اصغر علی مبارک
اسلام آباد (ٹی این ایس) پاکستان سرحد پار سے دہشت گردی کا شکار ہے،سیکورٹی فورسز دہشت گردی کی تمام شکلوں ختم کرنے کے لیے پرعزم ہیں11 مارچ 2025 کو کوئٹہ سے پشاور جانے والی جعفر ایکسپریس پر سبی کے قریب بھاری ہتھیاروں سے لیس دہشت گردوں نے حملہ کیا۔ دہشت گردوں نے ریلوے ٹریک کو دھماکے سے اڑانے کے بعد ٹرین کا کنٹرول سنبھال لیا اور مسافروں بشمول خواتین، بچوں اور بوڑھوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرتے ہوئے یرغمال بنا لیا۔ سیکورٹی فورسز نے فوری طور پر صورتحال پر جوابی کارروائی کی۔ غیر متزلزل حوصلے اور پیشہ ورانہ مہارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہمارے بہادر دستوں نے دہشت گردوں کو درستگی کے ساتھ نپٹایا سیکورٹی فورسز نے ایک طویل، شدید اور جرأت مندانہ آپریشن کے بعد مرحلہ وار یرغمالیوں کو بازیاب کرتے ہوئے خودکش بمباروں سمیت تمام 33 دہشت گردوں کو کامیابی سے ختم کیا۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ اس شدید تعطل کے مرحلے کے دوران، دہشت گردوں نے کلیئرنس آپریشن شروع ہونے سے پہلے ہی 21 معصوم یرغمالیوں کی جانیں لے لیں۔
مزید برآں سیکورٹی فورسز کے 4 بہادر جوانوں نے لازوال قربانی دی اور شہادت کو گلے لگا لیا۔ پاکستان کی سیکورٹی فورسز کیا متاثرین کے اہل خانہ اور بازیاب کرائے گئے یرغمالیوں کو مدد فراہم کی.اس گھناؤنے فعل کے مرتکب افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائےانٹیلی جنس رپورٹس نے واضح طور پر اس بات کی تصدیق کی ہے کہ یہ حملہ افغانستان سے کام کرنے والے دہشت گردوں کے سرغنوں نے ترتیب دیا تھا اور اس کی ہدایت کاری کی تھی، جو پورے واقعے کے دوران دہشت گردوں کے ساتھ براہ راست رابطے میں تھے۔ پاکستان توقع کرتا ہے کہ افغان حکومت اپنی ذمہ داریوں کو نبھاے گی اور پاکستان کے خلاف دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے اپنی سرزمین کے استعمال سے انکار کرے گی۔ سیکورٹی فورسز
دہشت گردی کی تمام شکلوں ختم کرنے کے اپنے عزم پر ثابت قدم ہیں۔ معصوم شہریوں اور ہمارے بہادر سپاہیوں کی قربانیاں ہماری قوم کی ہر قیمت پر حفاظت کے لیے ہمارے غیر متزلزل عزم کو مزید تقویت دیتی ہیں۔ترجمان دفتر خارجہ شفقت علی خان نے کہا ہے کہ جعفر ایکسپریس پر حملے میں افغانستان کی سرزمین استعمال ہوئی ہے، جبکہ اس واقعے کے دوران ٹریس شدہ کالز میں افغانستان سے رابطوں کا سراغ ملا ہے۔ ہفتہ وار پریس بریفنگ کے دوران ترجمان دفتر خارجہ شفقت علی خان نے کہا کہ پاکستان سرحد پار سے دہشت گردی کا شکار ہے، جعفر ایکسپریس پر حملے میں ملوث دہشت گردوں کے بیرون ممالک رابطے تھے۔پاکستانی حکومت کثیر الجہتی حکمت عملی پر گامزن ہے، ہم نے ابھی جعفر ایکسپریس ٹرین دہشت گردی پر ریسکیو آپریشن مکمل کیا ہے، ماضی میں بھی ہم ایسے واقعات کی مکمل تفصیلات افغانستان کے ساتھ شئیر کرتے رہتے ہیں۔شفقت علی خان نے کہا کہ افغانستان پر ہماری بنیادی ترجیح دوستانہ و قریبی تعلقات کا فروغ ہے، اس سمت میں تعلقات کا تسلسل اہم ہے، انہوں نے کہا کہ بھارت، پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث رہا ہے، ہماری پالیسی میں اس حوالے سے کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ ہم طورخم سرحد کو کھلا رکھنا چاہتے ہیں، یہ پروپیگنڈا ہے کہ پاکستان طورخم سرحد کو کھلنے نہیں دے رہا، افغانستان کی جانب سے پاکستانی سرحد کے اندر چوکی بنانے کی کوشیش کی جا رہی تھی,پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا ہے کہ جعفر ایکسپریس کے یرغمالی مسافر بازیاب ہوگئے اور تمام 33 دہشتگرد ہلاک کردیے گئے، تاہم آپریشن شروع ہونے سے پہلے دہشت گردوں نے 21شہریوں کو شہید کیا۔لیفٹننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے بتایا کہ 11 مارچ کو تقریباً ایک بجے دہشت گردوں نے بولان پاک کے علاقے اوسی پور میں ریلوے ٹریک کو دھماکے سے اڑایا، وہاں جعفر ایکسپریس ٹرین آرہی تھی، ریلوے حکام کے مطابق اس ٹرین میں 440 مسافر موجود تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ دشوار گزار علاقہ ہے، دہشتگردوں نے پہلے یہ کیا کہ یرغمالیوں کو انسانی شیلڈ کے طور پر استعمال کیا، جس میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں، بازیابی کا آپریشن فوری طور پر شروع کر دیا گیا، جس میں آرمی، ایئر فورس، فرنٹیئر کور اور ایس ایس جی کے جوانوں نے حصہ لیا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ مرحلہ وار یرغمالیوں کو رہا کروایا گیا، یہ دہشتگرد دوران آپریشن افغانستان میں اپنے سہولت کاروں اور ماسٹر مائینڈ سے سیٹلائیٹ فون کے ذریعے رابطے میں رہے، کل شام تک 100 کے لگ بھگ مسافروں کو دہشتگردوں سے بحفاظت بازیاب کروا لیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ آج بھی بڑی تعداد میں یرغمال مسافروں کو بشمول خواتین اور بچوں کو بازیاب کروایا گیا اور یہ سلسلہ وقتاً فوقتاً جاری رہا، شام کو جب فائنل کلیئرنس آپریشن ہوا ہے، اس میں تمام مغوی مسافروں کو بازیاب کروایا گیا، کیونکہ یہ دہشت گرد مسافروں کو ہیومن شیلڈ کے طور پر استعمال کررہے تھے اس لیے انتہائی مہارت اور احتیاط کے ساتھ یہ آپریشن کیا گیا۔ لیفٹننٹ جنرل احمد شریف نے بتایا کہ سب سے پہلے فورسز کے نشانہ بازوں نے خودکش بمباروں کو جہنم واصل کیا، پھر مرحلہ وار بوگی سے بوگی کلیئرنس کی اور وہاں پر موجود تمام دہشت گردوں کو جہنم واصل کر دیا گیا۔ان کا کہنا تھا کہ وہاں پر موجود تمام دہشت گردوں کو جہنم واصل کر دیا گیا ہے، اور ان کی کل تعداد 33 ہے،
کلیئرنس آپریشن کے دوران کسی بھی معصوم مسافر کو نقصان نہیں پہنچا، لیکن کلیئرنس آپریشن سے پہلے جو مسافر دہشتگردوں کی بربریت کا شکار ہوئے اور شہید ہوئے، ان کی تعداد 21 ہے۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے مزید بتایا کہ اس کے علاوہ ریلوے پکٹ پر تعینات 3 ایف سی جوان شہید ہوئے جبکہ کل ایف سی کا ایک جوان دوران آپریشن شہید ہوا۔ لیفٹننٹ جنرل احمد شریف کا کہنا تھا کہ موقع پر موجود تمام دہشت گرد ہلاک کیے جا چکے ہیں، انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ مغوی مسافر جو آپریشن کے دوران دائیں، بائیں علاقوں کی طرف بھاگے ہیں، ان کو بھی اکٹھا کیا جارہا ہے، یہ بات ضرور کہنا چاہوں گا کہ کسی کو اس بات کی اجازت ہرگز نہیں دی جاسکتی کہ وہ پاکستان کے معصوم شہریوں کو سڑکوں پر، ٹرینوں میں، بسوں میں یا بازاروں میں اپنے گمراہ کن نظریات اور اپنے بیرونی آقاؤں کی ایما اور ان کی سہولت کاری پر نشانہ بنائیں۔ان کا کہنا تھا کہ جو لوگ ایسا کرتے ہیں، بالکل واضح کردوں کہ ان کو مارا جائے گا اور ان کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا، یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ جعفر ایکسپریس کے واقعے نے گیمز کے رولز تبدیل کر دیے ہیں، کیونکہ ان دہشتگردوں کا دین اسلام، پاکستان اور بلوچستان سے کوئی تعلق نہیں۔ان کا کہنا تھا کہ جو فائنل کلیئرنس آپریشن ہوا، اس سے پہلے جو ہمارے جوان ہیں، انہوں نے پہلے خودکش بمباروں کا خاتمہ کیا، اس کے بعد یرغمال بنائے گئے مسافر وہاں سے بھاگے، اسی طرح جو پارٹی آپریشن کر رہی تھی، وہ بوگی میں گئی اور وہاں پر بھی پہلے خودکش بمباروں کو جہنم واصل کیا اس کے بعد بوگی سے بوگی کو کلیئر کیا گیا۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ اس لیے کلیئرنس آپریشن کے دوران کسی بھی مسافر کو کوئی نقصان نہیں پہنچا، جس میں بچے اور خواتین بھی شامل تھیں، اس آپریشن میں پاکستان ایئر فورس بھرپور طریقے سے شامل تھی اور ان کی پوری سپورٹ تھی اس آپریشن میں۔ان کا کہنا تھا کہ بہت ہی پروفیشنل طریقے سے آپریشن کیا گیا ہے، اور تمام 33 دہشت گرد مارے جا چکے ہیں۔ سوشل میڈیا کے کردار کے حوالے سے بات کرتے ہوئے لیفٹننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے بتایا کہ یہ بات قابل غور ہے کہ جیسے ہی واقعہ ہوتا ہے کہ تو چند منٹوں میں بھارتی میڈیا میں نہ صرف اس واقعے کی گمراہ کن رپورٹنگ شروع ہو جاتی ہے، پرانی تصاویر، پرانی فوٹیجز کے علاوہ مصنوعی ذہانت سے بنی ہوئی ویڈیوز اور تصاویر بھی نشر کرنا شروع کر دی جاتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ دہشتگردوں اور ان کے آقاؤں کا گٹھ جوڑ پوری دنیا کے سامنے واضح ہو جاتا ہے، یہ پہلے بھی واضح ہے، جب کلبھوشن یادیو کا واقعہ ہوا کہ کس طرح وہ بلوچستان میں دہشت گردی کو فروغ دے رہے ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان میں بھی کچھ مخصوص سیاسی عناصر بھی بڑھ چڑھ کر اپنے سوشل میڈیا کو فعال کر لیتے ہیں، اور بجائے اس کے وہ ریاست پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں، وہ دہشت گردی کے اس بھیانک عمل کے لیے بے بنیاد جواز پیدا کرتے نظر آتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بڑا افسوس ہوتا ہے کہ کچھ ذاتی اقتدار کی ہوس میں کچھ عناصر قومی مفاد کو بھی بھیٹ چڑھا رہے ہیں، ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ پاکستان کے باشعور عوام ان تمام چیزوں کو نہ صرف دیکھ رہے ہیں بلکہ انتشاری سیاست کی پیچھے جو پیچیدہ ہاتھ ہیں، ان کو سمجھ آ رہے ہیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ قانونی طور پر اندورنی امن عامہ اور قانون کا نفاذ کس کی ذمہ داری ہے، جو لوگ عوام کو گمراہ کرنے کے لیے ایسے جھوٹے بیانیے بناتے ہیں، ان کو چاہے کہ پہلے خود تو اس معاملے میں قانون کا احاطہ کر لیں کہ آئین اور قانون اس معاملے میں کیا کہتا ہے۔ ترجمان پاک فوج نے کہا کہ دوسری بات یہ ہے کہ یہ جو دہشتگردی ہے، روزانہ کی بنیاد پر 107 انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن افواج پاکستان کرتی ہے، آئے روز ہماری شہادتیں اور قربانیاں اس قوم، پوری دنیا کے سامنے مزاحمت کی علامت ہیں۔ لیفٹننٹ جنرل احمد شریف چوہدری کا کہنا تھا کہ اصل جو سوال ہے کہ جس کی وجہ سے گمراہ کن پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے، وہ تو یہ ہے، یہ بتایا جائے کہ وہ تمام عوامل جو دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ضروری ہیں، اور جن میں لیڈ سیاسی اور معاشرتی حوالے نے لینی ہے، اس کا کیا کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مثلاً پاکستان میں ٹیرر کرائم نیکسز ہے، اس معاملے کے کیا حالات ہیں، مثلاً قانون کے مطابق دہشت گردوں کو سخت سے سخت سزائیں ملنی چاہئیں، ہم وہاں کہاں کھڑے ہیں؟دریں اثنا، صدرمملکت آصف علی زرداری اور وزیراعظم محمد شہباز شریف نے علیحدہ علیحدہ بیان میں جعفر ایکسپریس آپریشن مکمل کرنے اور یرغمال شہریوں کو بازیاب کرنے پر پاک فوج اور سیکیورٹی فورسز کو خراج تحسین پیش کیا۔صدر مملکت آصف علی زرداری نے جعفر ایکسپریس آپریشن مکمل کرنے پر سیکیورٹی فورسز کو خراج تحسین پیش کیا، انہوں نےآپریشن کے دوران 21 شہریوں اور 4 ایف سی جوانوں کی شہادت پر گہرے دُکھ اور افسوس کا اظہار کیا۔ اپنے بیان میں صدر مملکت آصف علی زرداری نے سیکیورٹی فورسز کی جانب سے موثر کاروائی میں 33 دہشت گرد جہنم واصل کرنے پر فورسز کی بہادری کی تعریف کی، صدر مملکت نے شہریوں اور مسافروں کو بازیاب کرانے پر سیکیورٹی فورسز کی پیشہ وارانہ مہارت کو سراہا۔ صدر مملکت نے جامِ شہادت نوش کرنے پر 4 ایف سی جوانوں کو خراج عقیدت پیش کیا۔ بعدازاں، وزیراعظم محمد شہباز شریف نے جعفر ایکسپریس آپریشن مکمل کرنے اور یرغمال شہریوں کو بازیاب کرنے پر پاک فوج اور سیکیورٹی فورسز کو خراج تحسین کیا۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ آپریشن انتہائی مہارت کے ساتھ کیا گیا، ہمارے بہادر جوانوں اور افسروں نے بہادری اور دلیری کا مظاہرہ کیا، 33 دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا۔ شہباز شریف کی آپریشن میں سیکیورٹی فورسز کے جوانوں اور ٹرین کے مسافروں کی شہادت پر رنج و الم کا اظہار کیا، وزیراعظم نے شہدا کے لیے دعائے مغفرت اور لواحقین کے لیے صبر و استقامت کی دعا کی۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ نہتے اور معصوم شہریوں کی جان و مال کو نقصان پہنچانے والوں کا دین اسلام اور اس ملک سے کوئی تعلق نہیں، معصوم شہریوں پر حملہ کرنے والوں کو ہر محاذ پر شکست دینے کے لیے پر عزم ہیں۔ شہباز شریف نے کہا کہ ملک سے دہشت گردی کے مکمل خاتمے تک دہشتگردوں کے خلاف ہماری جنگ جاری رہے گی، وزیراعظم محمد شہباز شریف کل بلوچستان کے شہریوں سے اظہار یکجہتی اور سیکیورٹی صورتحال کے پیش نظر بلوچستان کا دورہ کریں گے۔ اس دوران قومی اسمبلی میں جعفر ایکسپریس کو ہائی جیک کرنے پر مذمتی قرارداد متفقہ طور پر منظور کرلی گئی۔ قرارداد وفاقی وزیر پارلیمانی امور ڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے قومی اسمبلی میں پیش کی۔ قرارداد پر اپوزیشن سمیت تمام سیاسی جماعتوں کے ارکان کے دستخط موجود ہیں۔ قرارداد کے متن کے مطابق جعفر ایکسپریس کو ہائی جیک کرنے اور شہریوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے اور ملک کے امن کو تہہ و بالا کرنے والی دہشت گردی کی تمام کارروائیوں کی پرزور مذمت کرتے ہیں، قوم دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ہر ممکن اقدام اٹھانے کا عزم کرتی ہے۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی گروہ، کوئی فرد کو ملک کے امن، خوشحالی اور خودمختاری کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دیں گے، ملک کی علاقائی حدود میں خوف، نفرت یا تشدد پھیلانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
قرارداد میں مزید کہا گیا ہے کہ ملک کے کسی بھی حصے میں دہشت گردی کی کسی بھی سرگرمی کی اجازت نہیں دی جائے گی، دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے انتھک محنت کرنے کا عہد کرتے ہیں۔ قرارداد کے مطابق ایوان ان بہادر مردوں اور خواتین کا شکریہ ادا کرتا ہے جنہوں نے اس المناک واقعے میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا، افواج پاکستان، ایف سی اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ان کے غیر متزلزل عزم، بہادری اور شہریوں کی جانوں کے تحفظ اور پاکستان کی سالمیت کے تحفظ کے لیے دی جانے والی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں، اس واقعے میں ملوث دہشت گردوں کو بے اثر کرنے میں ان کی بہادرانہ کوششیں ہماری سیکیورٹی فورسز کے عزم اور تیاری کی عکاسی کرتی ہیں۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے عوام بلاتفریق دہشت گردی کے خلاف جنگ میں متحد ہو جائیں، تمام شکلوں میں انتہا پسندی کو مسترد کیا جائے اور آنے والی نسلوں کے لیے ہماری قوم کے امن، تحفظ اور خوشحالی کو یقینی بنایا جانا چاہے۔ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ عالمی طاقتیں، دہشت گرد اور پاکستان کے دشمن ہماری نااتفاقی کا فائدہ اٹھا رہے ہیں، مذہب اور آزادی کےنام پر دہشت گردی کرنے والے اپنے حقوق کے لیے نہیں خون خرابے کے لیے لڑ رہے ہیں۔ قومی اسمبلی میں سانحہ جعفر ایکسپریس کے حوالے سے بحث میں اظہار خیال کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پیپلزپارٹی ہر طرح کی دہشت گردی کی مذمت کرتی ہے، دہشت گردی کی وجہ سے پاکستان اور پیپلزپارٹی نے بہت نقصان اٹھایا، مجھے وزیراعظم کے گھر سےاغوا کرنےکی کوشش کی گئی، اس ناکام واقعے کے بعد شہید بینظیر بھٹو نے مجھے حفاظت کے لیے لندن میں رکھا تھا، دہشت گردی کی وجہ سے بینظیر بھٹو شہید ہوئیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان مین دہشت گردی کا مسئلہ نیا نہیں ہے، پاکستانی قوم نے مل کر ملک کو دہشت گردی سے پاک کردیا تھا، پاکستان کے ہر شہری نے اس جنگ میں اپنا حصہ ڈال کر دہشت گردی سے پاک کیا، عام شہری سے لے کر پولیس اور فوج، ایسا کوئی نہیں جس نے اس جنگ میں قربانی نہ دی ہو، یہ ایوان جب متحد تھا تو تحریک انصاف کی الگ سیاست تھی، اے پی ایس کے واقعے پر ہم نے سیاست کو ایک جانب رکھ کر نیشنل ایکشن پلان کو مانا، ہم نے ملک سے دہشت گردوں کی کمر توڑ دی تھی۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ مگر افسوس ہم دہشت گردی کے خلاف اپنی کامیابی کھو بیٹھے ہیں، دہشت گردی کی آگ پھر سے جل اٹھی ہے، ہم ماضی سے زیادہ خطرناک دور سے گزر رہے ہیں، ہم دہشت گردی کے خلاف ماضی کی طرح سیاسی اتفاق رائے نہیں بناسکے ہیں، ہماری کمزوریوں کی وجہ جو بھی ہو، دہشت گرد، عالمی طاقتیں اور پاکستان کے دشمن ہماری نااتفاقی کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گرد پاکستان کے مظلوم عوام کو نشانے پر لے کر خیبر پختونخوا سے بلوچستان تک وہ ایک کے بعد ایک دہشت گردی کرتے آرہے ہیں اور دہشت گردی کا ہر واقعہ پچھلے واقعے سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔
چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ دہشت گردوں کا کوئی نظریہ، کوئی سیاست نہیں ہوتی، مذہبی دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، ان تمام تنظیموں کا نام جو بھی ہو ان کا مقصد دہشت پھیلانا اور لوگوں کو قتل کرنے ہوتا ہے، نہ تو مذہبی دہشت گرد اسلامی ریاست چاہتا ہے نہ ہی نام نہاد بلوچ دہشت گرد اپنی آزادی اور حقوق چاہتے ہیں، وہ خون خرابہ کرتے ہیں اور پاکستانی عوام کی ترقی کا راستہ روکنا چاہتے ہیں، اور جو بین الاقوامی قوتیں انہیں مالی اور لاجسٹکل سپورٹ فراہم کر رہی ہیں ان کے مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے سوال کیا کہ یہ دہشت گرد پاکستان کے عام شہری کو قتل کرکے چین کو کیوں للکارتے ہیں؟ ٹرین میں شہید ہونے والے بے گناہوں کا خطے کی سیاست سے کیا تعلق تھا؟ پاکستان میں جاری نظام سے ان کا کیا تعلق تھا؟ یہ بے گناہ لوگ تھے جنہیں دہشت گردوں نے شہید کیا ہے اور اب ان کی لاشوں پر اپنا بین الاقوامی ایجنڈا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
بلاول بھٹو زرداری نے مزید کہا کہ دہشت گردوں کو برا کہنا اور مذمت کرنا بہت آسان ہے، مگر سوال یہ ہے کہ ان دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے کے لیے بطور سیاسی جماعت ہمارا کیا کردار ہو سکتا ہے؟ اس ایک نکتے پر سیاسی اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے ہم کیا کرسکتے ہیں؟
ان کا کہنا تھا کہ ہم باقی ایجنڈوں پر سیاست اور پوائنٹ اسکورنگ کرتے رہیں، مگر پارلیمان میں موجود تمام جماعتیں یہ طے کرلیں کہ پاراچنار سے لے کر بولان تک پاکستان کے عوام کو شہید اور ان کے خون سے ہولی کھیلنے والے درندے ہمارے دشمن ہیں، جو کل کے واقعے میں ملوث تھے اور جو کسی بھی دہشت گردی میں ملوث ہوگا وہ ہمارا دشمن ہوگا۔ صوبائی حکومتوں کی کارکردگی پر تنقید ہونی چاہیے مگر دہشت گردی کے مسئلے پر چاہے وہ وزیراعلیٰ بلوچستان ہوں یا وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا، اگر وہ ہم سے کوئی مدد چاہتے ہیں تو چاہے وہ حکومت ہو یا اس کے اتحادی، غیر مشروط تعاون کی پیشکش کرنی چاہیے،چیئرمین پیپلز پارٹی نے ’نیشنل ایکشن پلان ٹو‘ بنانے کی تجویز پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے پہلی بار نیشنل ایکشن پلان بنایا تو نواز شریف وزیراعظم تھے، کوئی وجہ نہیں ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف نیشنل ایکشن پلان ٹو نہ بناسکیں، ہم مانتے ہیں اس ایکشن پلان کا صرف متحرک عنصر نہیں ہے، جب پیپلزپارٹی نے دہشت گردی کا مقابلہ کیا تو ہم نے مذاکرات، روک تھام اور ترقی کی پالیسی اپنائی، چاہے بلوچستان ہو یا پختونخوا وہاں کے عوام کے جائز قانونی مطالبات کو ہم نے این ایف سی ایوارڈ اور 18ویں ترمیم کی صورت میں پورا کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ مگر جو لوگ انسانیت کو نہیں مانتے، جنہوں نے ہتھیار اٹھاکر پورے ملک میں دہشت گردی پھیلائی ہم نے ان کا جنوبی و شمالی وزیرستان، بلوچستان، کراچی اور فاٹا میں مقابلہ کیا، اگر ہم پہلے شکست دے سکتے ہیں تو دوبارہ بھی شکست دے سکتے ہیں۔ بلاول بھٹو نے مزید کہا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ بلوچستان کے عوام اپنے حقوق مانگ رہے ہیں، وہ اپنے وسائل پر آئینی حصے کا مطالبہ کر رہے ہیں، اپنا صوبہ اپنی مرضی سے چلانے کا حق مانگ رہے ہیں، ریکوڈک سے اپنا حصہ مانگ رہے ہیں، وفاق کے ساتھ جو مسائل ہیں وہ چلتے آرہے ہیں مگر ان کا سب سے پہلا مطالبہ یہ ہے کہ انہیں جینے کا حق دیں، انہیں دہشت گردوں سے تحفظ دیں۔ ’عالمی قوتیں پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کیلئے متحد ہیں‘ دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے کے لیے آپریشنز تو کرنے ہیں مگر ہمارے ملک کے اداروں کو یقینی بنانا چاہیے کہ دہشت گردوں کے خلاف آپریشنز میں کولیٹرل ڈیمیج نہ ہو، جو دہشت گرد نہ ہو انہیں نقصان نہ پہنچے تاکہ دہش گرد تنظیمیں ان نقصانات پر سیاست کرکے اپنا مقصد آگے نہ بڑھاسکیں، اگر ہم نے دہشت گردی کے مسئلے پر اتفاق رائے پیدا نہ کیا اور اس مسئلے کا مقابلہ نہ کیا تو بطور سابق وزیر خارجہ میں یہ بات پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ جو عالمی قوتیں پاکستان اور اس خطے کو عدم استحکام سے دوچار کرنا چاہتی ہیں وہ متحد ہیں اور اپنے ہدف کی طرف بڑھ رہی ہیں۔ہم نے افغانستان میں غلطیاں کی ہیں اور وہاں کے دہشت گرد مل کر آزادی کے ساتھ ایک دوسرے سے تعاون کر رہے ہیں، جو آگ بلوچستان میں لگی ہے وہ پاکستان کے چاروں صوبوں، پھر اس خطے اور پھر پوری دنیا میں پھیلے گی، اس واقعے کی مذمت میں ہم ساتھ ہیں مگر میری درخواست ہے کہ ردعمل میں بھی ہمیں ساتھ ہونا چاہیے اور امید ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے اپنی پوری کوشش کریں گی