چیلینجز اور مواقع کے نام سے یہ کانفرنس ہوگی۔وفاقی وزیر تعلیم کا کہنا تھا کہ چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے اسلامی ملکوں میں تعاون ضروری ہے، پاکستان کی آدھی آبادی خواتین پر مشتمل ہے،مزید یہ کہ وزارت برائے وفاقی تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیت اور مسلم ورلڈ لیگ کے باہمی طور پر منظم پروگرام موضوع ”مسلم کمیونٹیز میں لڑکیوں کی تعلیم، چیلنجز اور مواقع”کے سپیکرز کانفرنس کے پہلے سیشن کا موضوع خواتین کی تعلیم: رکاوٹیں اور ان کا حل ہےاور کلیدی مقررین میں ڈاکٹر بشریٰ مرزا وائس چانسلر فاطمہ جناح ویمن یونیورسٹی راولپنڈی، ڈاکٹر انیلہ کاما وائس چانسلر، راولپنڈی ویمن یونیورسٹی راولپنڈی جب کہ سیشن کا دو موضوع خواتین کی تعلیم اور اسلامی چارٹر ”ہے۔ کلیدی مقررین پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد وائس چانسلر، رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی اسلام آباد، محترمہ نگار سجاد ظہیر سابق چیئرپرسن جامعہ کراچی، سیشن کے تین کا موضوع ”انفارمیشن ٹیکنالوجی اور خواتین کی تعلیم ہے۔ کلیدی مقررین میں محترمہ عائشہ موریانی ایڈیشنل سیکرٹری (انچارج) وزارت موسمیاتی تبدیلی اسلام آباد، پروفیسر ڈاکٹر ضیاء القیوم ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ایچ ای سی اسلام آباد چوتھے سیشن کا موضوع ”امن کی تعمیر میں خواتین کا کردار ہے کانفرنس کے مقررین محترمہ بیلہ جمیل سی ای او ادارہ تعلیم وآگاہی (آئی ٹی اے) تعلیم و شعورسینٹر لاہور،-محترمہ آمنہ رسول برنارڈو صدر فلپائنی سنٹر فار اسلام اور ڈیموکریسی (پی سی آئی ڈی) فلپائن اور جناب جمشید قاضی، کنٹری نمائندہ یو این ویمن پاکستان ہیں۔ انٹرنیشنل پارٹنرشپس فار ایجوکیشن ان مسلم سوسائٹیز پلیٹ فارم کا افتتاح 11 جنوری 2025 کو “مسلم کمیونٹیز میں لڑکیوں کی تعلیم: چیلنجز اور مواقع” کے عنوان سے ہونے والی ایک عالمی کانفرنس پاکستان اسلام آباد میں کیا جائے گا۔ کانفرنس کا بنیادی مقصد مسلم کمیونٹیز میں لڑکیوں کی تعلیم کو آگے بڑھانے کے لیے حکومتوں، اسلامی تنظیموں اور سول سوسائٹی کے درمیان ایک اشتراکی نیٹ ورک قائم کرنا ہے۔تعلیم ہی قوم کے احساس وشعور کو نکھارتی اور نئی نسل کو زندگی گزارنے کا طریقہ سکھاتی ہے حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی قوم اور اس کے نونہالوں کو مجموعی طور پر دین سے روشناس کرانے، تہذیب وثقافت سے بہرہ ور کرنے، خصائل فاضلہ وشمائلِ جمیلہ سے مزین کرنے اورصالح نشوونمامیں اس قوم کی خواتین کا کرداراہم بلکہ مرکزی ہوتا ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ اسلام نے جہاں ایک طرف تحصیلِ علم پر خصوصی زور دیا ہے،وہیں دوسری طرف اس نے اس میں مرداور عورت کے درمیان تفریق نہیں کی اور اسے دونوں کے لیے یکساں ولازمی قرار دیا ۔ ’ ہر مسلمان پر خواہ وہ مرد یاعورت علم حاصل کرنا فرض ہے۔
‘‘ قرآن وحدیث سے واضح ہوتا ہے کہ معاشرے کی تشکیل صرف مرد تک ہی محدود نہیں بلکہ عورت بھی اس میں برابر کی حقدار ہے۔
عورت پر گھریلو ذمہ داریاں بھی ہوتی ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس کے لیے امور خانہ داری کے علاوہ دنیا کے باقی کام ممنوع ہیں، بلکہ خانگی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے بعد وہ اپنے ذوق اور رجحان کے لحاظ سے علمی‘ ادبی اور اصلاحی کاموں میں حصہ لے سکتی ہے۔ ایک مسلمان عورت ڈاکٹر، پروفیسر، انجینئر،عالمہ،شاعرہ، ادیبہ اور محققہ وغیرہ سب کچھ ہوسکتی ہے،کیوں کہ یہ اس کا پیدائشی ورثہ ہے۔
سورۃ علق میں مرد وعورت کی تفریق کیے بنا واضح کیا گیاکہ اسلام کا تصوّر علم بڑا وسیع ہے اوراس میں وہ سارے علوم شامل ہیں جو انسانیت کے لیے نفع مند ہیں۔
قرآن مجید کی متعدد آیات میں بھی سب کو تدبر و تفکر کی دعوت دی گئی ۔خود آپؐ نے خواتین کی تعلیم کی طرف خصوصی توجہ فرمائی اور سورۃ البقرۃ کی آیات کے متعلق فرمایا:
’’تم خود بھی ان کو سیکھو اور اپنی خواتین کو بھی سکھاؤ۔‘‘
اسی طرح آپ ؐ وفود کو بھی نصیحت فرماتے کہ:
’’تم اپنے گھروں میں واپس جاؤ، اپنے اہل خانہ کے ساتھ رہو، ان کو دین کی تعلیم دو اور ان سے احکامِ دینی پر عمل کراؤ۔‘‘ رابطہ عالم اسلامی کے زیر انتظام اسلامی فقہ اکیڈمی کے 23 ویں اجلاس میں دنیا بھر کے مسلمانوں کو تجویز دی گئی کہ وہ خواتین کو مختلف شعبوں میں مفید علم کے حصول کا موقع فراہم کریں,میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے معروف ماہر تعلیم میڈم نسرین اختر، ریجنل ڈائریکٹر راولپنڈی علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی نے کہا ہے کہ اسلام آباد میں ’’مسلم کمیونٹیز میں لڑکیوں کی تعلیم: چیلنجز اور مواقع‘‘ کے موضوع پر دو روزہ بین الاقوامی تعلیمی کانفرنس ایک کرن ہے۔ مسلم دنیا کے لیے امید اور ترقی، جو تعلیم کے لیے اجتماعی وابستگی کی علامت ہے۔
انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی کانفرنس پاکستان میں لڑکیوں کی تعلیم اور صنفی مساوات کے فروغ کے لیے قوم کے عزم کا اعادہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی میزبانی میں مسلم ممالک کو درپیش اہم چیلنجز اور ان سے نمٹنے کے لیے تعلیم کی ضرورت ہے۔ یہ کانفرنس اسلامی دنیا میں تعلیم میں پاکستان کی شراکت اور جدید تعلیم کی اہمیت کے مشترکہ اعتراف کی عکاسی کرتی ہے۔ لڑکیوں کی تعلیم معاشی ترقی، صحت کے نتائج کو بہتر بنانے اور سماجی استحکام کو فروغ دینے کا سب سے موثر ذریعہ ہے۔ ماہر تعلیم نے کہا کہ تعلیم یافتہ خواتین چیلنجز سے نمٹنے کے لیے متحد نظر آتی ہیں، کانفرنس کا مقصد لڑکیوں کی تعلیم میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنا ہے۔ کوئی بھی قوم حقیقی ترقی نہیں کر سکتی جب خواتین کو پسماندہ رکھا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام نے مرد اور عورت دونوں کے لیے علم کے حصول کی حمایت کی ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے علم کے حصول کو تمام مسلمانوں پر فرض قرار دیا، یہ کانفرنس اسلام میں متعین اقدار کی بروقت یاد دہانی ہے۔ لڑکیوں کو تعلیم دینا صرف افراد کو بااختیار بنانے کے بارے میں نہیں ہے، بلکہ یہ معاشروں کو تبدیل کرنے کے بارے میں ہے۔
انہوں نے کہا کہ تعلیم یافتہ ماں آنے والی نسلوں کی بنیاد ہوتی ہے اور انصاف اور ترقی پر مبنی معاشرے کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کرتی ہے۔
خواتین کو تعلیم دینے کا اثر بہت دور رس ہے جو صحت عامہ سے لے کر معاشی استحکام تک ہر چیز کو متاثر کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ کانفرنس لڑکیوں کی تعلیم میں سرمایہ کاری، جامع پالیسیوں کو فروغ دے کر اسلامی دنیا کے لیے ایک مثال قائم کرنے کا موقع ہے۔