(اصغر علی مبارک)
کشمیر (ٹی این ایس) یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پر آئی ایس پی آر کی جانب سے نیا نغمہ ’’کشمیر بنےگا پاکستان‘‘ جاری کردیا گیا ہے۔ ’کشمیر بنے گا پاکستان‘ نغمے کو پاکستان کے معروف گلوکار احمد جہانزیب نے گایا ہے، نغمے کی دھن عرفان سلیم اور کامران اللہ خان نے ترتیب دی ہے جبکہ اس کے بول عمران رضا نے لکھے ہیں۔ 5 فروری یوم یکجہتی کشمیرکی مناسبت سے تیار کیا جانے والا یہ نغمہ ایک عزم ہے، یہ نغمہ اظہار یکجہتی کرتا ہے کہ پورا پاکستان مقبوضہ وادی کے غیور کشمیروں کیساتھ کھڑا ہے۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں 5 فروری کو یوم یکجہتی کشمیر منایا جاتا ہے، بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی کا ایسا سلسلہ جاری ہے کہ انسانیت بھی شرماجائے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی جانب سے نسل کشی 76 سال سے جاری ہے، کشمیر جسے جنت نظیر سمجھا جاتا ہے آج وہاں کشمیر میں کوئی انسان محفوظ نہیں اور بھارتی جارحیت زوروں پر ہے۔ ہر سال پانچ فروری ’یوم یک جہتی کشمیر‘ کے طور منایا جاتا ہے، جس میں پاکستانی عوام کے علاوہ دنیا بھر میں مقیم کشمیری بھرپور حصہ لیتے ہیں۔ یہ دن منانے کا مقصد پاکستانی عوام کشمیریوں کے ساتھ اپنی مستقل حمایت کا اعادہ کرتے ہیں اور دنیا کو ایک بلند اور واضح پیغام دیتے ہیں کہ کشمیری انڈیا کی قابض افواج کے خلاف اپنی جدوجہد میں تنہا نہیں ہیں۔ کشمیری سے اظہار یک جہتی کے لیے سابق وزیر اعظم چوہدری شجاعت حسین نے پانچ فروری کو آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) کا اہتمام کیا ہے۔ اسلام آباد میں ہونے والی اے پی سی کے دعوت نامے کے مطابق اس کا مقصد ’کشمیری عوام کے ساتھ غیر متزلزل یک جہتی کا اظہار، کشمیر کی مؤثر وکالت کے لیے سفارتی اور سیاسی حکمت عملی وضع اور بین الاقوامی برادری کو صورت حال سے آگاہ رکھنے کے لیے مشترکہ قراردادیں اور قابل عمل اقدامات تیار کرنا ہے پاکستان نے ہمیشہ اقوام متحدہ سمیت ہر فورم پر کشمیر کی وکالت کی اور کشمیری عوام کا ایک اچھا وکیل ہونے کا ثبوت دیا۔ اے پی سی میں شرکت کی غرض سے پاکستان کی دس بڑی سیاسی جماعتوں کو دعوت نامے بھیجے گئے ہیں۔ ان پارٹیوں میں پاکستان مسلم لیگ ن، پاکستان پیپلز پارٹی، جمعیت علما اسلام، عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی)، جماعت اسلامی، پاکستان کے زیر اہتمام کشمیر کی مسلم کانفرنس، جمہوری وطن پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان، نیشنل پارٹی، پاکستان نظریاتی پارٹی، تحریک جوانان، پاکستان پارٹی اور استحکام پاکستان پارٹی شامل ہیں۔سوائے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے تمام سیاسی جماعتوں نے اے پی سی میں شرکت کی یقین دہانی کروائی ہے۔14 اگست 1947: برطانیہ سے آزادی کے بعد دو خود مختار ریاستیں پاکستان اور بھارت وجود میں آئیں، ریاستوں اور راجواڑوں کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ اپنے عوام کی منشا کے مطابق کسی بھی ملک میں شامل ہونے کا فیصلہ کر سکتی ہیں ۔کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت تھی مگر اس کے ہندو راجہ نے وقت پر کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ اکتوبر 1947: کشمیر میں جاری داخلی خانہ جنگی میں پاکستان سے قبائلی لشکر بھی شامل ہو گئے۔ 26 اکتوبر 1947: مہاراجہ نے بھارت سے مدد چاہتے ہوئے کشمیر کے بھارت کے ساتھ الحاق کی دستاویز پر دستخط کر دیئے تاہم یہ الحاق مشروط تھا کہ جیسے ہی حالات معمول پر آئیں گے کشمیر میں رائے شماری ہو گی ۔ 27 اکتوبر 1947: بھارت نے اپنی فوجیں ہوائی جہازوں کے ذریعے سری نگر میں اتار دیں تاکہ کشمیر میں ہونے والی بغاوت کو کچلا جا سکے جس کے نتیجے میں پاکستان اور بھارت کے درمیان پہلی جنگ چھڑ گئی
یکم جنوری 1948: بھارت نے مسئلہ کشمیر پر اقوام ِ متحدہ سے مدد مانگ لی ۔ 5 فروری 1948: اقوام متحدہ نے ایک قرار داد کے ذریعے فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا تاکہ وہاں رائے شماری کرائی جا سکے ۔ یکم جنوری 1949: اقوامِ متحدہ نے جنگ بندی کراتے ہوئے دونوں ممالک کی فوجوں کو جنگ بندی لائن کا احترام کرنے کا پابند کیا اور وہاں رائے شماری کرانے کا اعلان کیا ۔ 26 جنوری 1950: بھارتی آئین میں آرٹیکل 370 کا اضافہ جس میں ریاست جموں و کشمیر کو دفاع ، خارجہ اور مواصلات کے علاوہ خود مختار حیثیت دی گئی ۔ اکتوبر 1950: شیخ عبداللہ کی جماعت نیشنل کانفرنس نے جموں و کشمیر میں انتخابات کا مطالبہ کیا تاکہ ریاستی اسمبلی کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کرے ۔ 30 مارچ 1951: اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل نے کشمیر میں انتخابی عمل کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ اسمبلی رائے شماری کا متبادل نہیں ہے اور نہ ہی کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کر سکتی ہے ساتھ ہی ایک نمائندہ مقرر کرنے اور کشمیر کو غیر فوجی علاقہ قرار دینے کا اعلان کیا مگر اس پر عمل در آمد نہ ہو سکا ۔ ستمبر 1951: کشمیر کی اسمبلی کے انتخابات میں نیشنل کانفرنس نے تمام 75 نشستیں بلا مقابلہ حاصل کر لیں۔ 31 اکتوبر 1951: شیخ عبداللہ نے ریاستی اسمبلی میں اپنی پہلی تقریر میں ریاست کے بھارت کے ساتھ الحاق کے حق میں دلائل دیئے۔ جولائی 1952: شیخ عبدااللہ نے دہلی معاہدے پر دستخط کر دیئے جس کے تحت انڈیا کے زیرانتظام ریاست کو داخلی خودمختاری دی جائے گی۔ جولائی 1953: سائما پرشاد مکر جی نے 1952 سے کشمیر کے بھارت سے مکمل الحاق کے بارے میں جو تحریک شروع کر رکھی تھی اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ شیخ عبداللہ نے کشمیر کی خود مختاری کی تجویز دے دی۔ 8 اگست 1953: شیخ عبدالاللہ کو بطور وزیراعظم فارغ کرتے ہوئے گرفتار کر کے بھارت میں قید کر دیا گیا اور ان کی جگہ بخشی غلام محمد کو وزیر اعظم بنا کر مظاہرین کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کا ٹاسک سونپا گیا۔ 17 اگست 1953: بھارت اور پاکستان کے وزرائے اعظم کے درمیان دہلی میں ملاقات ہوئی جس میں اپریل 1954 کے آخر تک وہ کشمیر میں رائے شماری کے لیے ایڈمنسٹریٹر تعینات کرنے پر متفق ہو گئے ۔تاہم جیسے ہی پاکستان اور امریکہ کے درمیان سٹریٹجک تعلقات گہرے ہوئے تو بھارت نے اس مسئلے کو بھی سرد جنگ کا حصہ قرار دیتے ہوئے رائے شماری سے انکار کر دیا۔ فروری 1954: کشمیر کی اسمبلی نے بھارت کے ساتھ الحاق کر دیا۔ 14 مئی 1954: آئینی حکم نامہ 1954 جس کا تعلق ریاست جموں و کشمیر سے تھا اسے لاگو کر دیا گیا جو دہلی معاہدے کومنسوخ کرتے ہوئے ریاست کو بھارتی عمل داری میں دیتے ہوئے تمام شہری آزادیوں کو ختم کرتا تھا۔ 14 جنوری 1957: اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے ایک بار پھر 1951 کی قرارداد کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ ریاستی اسمبلی کسی طور بھی کشمیر کے مستقبل کے بارے میں فیصلے کا اختیار نہیں رکھتی اور نہ ہی یہ رائے شماری کا متبادل ہے۔ 26 جنوری 1957: ریاستی اسمبلی نے جموں و کشمیر کا آئین نافذ کیا جس کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو بھارتی یونین کا حصہ قرار دیا گیا تھا۔ 9 اگست 1955: رائے شماری محاذ قائم کیا گیا جس نے شیخ عبداللہ کی رہائی اور اقوام ِ متحدہ کی زیر نگرانی کشمیر میں رائے شماری کا مطالبہ کیا۔ 20 اکتوبر تا 20 نومبر 1962: لداخ میں بھارت اور چین کے مابین ایک سرحدی تنازعے نے جنگ کی شکل اختیار کر لی جس کے نتیجے میں لداخ کے ایک بڑے علاقے پر چین قابض ہو گیا۔ مارچ 1965: بھارتی پارلیمنٹ نے ایک بل پاس کیا جس کے تحت کشمیر کو بھارت کو صوبہ قرار دیتے ہوئے بھارت کو وہاں گورنر تعینات کرنے، کشمیر میں حکومت کو برطرف کرنے اور اسے آئین سازی سے روکنے کے اختیار حاصل ہو گئے ۔ 23 اگست تا سمبر 1965: پاکستان اور بھارت کے درمیان دوسری جنگ چھڑ گئی جس نے 1949 کے فائر بندی معاہدے کو ختم کر دیا۔ 10 جنوری 1966: بھارت اور پاکستان کے مابین تاشقند معاہدے پر دستخط ہو گئے جس کے تحت دونوں ممالک اپنی اپنی افواج کو جنگ سے پہلے والی پوزیشنوں پر لانے میں متفق ہو گئے ۔ 3-16 دسمبر 1971: پاکستان اوربھارت میں جنگ کے نتیجے میں مشرقی پاکستان علیحدہ ہو کر بنگلہ دیش بن گیا ۔ فروری 1972: محاذ برائے رائے شماری پر پابندی لگا دی گئی کہ وہ ریاستی اسمبلی کے انتخابات نہیں لڑ سکتا۔ 2 جولائی 1972: پاکستان اور بھارت کے درمیان شملہ معاہدہ ہو ا جس میں اقوام ِ متحدہ کی فائر بندی لائن کو لائن آف کنٹرول قرار دیا گیا مزید یہ کہ اس معاہدے کی رو سے فریقین اس مسئلے کو دو طرفہ مذاکرات سے حل کریں گے ۔13 نومبر 1974: شیخ عبداللہ کو رہا کر کے اسے بطور وزیر اعلی ٰ بحال کر دیا گیا ۔جبکہ اس کے نائب وزیر اعلیٰ نے بھارت کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کر دیئے جس کے تحت ریاست جموں و کشمیر بھارت کاآئینی حصہ ہو گا اس طرح وہ 1953 میں اپنے خود مختاری کے دعوے سے پھر گئے ۔ 23 مئی 1977: شیخ عبداللہ نے دھمکی دی کہ بھارت کے ساتھ الحاق اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک بھارت آرٹیکل 370 کے تحت کشمیر کو داخلی خود مختاری نہیں دیتا ۔ 8 ستمبر 1982: شیخ عبداللہ انتقال کر گئے جس کے بعد ان کے بیٹے فاروق عبداللہ نے قیادت سنبھال لی ۔ اپریل 1984: بھارت نے سیاچین گلیشئر پر قبضہ کر لیا ۔ جون 1984: بھارت کے تعینات کردہ گورنر اور ہندو قوم پرست رہنما جگموہن نے فاروق عبداللہ کو معطل کر کے نیشنل کانفرنس کے غلام محمد شاہ کو وزیراعلیٰ نامزد کر دیا جس سے کشمیر میں مظاہرے پھوٹ پڑے جس پر غلام محمد شاہ نے کشمیر میں کرفیو نافذ کر دیا ۔ 7 مارچ 1986: جگموہن نے غلام محمد شاہ کو وزارت ِ اعلیٰ سے برخاست کرتے ہوئے خود اختیارات سنبھال لیے اور مسلمانوں کی سرکاری نوکریوں پر پابندی لگا دی ۔ 23 مارچ 1987: مسلم یونائیٹڈ فرنٹ جو کہ ایک مقبول جماعت تھی اس نے انتخابات میں حصہ لیا مگر کانگریس اور مسلم کانفرنس کا اتحاد جیت گیا جس پر دھاندلی کے الزامات لگے 1989: بھارتی حکمرانی کے خلاف مسلح تحریک شروع ہو گئی جس کی قیادت مسلم یو نائیٹڈ فرنٹ کے ممبران کر رہے تھے سال کے ایک تہائی دنوں میں ہڑتالیں رہیں ریاستی اسمبلی کے انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا گیا 1990: بغاوت جاری رہی پاکستان سے بڑی تعداد میں مجاہدین وادی میں داخل ہو گئے ۔ 20 جنوری 1990: جگموہن سنگھ کو گورنر تعینات کرنے کے اگلے روز بھارتی پیرا ملٹری ریزرو پولیس فورس نے گوکدل میں نہتے مظاہرین پر گولی چلا دی ا س قتل عام کے خلاف پورے کشمیر میں پر تشدد مظاہرے پھوٹ پڑے ۔ یکم مارچ 1990: سری نگر میں اقوام متحدہ کے ملٹری آبزرور گروپ کے دفتر کے سامنے پانچ لاکھ سے زائد کشمیریوں نے مارچ کیا جنہوں نے کشمیر میں اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق رائے شماری کا مطالبہ کیا۔جس پر بھارتی فوج نے مظاہرین پر دو مقامات پر فائرنگ کر دی ۔ذکورا کراسنگ میں 26 اور تنگ پورہ بائی پاس پر 21 شہری مارے گئے ۔ 30 مارچ 1990: جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے رہنما اشفاق وانی کے جنازے میں بہت بڑا اجتماع ہوا ۔ 6 جنوری 1993: بھارتی بارڈر سیکورٹی پولیس نے عسکریت پسندوں کے ایک حملے کا بدلہ لینے کے لیے سوپور میں 55 شہریوں کو ہلاک کر دیا۔ مارچ 1993: سیاسی، سماجی اور مذہبی گروپوں پر مشتمل آل پارٹیز حریت کانفرنس نے حق خود اختیاری کا مطالبہ کیا ۔ 1998: پاکستان اور بھارت دونوں کی جانب سے جوہری ہتھیاروں کے تجربات کیے گیے 21 فروری 1999: بھارتی وزیر ا عظم اٹل بہاری واجپائی اور پاکستانی وزیر اعظم نوازشریف نے اعلان لاہور پر دستخط کئے جس کے تحت کشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب مسائل کو باہمی مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کا اعادہ کیا گیا۔ جولائی 1999: پاکستان وبھارت کے درمیان کارگل جنگ چھڑ گئی ۔ 2000: ایک دہائی سے جاری کشمیر میں عسکری تحریک نئے مرحلے میں داخل ہو گئی جس میں پر امن اور غیر متشدد طریقے اختیار کرنے پر زور دیا گیا۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان سفارتی تعلقات بحال ہو گئے۔ 11 مارچ 2001: اقوام ِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل کوفی عنان نے دونوںممالک کو اعلانِ لاہور کے تحت آگے بڑھنے کا مشورہ دیا جس پر جولائی 2001 میں مشرف اور واجپائی کے درمیان آگرہ میں ملاقات ہوئی مگر کوئی اعلان جاری نہ ہو سکا ۔ اکتوبر 2001: کشمیر اسمبلی سری نگر پر حملے کے نتیجے میں 38 افراد ہلاک ہوئے۔ دسمبر 2001: بھارتی پارلیمنٹ پر نئی دہلی میں حملہ ہوا 2004 : مسئلہ کشمیر پر بیک چینل روابط کے ذریعے دونوں ممالک نے کشمیری قیادت کے ساتھ مزاکرات کئے اپریل 2005: مظفر آباد سری نگر بس سروس شروع ہوئی ۔ مئی 2008: بھارتی حکومت اور جموں و کشمیر کی حکومت کی جانب سے ہندو شری امرناتھ شرائن بورڈ کو زمین منتقل کرنے کے فیصلے کے خلاف کشمیر بھر میں مظاہرے شروع ہو ئے جو جو کہ 1990 کے بعد سب سے بڑے مظاہرے تھے مسلح پولیس نے مظاہرین پر فائر نگ کی اور کشمیر اور بھارت کو ملانے والی سڑک بلاک ہو کر رہ گئی۔ 21 فروری 2009: بومائی میں بھارتی فوج نے دو عبادت گزاروں کو جان بوجھ کر گولی مار دی جس پر بومائی اور ملحقہ علاقوںمیں مظاہرے شروع ہو گئے جس پر کرفیو لگانا پڑا۔ 29 مئی 2009: دو خواتین 22سالہ نیلوفرجان اور 17 سالہ عائشہ جان کو شوپیاں میں اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ جون 2009: کشمیر بھر میں مظاہرے شروع ہو گئے جنہوں نے سینٹرل پولیس ریزرو فورس کو زیادتی اور قتل کا ذمہ دار ٹھہرایا جس پر شوپیاں میں کرفیو لگا دیا گیا۔ 30 اپریل 2010: ماشیل سیکٹر میں بھارتی فوج نے تین عسکریت پسندوں کو لائن آف کنٹرول کرا س کرنے کے الزام میں موت کے گھاٹ اتار دیا بعد ازاں معلوم ہوا کہ یہ مرنے والے تینوں عام کشمیری تھے 11 جون 2010: 17 سالہ ظفیل احمدمٹو جو سکول سے گھر آ رہا تھا اس وقت ہلاک ہو گیا جب آنسو گیس کا ایک شیل اس کے قریب آ کر سر پر مارا گیا ۔اس کے نتیجے میں بھی مظاہرے پھوٹ پڑے جس سے نمٹنے کے کئے کرفیو لگا کر سینکڑوں کشمیریوں کو ہلاک کر دیا گیا۔ اگست 2011: وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے ان 1200 نوجوانوں کے لیے عام معافی کا اعلان کیا جو کہ گزشتہ سال حکومت کے خلاف مظاہروں میں سیکورٹی فورسز پر پتھر پھینکنے میں ملوث تھے ۔بھارت کے ریاستی ہیومن رائٹس کمیشن نے لائن آف کنٹرول کے قریب ایسی اجتماعی قبروں کی نشاندہی کی جہاں 2000 کے قریب نامعلوم لوگ دفنائے گئے تھے خیال کیا جاتا ہے کہ ان میں وہ کارکن بھی شامل تھے جنہیں بھارتی فوجوں نے گرفتار کر رکھا تھا یا جنہیں غائب کر دیا گیا تھا۔1989 سے اب تک ایک لاکھ سے زیادہ لوگ مارے جا چکے تھے ۔ فروری 2013: کشمیری جیش محمد کے کارکن محمد افضل گرو جن پر 2001 میں بھارتی پارلیمنٹ پر حملے کا الزام تھا انہیں پھانسی دیئے جانے کے خلاف وادی میں مظاہرے ہوئے جن کے نتیجے میں دو افراد ہلاک کر دیئے گئے ۔ ستمبر 2013: پاکستان و بھارتی وزرائے اعظم کی ملاقات میں لائن آف کنٹرول کے آر پار تشدد کو کم کرنے پر اتفاق کیا اگست 2014: بھارت نے یہ کہہ کر پاکستان سے مذاکرات ختم کر دیئے کہ نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمشنر نے کشمیری علیحدگی پسندوں کے ساتھ مذاکرت کئے تھے ۔ اکتوبر 2014: پاکستان اور بھارت میں سرحدوں پر کشیدگی ، دونوں طرف 18 ہلاکتوں کی تصدیق کی مارچ 2015: تاریخ میں پہلی بار بی جے پی نے کشمیر میں مقامی جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے ساتھ مل کر حکومت بنائی اور مفتی محمد سعید کو وزیراعلیٰ چنا گیا۔ ستمبر 2015: کشمیر میں مسلمانوں نے بڑے گوشت پر پابندی کے خلاف اپنی دوکانیں اور تجارتی مراکز بند کئے۔ اپریل 2016: محبوبہ مفتی اپنے باپ مفتی سعید کے بعد کشمیر کی پہلی خاتون وزیر اعلیٰ بنیں۔ جولائی 2016: حزب المجاہدین کے سرکردہ کمانڈر برہان وانی کی شہادت کے بعد ہونے والے مظاہروں کے نتیجے میں کشمیر میں کرفیو لگا دیا گیا۔ اگست 2016: وادی میں جاری 50 روزہ کرفیو میں نرمی کی گئی ۔ برہان وانی کی ہلاکت کے بعد وادی میں مظاہروں اور تشدد کی لہر کے نتیجے میں 68 شہری ہلاک اور 9000 لوگ زخمی ہوئے۔ ستمبر 2016: کشمیر میں ایک فوجی بیس پر حملے کے نتیجے میں 18 بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد پاکستان اور بھارت میں دھمکیوں کا تبادلہ۔ نومبر 2016: لائن آف کنٹرول پر جھڑپ میں سات پاکستانی فوجیوں کی شہادت کے بعد آزاد کشمیر میں ایل او سی پر بڑی تعداد میں لوگوں کو محفوظ مامات پر منتقل کیا گیا۔ مئی 2017: حریت کمانڈر سبزار احمد بھٹ کی نماز جنازہ میں شمولیت کے لیے ہزاروں لوگوں نے کرفیو کو توڑ ڈالا۔ جولائی 2017: ہندو یاتریوں پر حملے کے نتیجے میں سات افراد ہلاک ہو گئے۔ 14 فروری 2019: پلواما میں ایک خود کش حملے کے نتیجے میں 40 بھارتی فوجی ہلاک ہو گئے۔ 21 فروری 2019: بھارت نے پاکستان کا پانی بند کرنے کی دھمکی دی۔ 26 فروری 2019: بھارت نے بالا کوٹ میں مجاہدین کے ایک کیمپ پر فضائی حملہ کیا اور کئی مجاہدین کو مارنے کا دعویٰ کیا۔ 27 فروری 2019: پاکستان نے بھارت کے دو طیاروں کو مار گرایا اور ایک بھارتی پائلٹ کو گرفتار کر لیا۔
5 اگست 2019: بھارتی حکومت نے آئین میں سے آرٹیکل 370 کو ختم کر دیا جو کہ کشمیر کو خصوصی حیثیت دیتا تھا ۔اس طرح کشمیر کو بھارتی یونین میں ضم کر دیا گیا۔16 اگست 2019: 1965 کے بعد پہلی بار کشمیر کے مسئلے پر اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس ہوا۔کشمیریوں نے کئی صدیاں پانڈو، موریا، کوشان، گوناندیا، کرکوٹا، اتپالا اور لوہارا جیسے بیرونی حکمرانوں کے تحت گزاریں۔ کشمیر کی تاریخ کو عام طور پر چار ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے: ہندو راجاؤں کا قدیم دور، جس کی تفصیل کلہن پنڈت کی لکھی ہوئی قدیم کتاب ‘راجترنگنی’ میں ملتی ہے، کشمیری مسلمانوں کا دور، جنھیں سلاطین کشمیر کہا جاتا ہے، مغل دور جسے شاہان مغلیہ کہا جاتا ہے اور پٹھانوں کا دور جسے شاہان درانی کہا جاتا ہے۔ان میں سے تمام غیر کشمیری ادوار میں جو بات مشترک تھی وہ کشمیریوں پر ہونے والے مظالم اور ان کا استحصال ہے، جو کہ تاریخ کی کئی کتابوں میں درج ہے۔ ان مظالم اور استحصال کے باوجود آٹھویں سے چودہویں صدی تک کشمیر کسی نہ کسی حد تک خود مختار اور خوشحال تھا۔ چودھویں صدی میں اسلام کشمیر پہنچا اور آبادی کا ایک بڑا حصہ مسلمان ہو گیا۔مغلیہ سلطنت نے 1586 سے 1751 تک کشمیر پر حکومت کی۔ 1752-54 کے دوران افغانستان کے احمد شاہ ابدالی نے مغلوں سے کشمیر کو حاصل کر کے کشمیر پر جابرانہ تسلط قائم کیا۔ کشمیر میں افغان درانی دور 1819 تک چلا جب پنجاب کے مہاراجہ رنجیت سنگھ کی قیادت میں سکھوں نے شوپیاں کی جنگ میں افغان گورنر جبار خان کو شکست دی۔سنہ 1822 میں رنجیت سنگھ نے گلاب سنگھ کو، جن کا تعلق ہندو ڈوگرا برادری سے تھا، ان کی خدمات کے عوض جموں کا راجہ بنا دیا۔ گلاب سنگھ نے اس میں راجوری، پونچھ، بدرواہ اور کشتوار کا اضافہ کیا۔
1839 میں رنجیت سنگھ کی وفات کے بعد گلاب سنگھ کا مقام مزید نمایاں ہو گیا۔ سنہ 1845 میں برطانیہ نے یہ کہہ کر سکھوں کے ساتھ جنگ چھیڑ دی کہ مہاراجہ وقت نے مہاراجہ رنجیت سنگھ کے ساتھ 1809 میں طے پانے والے معاہدہ امرتسر کی خلاف ورزی کی ہے، جس کے ذریعے سکھ سلطنت کی مشرقی سرحدیں طے ہوئی تھیں۔ سکھ مہاراجہ جنگ ہار گئے اور نو مارچ 1846 کے معاہدہ لاہور کے تحت طے ہونے والا جرمانہ ادا نہیں کر سکے، جس کے بعد انھیں کشمیر سمیت دیگر زمینیں بھی ایسٹ انڈیا کمپنی کے نام کرنا پڑیں۔ان کی کامیابی یقینی بنانے میں کردار ادا کرنے کے لیے برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی نے جموں کے راجہ گلاب سنگھ کو مہاراجہ بنا دیا اور 1846 کے معاہدہ امرتسر (ٹریٹی آف امرتسر) کے تحت تقریباً 5380پچھتر لاکھ روپے میں (لگ بھگ ایک لاکھ پاؤنڈ) انھیں کشمیر بیچ دیا۔1846 کے معاہدہ امرتسر پر، جسے عام زبان میں ’سیل ڈیڈ‘ بھی کہا جاتا ہے، 16 مارچ 1846 کو دستخط کیے گئے۔ جموں کے مہاراجہ گلاب سنگھ اور برطانیہ کی طرف سے دو ارکان، فریڈرک کیوری اور بریور میجر ہنری مونٹگومری لارنس اور اس پر ہارڈنج کی مہر لگائی گئی۔اس معاہدے کا اطلاق ’دریائے سندھ کے مشرق اور دریائے راوی کے مغرب کے پہاڑی خطے اور اس کے ماتحت علاقوں، بشمول چمب پر تھا لیکن اس میں ’لاہول‘ کا علاقہ شامل نھیں تھا جس پر نو مارچ 1846 کے معاہدہ لاہور کے آرٹیکل چار کے تحت برطانیہ کا دعوی تھا۔گلاب سنگھ کو دیے جانے والے اس سارے خطے کی مشرقی سرحدوں کا تعین کرنے کے لیے دونوں اطراف کے ارکان پر مشتمل ایک ٹیم کو سروے کرنے کا ذمہ دیا جانا تھا۔ سرحدوں میں کسی بھی طرح کی تبدیلی کے لیے برطانوی حکام کی رضامندی لازمی تھی اور مہاراجہ اور ہمسایہ ریاستوں کے درمیان کسی بھی طرح کا جھگڑا بھی برطانوی حکام نے ہی طے کرنا تھا۔ معاہدے کے تحت مہاراجہ اور ان کے وارثوں کی فوجیں ’پہاڑوں کے اندر‘ یا اس سے متصل علاقوں میں ضرورت پڑنے پر برطانوی فوجیوں کا ساتھ دینے کی پابند ہوں گی۔ ایک شق یہ بھی تھی کہ مہاراجہ برطانوی حکومت کی رضامندی کے بغیر کسی بھی برطانوی، یورپی یا امریکی شخص کو اپنی خدمت میں نہیں رکھیں گے۔