خیبر پختونخوا (ٹی این ایس) گورنر پختونخوا کی جاری ملاقاتوں میں صوبائی حکومت کی ممکنہ تبدیلی پر غور

 
0
47

خیبر پختونخوا (ٹی این ایس) .گورنر پختونخوا کی جاری ملاقاتوں میں صوبائی حکومت کی ممکنہ تبدیلی پرغور کیا جارہا ہے.وزیر اعظم شہباز شریف نے صوبے میں اپوزیشن کی حمایت حاصل کرنے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے تاکہ صوبائی حکومت کی ممکنہ تبدیلی کا مقصد کو حاصل کیا جا سکے۔اس تناظر میں گورنر خیبر پختونخوا (کے پی) فیصل کریم کنڈی کی مختلف شعبہ زندگی کے افراد سےملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے، جس میں صوبائی حکومت کی ممکنہ تبدیلی پر تبادلہ خیال کیا گیا الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) سیکریٹری عمر حمید نے مخصوص نشستوں کی حلف برداری سے متعلق گورنرخیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی کے پرنسپل سیکریٹری کوبھی خط لکھ دیا۔الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ گورنرخیبرپختونخوا اجلاس طلب کرے اور وزیراعلیٰ اجلاس طلب کرنے کے لیے سمری گورنرکو بھیجوائیں، گورنرخیبرپختونخوا 21 جولائی سے قبل اجلاس طلب کرے۔ان خطوط میں الیکشن کمیشن کی جانب سے مخصوص نشستوں پر حلف برداری کے لیے انتظامات کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔خط میں صوبائی اسمبلی سے اپوزیشن لیڈر اور مخصوص نشستوں پر حلف کی منتظر خواتین کے خطوط کا حوالہ بھی دیا گیا ہے۔ خط میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ نے حال ہی میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں مخصوص نشستوں کی الاٹمنٹ کے حوالے سے فیصلہ دیا ہے۔ الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ فیصلے پر الیکشن کمیشن نے مخصوص نشستوں پر ارکان اسمبلی کے نوٹیفکیشن جاری کیے ہیں۔ علاوہ ازیں، خط میں کہا گیا کہ 21 جولائی کے سینیٹ انتخابات کے لیے مخصوص نشستوں پر منتخب ارکان اسمبلی کا جلد از جلد حلف لینے سے متعلق اقدامات کیے جائیں۔خط میں کہا گیا کہ ارکان انتخابی عمل میں حصہ لینے کا اپنا آئینی حق استعمال کرسکیں، مخصوص نشستوں کے ممبران کی حلف برداری پہلے ہی تاخیر کا شکار ہے۔ ذرائع کے مطابق گورنر فیصل کنڈی اور امیر مقام کے درمیان ملاقات میں خیبر پختونخوا میں ممکنہ تبدیلی سے متعلق گفتگو ہوئی ,گورنر کے پی سے مسلم لیگ (ن) خیبر پختونخوا کے صدر امیر مقام نے گورنر ہاؤس میں ملاقات کی اور صوبے میں اپوزیشن رہنماؤں کے مجوزہ اجلاس پر تبادلہ خیال کیا۔ تحریک انصاف خیبر پختونخوا حکومت میں ممکنہ تبدیلی کے تناظر میں گورنر فیصل کریم کنڈی جلد گورنر ہاؤس میں اپوزیشن رہنماؤں کا اجلاس بلانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔اس ضمن میں جے یو آئی (ف) کے رہنما مولانا غفور حیدری نے اتوار کے روز کہا کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) نے صدارتی حکم یا گورنر راج کے ذریعے صوبائی حکومت کی تبدیلی کی مخالفت کی ہے، لیکن آئینی اور پارلیمانی طریقہ کار، تحریک عدم اعتماد کو مسترد نہیں کیا۔اسی دوران، گورنر فیصل کریم کنڈی نے سابق پی ٹی آئی رہنما اور موجودہ وزیر اعظم کے مشیر پرویز خٹک کی رہائش گاہ پر جا کر ان کی ہمشیرہ کے انتقال پر تعزیت کی۔ چند روز قبل گورنر کنڈی نے جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن سے بھی ملاقات کی تھی۔ حال ہی میں گورنر نے وزیر اعظم شہباز شریف سے بھی ملاقات کی تھی، جس کے بعد ایک پریس ریلیز جاری کی گئی جس میں کہا گیا کہ وزیر اعظم نے گورنر کو ہدایت دی ہے کہ وہ خیبر پختونخوا میں نئی حکومت کی تشکیل کے لیے مہم شروع کریں اور صوبائی اسمبلی میں اپوزیشن اراکین سے مشاورت کریں۔گورنر فیصل کریم کنڈی اور امیر مقام، دونوں کو مولانا فضل الرحمٰن سے ملاقات اور مزید مشاورت کا ٹاسک دیا گیاگزشتہ ہفتے خیبر پختونخوا اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ڈاکٹر اقبال اللہ نے گورنر سے ملاقات کی تھی، اس ملاقات میں پاکستان پیپلز پارٹی خیبر پختونخوا کے صدر محمد علی شاہ باچا بھی موجود تھے، ملاقات میں صوبے کی مجموعی سیاسی صورتحال پر گفتگو کی گئی تھی۔ اپوزیشن لیڈر ڈاکٹر اقبال اللہ نے گورنر کو اپوزیشن جماعتوں کے درمیان جاری ہم آہنگی اور رابطوں کے بارے میں بریفنگ دی تھی۔ رہنماؤں نے صوبائی اسمبلی کے آزاد اراکین کی حالیہ سرگرمیوں اور آئندہ سینیٹ انتخابات پر بھی تبادلہ خیال کیاتھا۔گورنر فیصل کریم کنڈی کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا میں اپوزیشن کے نمبرز پورے ہوں گے تو تبدیلی آئے گی۔مجھے پتا نہیں کہ صوبے میں وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کی کوئی اے پی سی ہو رہی ہے، دیکھیں گے یہ کس لیے بلائی جا رہی ہے، مقصد کیا ہے اور سنجیدگی کتنی ہے، پارٹی کو دعوت دی گئی تو پھر دیکھیں گے لیکن مجھے ابھی تک دعوت نہیں دی گئی۔فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ صوبے کو دہشتگردوں کے حوالے کیا ہوا ہے اور اب امن کیلیے اے پی سی بلائی جا رہی ہے، 2013 سے پی ٹی آئی نے صوبے کا جو حال کر دیا ہے سب کے سامنے ہے۔گورنر کے پی نے کہا کہ ہر صوبے میں تبدیلی آ سکتی ہے اگر اپوزیشن کے پاس نمبرز گیم پورے ہوں، کسی اور صوبے میں بھی نمبرز پورے ہوں گے تو وہاں بھی تبدیلی آئے گی۔ وزیر اعظم شہباز شریف سے ہماری ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں، سیاسی صورتحال اور امن پر مولانا فضل الرحمان، امیر مقام اور ڈاکٹر عباد سے بات ہوئی، فضل الرحمان اور ن لیگ کے رہنماؤں سے سینیٹ الیکشن ساتھ مل کر لڑنے پر بات ہوئی، پرامید ہوں کہ اپوزیشن جماعتیں مل کر سینیٹ کا الیکشن لڑیں گی۔ان کا کہنا تھا کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان کب کے مائنس ہو چکے ان کی بہن علیمہ خانم کو ابھی پتا لگا کہ ان کا بھائی مائنس ہو چکا ہے۔فیصل کریم کنڈی نے مزید کہا کہ خیبر پختونخوا میں لوٹ مار، چوری اور کرپشن کا بازار گرم ہے، سوات میں 16 بندے دریا میں ڈوب گئے حکمران خاموش ہیں کہاں گئی مدینہ کی ریاست؟ مسائل بہت ہیں لیکن دیکھنا یہ ہے کون سی حکومت سنجیدہ ہے، بلوچستان حکومت امن کیلیے کافی سنجیدہ ہے انہوں نے سکیورٹی فورسز کی مدد طلب کی ہوئی ہے، سندھ میں بھی تھوڑے بہت مسائل ہیں لیکن بہت سارے حل بھی ہو چکے ہیں۔مشیر وزیرِ آعظم پاکستان ,میاں محمد شہبازشریف ,برائے خیبرپختونخوا سیاسی امور اور نوشہرہ سے سابق رکنِ صوبائی اسمبلی ,اختیار ولی خان نے اس کالم نگارسے بات کرتے ہوئے واضح کیا کہ خیبرپختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی صوبائی حکومت کے خلاف کسی قسم کی تحریک عدم اعتماد زیر غور نہیں اور نہ ہی مولانا فضل الرحمان سے حکومت گرانے کے حوالے سے کوئی بات کی گئی ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن نے حکومت خیبرپختونخوا کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ یہ حکومت نہیں ہے ، یہ بھتے دینے والی حکومت ہے، یہ مسلح لوگوں کو ماہانہ بھتے بھیجتی ہے، تب جا کر ہم ڈیرہ اسمٰعیل خان سمیت دیگر علاقوں میں داخل ہو سکتے ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ ( ن ) کے مرکزی رہنما ,مشیر وزیرِ آعظم پاکستان ,میاں محمد شہبازشریف ,برائے خیبرپختونخوا سیاسی امور اور نوشہرہ سے سابق رکنِ صوبائی اسمبلی ,اختیار ولی خان نے اس کالم نگارسے بات کرتے ہوئے واضح کیا کہ خیبرپختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی صوبائی حکومت کے خلاف کسی قسم کی تحریک عدم اعتماد زیر غور نہیں اور نہ ہی مولانا فضل الرحمان سے حکومت گرانے کے حوالے سے کوئی بات کی گئی ہے۔ اختیار ولی خان کا کہنا ہے کہ ہمارا پختونخوا کی حکومت کو گرانے کا بالکل بھی کوئی ارادہ نہیں ہے، خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی تین حصوں میں تقسیم ہے، ایک دھڑا صرف علی امین کو مانتا ہے، دوسرا دھڑا عمران خان کے ساتھ کمٹڈ ہے جبکہ تیسرا دھڑا عمران خان اور علی امین کی پالیسیوں سے تنگ ہے۔ اختیار ولی نے کہا کہ خیبر پختونخوا جہاں پر تیسری بارپاکستان تحریک انصاف کی حکومت بنی ہے ، یہ تیسری اسمبلی ہے اور نعرہ یہ ہوتا ہے کہ صاف چلی شفاف چلی ،اب نہیں تو کب ، ہم ملک بچانے نکلے ہیں آئو ہمارے ساتھ چلو ، دو نہیں ایک پاکستان ، مدینہ کی ریاست، نیا خیبر پختونخوا اور یہ سارے خوبصورت نعرے لگانے والوں کے بارے میں اس سے پہلے اور کئی وارداتیں سامنے آ چکی ہیں ، پہلے جتنی وارداتیں ہوئیں وہ ملک کے اندر تھیں،ان پہ چوری ثابت ہوئی لیکن آج تو اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام نے خیبر پختونخوا حکومت کو باقاعدہ چارج شیٹ کر دیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما اختیار ولی نے کہا کہ خیبر پختونخوا جہاں پر تیسری بارپاکستان تحریک انصاف کی حکومت بنی ہے ، یہ تیسری اسمبلی ہے اور نعرہ یہ ہوتا ہے کہ صاف چلی شفاف چلی ،اب نہیں تو کب ، ہم ملک بچانے نکلے ہیں آئو ہمارے ساتھ چلو ، دو نہیں ایک پاکستان ، مدینہ کی ریاست، نیا خیبر پختونخوا اور یہ سارے خوبصورت نعرے لگانے والوں کے بارے میں اس سے پہلے اور کئی وارداتیں سامنے آ چکی ہیں ، پہلے جتنی وارداتیں ہوئیں وہ ملک کے اندر تھیں،ان پہ چوری ثابت ہوئی لیکن آج تو اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام نے خیبر پختونخوا حکومت کو باقاعدہ چارج شیٹ کر دیا ہے۔ اسی بناء پر ورلڈ فوڈ پروگرام نے اپنا پروگرام خیبر پختونخوا میں بند کر دیا ہے۔انہوں نے کہاکہ میں پورے پاکستان سے بالعموم اور خیبر پختونخوا کے لوگوں سے بالخصوص ملتمس ہوں کہ جن لوگوں کو آپ نے ووٹ دیئے کہ یہ صادق اور امین ہیں آج ان کو گوروں نے بھی کہہ دیا کہ یہ صادق بھی نہیں یہ امین بھی نہیں بلکہ ڈاکو ہیں نہ صاف چلی اور نہ شفاف چلی بلکہ بالکل ہی مردار چلی ۔ تحریک انصاف وہ جماعت ہے جو شفافیت کے نام پر قوم کو لوٹتی ہے جو انصاف کے نام پر قوم کے ساتھ بے انصافی کرتی ہے ۔ یہ تو تقریبا 800 ملین کی کرپشن کی سٹوری ہے اور اس پہ ورلڈ فوڈ پروگرام نے خیبر پختون خوا میں اپنا پروگرام بند کر دیا ہے انہوں نے کہا کہ ہم مزید اگر یہاں پر کام کریں گے تو ہم غیر سرکاری تنظیم و این جی اوز کے ساتھ چلیں گے خیبر پختونخوا حکومت کو جو بھی رقوم وفاق سے یا اقوام متحدہ سے ملے اس کا استعمال پاکستان میں انتشار یا جھوٹے پروپیگنڈے کو پروان چڑھانے کے لیے کیا جاتا ہے ۔ جو لوگ معصوم دودھ پیتے بچوں کے ساتھ انصاف نہیں کر سکتے وہ اس ملک کے ساتھ کیا انصاف کریں گے وہ اس صوبے کے ساتھ کیا انصاف کریں گے وہ جمہوریت کے ساتھ کیا انصاف کریں گے وہ پاکستان کے ساتھ کیا انصاف کریں گے ۔ بلین ٹریز کے آدھے درخت موقع پر موجود ہی نہیں،خیبر پختونخوا کے منصوبوں کی تنخواہیں پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا پر خرچ ہوتی ہیں، لوٹ مار کی رقوم ڈی چوک، سٹاک ایکسچینج کو نیچے لانے اور پاکستان کو تنہا کرنے پر خرچ کی جائے گی،ملک کے پیسے کے پی میں پی ٹی آئی کے ہاتھوں ضائع ہو رہے ہیں۔ اس کے علاوہ وزیراعظم کے مشیر برائے قانون و انصاف بیرسٹر عقیل ملک کا کہناہے کہ پی ٹی آئی کی لوٹ مار ثابت ہوچکی ہے ،کرپشن و مالی بے ضابطگیوں کے باعث ورلڈ فوڈ پروگرام نے خیبرپختونخوا میں اپنا پروگرام بند کردیاہے ، خیبر پختونخوا میں لوٹ مار کا سلسلہ جاری ہے ، صوبے میں پی ٹی آئی کی حکومت12برس سے برسر اقتدار ہے اور بے ضابطگیوں کا سلسلہ بھی جاری ہے ۔ خیبر پختونخوا میں جو ثابت شدہ بے ضابطگیاں سامنے آئی ہیں انہوں نے صاف چلی ،شفاف چلی کا نعرہ لگانے والی پارٹی کا بھانڈہ پھوڑ دیا ہے ۔بیرسٹر عقیل ملک کا کہناہے کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور اس کے ذیلی نشوونما پروگرام میں بھی بے ضابطگیاں منظر عام پر آئی ہیں اور شیر خوار بچوں کے دودھ کے ڈبے تک بیچ دیئے گئے ۔ ورلڈ فوڈ پروگرام کے پروگرام میں تقریبا 80 کروڑ روپے کی بے ضابطگیاں منظر عام پر آئی ہیں ،کے پی کی عوام کے ساتھ جو سلوک کیا جا رہا ہے اور جس طرح صوبے کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جا رہا ہے وہ اب آپ سب کے سامنے ہے ۔ یہ حقیقت میڈیا میں رپورٹ ہوچکی ہے ۔صوبے کی عوام چیخ چیخ کے کہہ رہی ہے کہ ہمیں نہ تو انصاف مل رہا ہے اور نہ ہی بنیادی سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں۔گھوسٹ ملازمین لائے گئے ، جعلی رسیدیں بنائی گئیں ۔بچوں اور ان کی مائوں کے استعمال کرنے کا جو سامان ملا وہ بازار میں بیچا گیا اور مارکیٹس میں بلیک میں سیل ہوتا رہا۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس کا آڈٹ ہو تاکہ جو بے ضابطگیاں کے پی کی حکومت نے اس پروگرام میں کی ہیں وہ منظر عام پرآئیں اور عوام کو پتہ چلنا چاہیے کہ ان کے حق پہ کس طرح ڈاکہ مارا جا رہا ہے ، جس طرح عوام کے پیسے جو عوام کے لیے مختص ہوئے ہیں جو عوام کے اوپر لگنے چاہیئں وہ آئے روز دھرنے یا جلائو گھرائو کے لیے استعمال کیے جاتے ہیدوسری طرف خیبرپختونخوا حکومت کے ممکنہ تختہ الٹنے کی خبروں کے دوران میں 3 جولائی کووزیراعظم شہباز شریف سے گورنر کے پی فیصل کریم کنڈی اور عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ ایمل ولی خان نے اہم ملاقاتیں کیں۔گورنر کے پی فیصل کریم کنڈی کا کہناہے کہ اگر اپوزیشن کے پاس اکثریت ہو تو حکومت کی تبدیلی آئینی حق ہے، اسے سازش کہنا درست نہیں۔ گورنر کے پی نے واضح کیا کہ مخصوص نشستوں کی بحالی کے بعد بننے والی نئی سیاسی صورتحال پر بھی بات ہوئی اور کہا کہ گنڈاپور کے خلاف سازش کرنے کے لیے ان کے اپنے لوگ ہی کافی ہیں۔ علاوہ ازیں وزیراعظم کی ایمل ولی خان سے ہونے والی ملاقات میں بھی ملکی سیاسی صورتحال پر تفصیلی بات چیت ہوئی، جس میں مختلف وفاقی وزرا اور معاونین خصوصی بھی شریک تھے۔یہ یاد رکھیں کہ خیبرپختونخوا میں گزشتہ 12 سال سے پی ٹی آئی حکومت ہے مزید برآں خیبرپختونخوا میں امن وامان کی صورتحال ہر گزرتے دن کے ساتھ بگڑتی جارہی ہے اور صوبے کے عوام امن وامان کی دن بدن بگڑتی صورتحال سے عدم تحفظ کا شکار ہیں۔یاد رہے کہ کچھ دن پہلے وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی اور گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی کے ساتھ مل کر صوبے کا امن وامان یقینی بنانے کیلئے فوری اقدامات اٹھانے کا فیصلہ کیاگیا تھا وزیراعظم شہباز شریف سے گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی کا ٹیلیفونک رابطہ ہوا تھاجس کے دوران گورنر نے صوبے میں امن وامان کی بگڑتی صورتحال سے آگاہ کیا تھا۔ فیصل کریم کنڈی کا کہنا تھا کہ صوبہ میں سرکاری ملازمین کے اغوا اور پولیس پر حملوں کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے جبکہ متعدد اضلاع میں پولیس اہلکار احتجاج کر رہے ہیں ,عوام کو تحفظ فراہم کرنیوالی پولیس خود عدم تحفظ کا شکار اورصوبائی حکومت قیام امن اور عوام کے جان ومال کا تحفظ یقینی بنانے میں مکمل ناکام ہوچکی ہے۔ وزیر اعظم نے گورنر خیبرپختونخوا سے صوبے کی بگڑتی امن وامان کی صورتحال پر اظہار تشویش کیا تھااور فوری اقدامات اٹھانے کا فیصلہ کیا تھا۔یاد رہے کہ پی ٹی آئی کی کے پی حکومت امن و امان برقرار رکھنے میں ناکام ہے،کر پشن کے ریکارڈ پریکارڈ بن چکے, بدامنی عروج پر ، قانون کی حکمرانی نہیں، گڈ گورننس نہیں ,لوگ بری طرح زندگی گزار رہے ہیں,خیبرپختونخوامیں بلاشبہ اپوزیشن جماعتیں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد بڑی سیاسی و آئینی تبدیلی کی منتظر ہیں لیکن وفاقی حکومت کی اتحادی جماعتیں گورنر راج میں دلچسپی نہیں رکھتیں جبکہ مولانا فضل الرحمٰن نے حالیہ دورہ کے پی کے میں ممکنہ تبدیلی کی امید ظاہر کی ہے دریں اثنا اسی سیاسی تناظر میں وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور کا جارحانہ ردعمل بھی سامنے آیا ہے۔ انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ چاہے جتنا زور لگا لیا جائے، آئینی طریقے سے ان کی حکومت کو نہیں گرایا جا سکتا۔ انہوں نے چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ اگر ان کی حکومت گرائی گئی تو وہ سیاست ہی چھوڑ دیں گے۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ خیبرپختونخوا میں تبدیلی آنی چاہیے، تحریک انصاف اکثریت میں ہے تو ان کے اندر سے ہی تبدیلی آنی چاہیے، ایسا نہیں نہ ہو کہ اپوزیشن متحرک ہو کر صوبائی حکومت کو تبدیلی کر دے,پشاور میں پریس کانفرنس کے دوران مولانا فضل الرحمنٰ نے کہا کہ ہمارا یقین ہے پی ٹی آئی کی صوبے میں اکثریت جعلی ہے، اگر ان کی اپنی پارٹی میں تبدیلی آتی ہے تو وہ زیادہ بہتر ہوگا،یاد رکھیں کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنما حافظ حمد اللہ نے دعوی کیا تھا کہ مولانا فضل الرحمن کے پاس پی ٹی آئی وفد آیا تھا اور درخواست کی تھی کہ خیبر پختونخوا کی تحریک عدم اعتمادکا حصہ نہ بنیں، مولانا فضل الرحمن نے کہا تھاکہ کے پی حکومت گرانے میں دلچسپی نہیں، میں اسمبلی و پورے سسٹم کو جعلی اور دھاندلی زدہ سمجھتا ہوں۔۔
دوسرا پی ٹی آئی کے اندر کچھ لوگ علی امین گنڈاپورکو تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ یاد رہے کہ پہلے یہ دعوی کیاگیاتھا کہ مولانا فضل الرحمان نے خیبرپختونخوا حکومت کے خلاف کسی ممکنہ تحریک عدم اعتماد سے علیحدگی اختیار کر لی ہے اور مولانا فضل الرحمان کا پیغام اڈیالہ جیل میں بانی چیئرمین پی ٹی آئی تک پہنچا دیا گیا ، جو ان کی بہنوں کے ذریعے جیل ملاقات کے دوران دیا گیا۔ پیغام میں کہا گیا تھا کہ حکومت گرانے کے لیے مولانا سے رابطہ کیا گیا تھا مگر انہوں نے انکار کر دیا۔پشاور میں پریس کانفرنس کے دوران مولانا کاکہنا تھا کہ ہمارا راستہ کیوں روکا جارہا ہے، اگر عوام کی تائید ہمارے ساتھ ہے تو کسی میں ہمت نہیں کہ وہ ہماری حکومت کا راستہ روک سکے، ہم عوامی فیصلے کے انتظار میں ہیں۔خیبرپختونخوا مزید سیاسی کشمکش کا متحمل نہیں ہوسکتا، عام آدمی کی زندگی غیرمحفوظ، شہری اپنے گھر سے باہر نکلتے ہوئے سوچتا ہے، امن وامان کے معاملے پر اپوزیشن جماعتوں نے رابطہ کیا تو ہم ضرور ان سے بات چیت کریں گے، چاہتے ہیں اس اہم مسئلے پر صوبے میں آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) کا انعقاد کیا جائے۔سینیٹ الیکشن کے حوالے سے سیاسی جماعتوں سے بات چیت ابھی ابتدائی مراحل میں ہے، اس پر مزید بات نہیں کر سکتا۔ اگر میں وفاقی حکومت کے فیصلوں سے متفق ہوتا تو کیا ان کے ساتھ نہ ہوتا، پی ڈی ایم صدر اُدھر ہے اور حکومت دوسری جانب، انتخابات میں اسمبلیوں کے ریٹ لگے، مقصد بکے ہیں، کیا اب میں بکاؤ حکومت کا حصہ بنوں ؟ لیکن اگر حکومت پر جنگ مسلط ہوتی ہے تو ہزار شکوؤں کے باوجود ایک صف میں کھڑے ہوں گے۔عمران خان کی رہائی سے متعلق پوچھے گئے سوال پر سربراہ جے یو آئی (ف) نے کہا تھاکہ کوئی بھی سیاست دان جیل میں نہیں ہونا چاہیے، لیکن سیاست دان جیل جاتا ہے، تحریکیں رہائی کے لیے نہیں بلکہ عظیم الشان مقاصد کے لیے ہوتی ہیں، جیلوں سے باہر آکر سیاست دان سمجھوتہ کر لیتے ہیں۔مولانا فضل الرحمٰن نے حکومت خیبرپختونخوا کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ یہ حکومت نہیں ہے ، یہ بھتے دینے والی حکومت ہے، یہ مسلح لوگوں کو ماہانہ بھتے بھیجتی ہے، تب جا کر ہم ڈیرہ اسمٰعیل خان سمیت دیگر علاقوں میں داخل ہو سکتے ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ ( ن ) کے مرکزی رہنما ,مشیر وزیرِ آعظم پاکستان ,میاں محمد شہبازشریف ,برائے خیبرپختونخوا سیاسی امور اور نوشہرہ سے سابق رکنِ صوبائی اسمبلی ,اختیار ولی خان نے اس کالم نگارسے بات کرتے ہوئے واضح کیا کہ خیبرپختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی صوبائی حکومت کے خلاف کسی قسم کی تحریک عدم اعتماد زیر غور نہیں اور نہ ہی مولانا فضل الرحمان سے حکومت گرانے کے حوالے سے کوئی بات کی گئی ہے۔ اختیار ولی خان کا کہنا ہے کہ ہمارا پختونخوا کی حکومت کو گرانے کا بالکل بھی کوئی ارادہ نہیں ہے، خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی تین حصوں میں تقسیم ہے، ایک دھڑا صرف علی امین کو مانتا ہے، دوسرا دھڑا عمران خان کے ساتھ کمٹڈ ہے جبکہ تیسرا دھڑا عمران خان اور علی امین کی پالیسیوں سے تنگ ہے۔ اختیار ولی نے کہا کہ خیبر پختونخوا جہاں پر تیسری بارپاکستان تحریک انصاف کی حکومت بنی ہے ، یہ تیسری اسمبلی ہے اور نعرہ یہ ہوتا ہے کہ صاف چلی شفاف چلی ،اب نہیں تو کب ، ہم ملک بچانے نکلے ہیں آئو ہمارے ساتھ چلو ، دو نہیں ایک پاکستان ، مدینہ کی ریاست، نیا خیبر پختونخوا اور یہ سارے خوبصورت نعرے لگانے والوں کے بارے میں اس سے پہلے اور کئی وارداتیں سامنے آ چکی ہیں ، پہلے جتنی وارداتیں ہوئیں وہ ملک کے اندر تھیں،ان پہ چوری ثابت ہوئی لیکن آج تو اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام نے خیبر پختونخوا حکومت کو باقاعدہ چارج شیٹ کر دیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما اختیار ولی نے کہا کہ خیبر پختونخوا جہاں پر تیسری بارپاکستان تحریک انصاف کی حکومت بنی ہے ، وام چیخ چیخ کے کہہ رہی ہے کہ ہمیں نہ تو انصاف مل رہا ہے اور نہ ہی بنیادی سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں۔گھوسٹ ملازمین لائے گئے ، جعلی رسیدیں بنائی گئیں ۔بچوں اور ان کی مائوں کے استعمال کرنے کا جو سامان ملا وہ بازار میں بیچا گیا اور مارکیٹس میں بلیک میں سیل ہوتا رہا۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس کا آڈٹ ہو تاکہ جو بے ضابطگیاں کے پی کی حکومت نے اس پروگرام میں کی ہیں وہ منظر عام پرآئیں اور عوام کو پتہ چلنا چاہیے کہ ان کے حق پہ کس طرح ڈاکہ مارا جا رہا ہے ، جس طرح عوام کے پیسے جو عوام کے لیے مختص ہوئے ہیں جو عوام کے اوپر لگنے چاہیئں وہ آئے روز دھرنے یا جلائو گھرائو کے لیے استعمال کیے جاتے ہی