اسلام آباد (ٹی این ایس) وزیرِاعظم کا معاشی بہتری کیلئےخسارے والے اداروں کی نجکاری ناگزیر قرار

 
0
47

اسلام آباد (ٹی این ایس) سرکاری اداروں کی نجکاری ضروری ہے؟خسارے میں جانیوالے اداروں کی فوری نجکاری اور برآمدات میں اضافہ ناگزیر ہو چکا ہےحکومت فوری طور پرخسارے میں جانیوالے اداروں کی نجکاری اور برآمدات میں اضافے کےلیے اقدامات کرے نجکاری میں حکومت اپنے اداروں یا اثاثوں کو نجی شعبے کو فروخت کرتی ہے۔حکومت کسی نجی کمپنی کو مخصوص خدمات فراہم کرنے کا معاہدہ کرتی ہے جو پہلے خود فراہم کرتی تھی حکومت بعض صنعتوں میں نجی شعبے کی مداخلت پر عائد پابندیوں کو کم کرتی ہے، جس سے مسابقت بڑھتی ہے۔نجکاری کے فوائد اور نقصانات دونوں ہو سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر، نجکاری سے کارکردگی میں اضافہ اور خدمات کے معیار میں بہتری آسکتی ہے، لیکن اس سے ملازمتوں کا نقصان اور عدم مساوات میں اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔

نجکاری کا مطلب ہے سرکاری ملکیت والے اداروں یا اثاثوں کو نجی ملکیت میں منتقل کرنا۔ اس عمل میں، حکومت اپنی ملکیت میں موجود کاروبار، خدمات، یا دیگر اثاثوں کو نجی کمپنیوں یا افراد کو بیچ دیتی ہے۔ نجکاری کا مقصد اکثر کارکردگی میں اضافہ، مسابقت کو فروغ دینا، اور حکومت پر مالی بوجھ کم کرنا ہوتا ہے۔ مجموعی طورپر ان سرکاری اداروں, ایس او ایز کا مجموعی نقصان 5800ارب روپے ہو چکا ہے جو ٹیکس دہندگان پر بوجھ ہے ، نجکاری کی صورت میں کم از کم حکومتِ پاکستان پر پڑنے والا مالی بوجھ ختم ہو جائے گا۔ وزیرِاعظم شہباز شریف نے ہدایت کی کہ تمام فیصلوں پر مکمل اور مؤثر انداز میں عمل درآمد یقینی بنایا جائے، نجکاری کمیشن میں جاری کام کی پیش رفت کی باقاعدگی سے خود نگرانی کروں گا۔ اعلامیے کے مطابق وزیرِ اعظم شہباز شریف کو 2024ء میں نجکاری کی فہرست میں شامل کیے گئے اداروں کی نجکاری پر پیش رفت پر بریفنگ میں بتایا گیا کہ قومی ایئر لائن، ڈسکوز کی نجکاری مقررہ معاشی، ادارہ جاتی اور انتظامی اہداف کے مطابق مکمل ہو گی۔وزیراعظم کا کہنا ہےکہ خسارے میں چلنے والے قومی اداروں کی نجکاری ملک کی معیشت کی بہتری اور ترقی کے لیے ناگزیر ہے جبکہ حکومت کی اولین ترجیح ہے کہ نجکاری کے عمل کو مؤثر، جامع اور شفاف طریقے سے مکمل کیا جائے۔ وزیراعظم نے متعلقہ اداروں کو ہدایت کی کہ منتخب اداروں کی نجکاری میں تمام قانونی تقاضے اور شفافیت کی شرائط پوری کی جائیں، قومی اداروں کی قیمتی زمینوں پر ناجائز قبضہ کسی بھی صورت قابل قبول نہیں، تاہم نجکاری کے عمل کے دوران قومی اداروں کی قیمتی زمینوں کے تصرف میں ہر ممکن احتیاط برتی جائے شہباز شریف نے خصوصی اجلاس کے دوران ہدایات دیتے ہوئے کہا کہ مذکورہ اداروں کے مرحلہ وار نجکاری کے اہداف مارکیٹ کے اقتصادی حالات کے مطابق مقرر کیے جائیں تاکہ قومی خزانے کو ممکنہ نقصانات سے ہر قیمت پر بچایا جا سکے۔وزیراعظم کا کہنا تھاکہ تمام فیصلوں پر مکمل اور مؤثر عمل درآمد ہونا چاہیے، میں نجکاری کمیشن میں جاری کام کی پیشرفت کی باقاعدگی سے نگرانی کروں گا، مزید برآں، نجکاری اور اداروں کی تنظیم نو کے عمل میں ماہرین کی مشاورت اور بین الاقوامی معیار کو مدنظر رکھا جائے۔ رپورٹ کے مطابق وزیراعظم کو 2024 کی نجکاری فہرست میں شامل اداروں کی نجکاری کی پیشرفت پر بریفنگ دی گئی، کمیشن حکام نے بریفنگ میں بتایا کہ منتخب اداروں کی مرحلہ وار نجکاری قانونی، مالیاتی اور شعبہ جاتی تقاضوں کو مدنظر رکھ کر ترتیب دی گئی ہے۔ مزید یہ کہ کابینہ کی منظوری سے طے شدہ پروگرام کے مطابق منتخب اداروں کی مرحلہ وار نجکاری مقررہ مدت میں مکمل کی جائے گی اور نجکاری فہرست میں شامل تمام اداروں، بشمول پی آئی اے اور بجلی کی ترسیلی کمپنیاں (ڈسکوز)، کی نجکاری طے شدہ اقتصادی، ادارہ جاتی اور انتظامی اہداف کے مطابق کی جائے گی۔ اجلاس میں وفاقی وزرا سردار اویس خان لغاری، احد خان چیمہ، چیئرمین نجکاری کمیشن محمد علی، وزیر مملکت برائے خزانہ و ریلوے بلال اظہر کیانی اور دیگر متعلقہ حکام اور سینئر افسران نے شرکت کی۔واضح رہے کہ نجکاری اس عمل کو کہتے جس کے تحت کسی بھی سرکاری، نیم سرکاری یا سرکاری ایجنسیوں کے زیر انتظام ادارے کو نجی ملکیت میں دے دیا جائے۔ نقصان میں رہنے والے اداروں کی نج کاری سے عموماً ادارے کی کارکردگی اور خدمات میں بہتری آتی ہے اور ادارہ کچھ عرصے میں منافع بخش بن جاتا ہے۔ لیکن منافع بخش ادارے کی نج کاری ملک کے لیے گھاٹے کا سودا ہوتی ہے ہم نہیں چاہتے کہ حکومت پیٹرول پمپس، تیل کے کنویں، پورٹ، ہوائی اڈے یا ریلوے وغیرہ کے انتظامات سنبھالے۔متعلقہ شعبہ جات میں ہمارے سرکاری ادارے سالانہ اربوں روپے کا نقصان تو کرتے ہی ہیں ساتھ اس سے کاروباری مواقع میں بھی کمی آتی ہے۔ سرکاری اداروں کی نجکاری کرکے نہ صرف ہم حکومت کا اثر و رسوخ ان اداروں پر سے ختم کرسکتے ہیں بلکہ یوں ہماری ٹیکس آمدنی، روزگار اور اقتصادی ترقی میں بھی اضافہ ہوگا۔عصرحاضر میں نجکاری عمل سے بین الاقوامی بینک، اسٹاک مارکٹیں فائدے حاصل کرتے ہیں جن کا حتمی مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس سے عالمی سرمائے کے مردہ ڈالروں کی گلو بلائزیشن میں جان پڑ جاتی ہے۔ نجکاری کے پروگرام کو ترتیب دے کر امپیریل فنڈ وصول کرنے والے مشیر، معاشی دہشت گرد اور مقامی ملکی حکومتیں مع ایجنسیوں کے یہ کام سر انجام دیتی ہیں۔ قیمتوں کا تعین کرنے کے علاوہ یہ حلقے بااثر خریدار کو متوجہ بھی کرتے ہیں۔ سرمایہ داروں کا عالمی پیرس کلب اس عمل کی نگرانی کرتا ہے اور اپنے پروکسی کے ذریعے اس لو پروکسیٹ میں اپنا حصہ بھی لیتا ہے۔ نج کاری کا دائرہ عمل یا احاطہ کار اور فریم ورک کا تعین معاشی طاقتوں کے ایما پر عالمی مالیاتی ادارے کرتے ہیں۔ چنانچہ عوام کی کمائی پر ہوئی ٹیکسوں کی آمدنی اور ان سے بنائے ہوئے قومی اثاثے عالمی سرمایہ داروں کو منتقل ہو جاتے ہیں جن کی واپسی ممکن نہیں۔بقول ملائیشیا کے رہنما مہاتیر محمد کے کہ “نجکاری اندرونی قدر میں نہ تو اضافہ کرتی ہے اور نہ روزگار کو بڑھاتی ہے بلکہ گھٹاتی ہے”۔ اس سے یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ نجکاری کے عمل سے مقامی سرمایہ کاری میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا، نجکاری کے یہ معنی نہیں ہیں کہ صرف کسی ادارے کو ”ٹیک اوور” کرنا ہے۔ بلکہ ایسے پیداواری اسٹرکچر کو ختم کرنا مقصود ہوتا ہے جوعالمی مسلط کردہ سامراجی کنٹرول یا عالمی سرمائے کے لیے چیلنج ہو۔ اس لیے ان طاقتوں کو اس امر سے کوئی غرض یا دلچسپی نہیں کہ پرانا اسٹرکچر قائم رہتا ہے یا نہیں۔ نج کاری کے عمل میں سوشلزم اور نیشنلزم کے خوف کو بھی ختم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کنٹرولڈ جمہوریت میں حکومتوں کے ذریعے سے عمداً یہ کام کرایا جاتا ہے۔اس سارے کھیل میں اجتمائی جدوجہد، سماجی انصاف کا حصول اور تبدیلی کا عمل ابہام کا شکار ہو کر دم توڑ دیتا ہے اور نتیجے میں قومی ریاست کا تشخص عالمی تجارتی تنظیم اور آئی ایم ایف کے تابع ہو جاتا ہے۔ یاد رہے کہ مارکیٹس زیادہ تر اشیا اور خدمات بہتر انداز میں فراہم کرتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ عالمی سطح پر مالی فائدے یا کارکردگی چمکانے کی غرض سے بھی ان عوامی شعبہ جات میں ہاتھ نہیں ڈالا جاتا۔ پیٹرول پمپس، ہوائی ادارے اور بینک اس کی مثالیں ہیں جبکہ یہاں پاکستان میں پی ایس او، پی آئی اے اور نیشنل بینک ابھی بھی سرکاری ملکیت میں ہیں۔حکومت کا کام خود بزنس کرنا نہیں لیکن حکومت کا کام اجارہ دار، منافع خور کاروباریوں کو فری ہینڈ دینا بھی نہیں ، نجی شعبہ کی آزادی اور منافع کے اوپر عوامی مفادات کے تحفظ کا کنٹرول لازم ہے، سرمایہ داری نظام اور مارکیٹ اکانومی کو دنیا میں سوشلزم اور کمیونزم کے مقابلے میں فتح حاصل ہو چکی ہے مگر اب بھی دنیا کا بہترین نظام کو سوشل ڈیموکریسی کا نام دیا جاتا ہے، ہمیں بھی نجکاری کرتے ہوئے ایسی شرائط رکھنی چاہئیں جن سے ایک تو ان شعبوں میں نئی سرمایہ کاری آئے اور دوسرے ناجائز منافع خوری نہ ہو۔پاکستان میں قومیائے گئے اداروں کی نجکاری کی جا رہی ہے60اور 70کی دہائی میں دنیا بھر میں صنعتوں کو قومیانے کا رجحان رہا، پاکستان میں بھی بڑی صنعتیں، بینک اور کئی تجارتی ادارے قومیا ئے گئے جس سے پرائیویٹ بزنس کو نقصان ہوا، قومیائے گئے ادارے بھی تباہ ہو گئے مگر دوسری طرف سرکاری ملکیت میں آنے سے چینی اور آٹے کا ریٹ کنٹرول ہوگیا، چیزوں کی کمیابی پر قابو پایا گیا، سرمایہ داروں اور کارخانہ داروں کی لوٹ کھسوٹ اور استحصال کا خاتمہ ہوا تاہم مجموعی طور پر سرکاری ملکیت کا فیصلہ معیشت کیلئےنقصان دہ ثابت ہوا 1970 کی دہائی میں جب اشتراکیت کو کچھ خاص پسند نہیں کیا جاتا تھا، انگریزوں کی چند پالیسیاں ایسی تھیں جنہیں بعد میں چند لوگوں نے ’پیداواری اشتراکیت‘ کا نام دیا۔پاکستان اسی پیداواری اشتراکیت کی پالیسیوں پر عمل پیرا ہے۔چنانچہ 80کی دہائی کے بعد سے نجکاری شروع ہوگئی اور ابھی تک جاری ہے۔کسی بھی ملک کی ترقی میں نجی شعبہ ہی اہم ترین کردار ادا کرتا ہے تاہم نجی شعبے کے اوپر سرکاری کنٹرول اور توازن نہ رکھا جائے تو ناجائز منافع خوری اور استحصال شروع ہو جاتا ہے، اس کی مثال شوگر مل اونرز کے دبائو پر چینی کی برآمد کا فیصلہ ہےپاکستان میں سیمنٹ انڈسٹری کی نجکاری کئی گئی اس سے ریاست بوجھ سے آزاد ہوئی صنعت نے بھی ترقی کی جدید مشینری لگی، سیمنٹ ایکسپورٹ بھی ہوا مگر اس میں بھی ملوں نے ملی بھگت سے اجارہ داری یا مناپلی قائم کرلی ہے سیمنٹ کا ریٹ من مرضی سے بڑھا دیتے ہیں اسی طرح بینک نجی تحویل میں دینے سے حکومت کا درد سر تو ختم ہوا لیکن اس وقت بینک ملک میں سب سے زیادہ منافع کما رہے ہیں نہ عوام کو قرضے دے رہے ہیں نہ کوئی اور سہولت۔ اکثر بینک مالکان بیرون ملک مقیم ہیں ان کا منافع انہیں باہر بیٹھے ہی موصول ہو جاتا ہے وہ ذرہ برابر رسک نہیں لیتے ہیں نہ انہیں ملک میں کاروبار کی بڑھوتری کی کوئی فکر ہے۔ حکومت کو مہنگی شرح سود پر قرضے دیتے ہیں اسی طرح ہم نے منافع بخش ادارہ ٹیلی کام خلیج کی ایک کمپنی کو فروخت کردیا اب صورتحال یہ ہے کہ اس کمپنی نے اس شعبے میں سرے سے نئی سرمایہ کاری ہی نہیں کی ،ایک زمانے میں ہم اس شعبے میں دنیا کے جدید ترین ممالک کے ہم پلہ تھے اب انٹرنیٹ وغیرہ میں ہم بہت پیچھے چلے گئے ہیں نجی ادارے منافع کمانے میں دلچسپی تو رکھتے ہیں لیکن یہ نئی ٹیکنالوجی لاتے ہیں نہ ہی سرمایہ کاری کرتے ہیں آج کل ہم قومی فضائی کمپنی پی آئی اے اور پاکستان سٹیل مل کی نجکاری کے بارے میں بہت متحرک ہیں، ہمیں ماضی کے تجربوں کو مدنظر رکھ کر فیصلے کرنے چاہئیں پی آئی اے بھی اس کمپنی کو دینی چاہیے جو نئے جہاز خریدے اپنی سروس کا معیار بین الاقوامی کرے اور کرائے بھی نہ بڑھائے پی آئی اے کے علاوہ پاکستان میں 4 نجی ایئر لائنز اور ہیں جو نئے طیارے اور پی آئی اے کے مقابلے میں بہتر کرائے اور سہولیات فراہم کررہے ہیں۔

پی آئی اے کی وجہ سے ہمیں سالانہ اربوں روپے کا نقصان ہوتا ہے جبکہ دوسری جانب نجی ایئر لائنز ہمیں پیسے کما کر بھی دیتی ہیں اور ٹیکس بھی ادا کرتی ہیں,خیال رہے کہ پی آئی اے ایک پبلک لمیٹڈ کمپنی ہے جس کے سرمائے کا تقریباً 96 فیصد حصہ حکومت کے پاس ہے۔ پی آئی اے میں اس وقت 7200 مستقل ملازمین کام کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ڈیلی ویجز پر کام کرنے والے ملازمین بھی اس ایئرلائن کا حصہ ہیں۔ پی آئی اے صرف ملازمین کے مفاد کے لیے چلائی جا رہی ہے جبکہ 22 کروڑ پاکستانیوں کے مفاد کو بالکل نظرانداز کیا جارہا ہے۔ 1987 سے لے کر آج تک پی آئی اے نے صرف مالی سال 07-2006 میں منافع کمایا، جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کوئی بھی حکومت اس ادارے کو بہتر نہیں کر سکی۔ پی آئی اے میں خسارے کا سلسلہ 2004 میں شروع ہوا اور اس کے بعد سے اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے حکومت کو پی آئی اے کی نجکاری سے سب سے پہلا فائدہ یہ ہو گا کہ قومی خزانے کو پہنچنے والے نقصان کا سلسلہ تھم جائے گا۔ پی آئی اے کے کُل نقصانات اور سبسڈی کا حجم 635 ارب روپے ہے جبکہ اگر یہی مالیت ہمارے زرِمبادلہ کے ذخائر کی ہوتی تو شاید ہمارے بہت سے مسائل حل ہوسکتے تھے۔پی آئی اے کی طرح بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں (ڈسکو) بھی بدتر حالت میں ہیں۔ یہ کمپنیاں ملک کے 17 فیصد صارفین سے بجلی کے بل وصول کرنے میں ناکام ہیں۔ مزید یہ کہ وہ بجلی کی تقسیم کے دوران بھی 17 فیصد بجلی ضائع کرتے ہیں۔ تو مجموعی طور پر ہم 34 فیصد بجلی تو ضائع کردیتے ہیں یا پھر وہ چوری ہوجاتی ہے۔ یوں وہ صارفین جو بل ادا کرتے ہیں، انہیں مہنگے نرخوں پر بجلی مہیا کی جاتی ہے۔سوئی گیس کی دونوں کمپنیاں بھی کچھ بہتر حالت میں نہیں۔ ان دونوں کو چھوٹی کمپنیوں میں تقسیم کرنے کے بعد ان کی بھی نجکاری کردینی چاہیے۔ ان دونوں کمپنیوں سے تقریباً 400 ایم سی سی ایف ڈی کی گیس مختلف وجوہات کی بنا پر ضائع ہوئی اور وہ یہ جانتے بھی نہیں کہ اتنی گیس کا آخر ہوا کیا۔ کوئی نہیں جانتا کیا یہ گیس لیک ہوگئی یا پھر چوری ہوگئی۔بلوچستان کو فراہم کی جانے والی آدھی سے زیادہ گیس ضائع ہوجاتی ہے۔ ان دونوں کمپنیوں سے جو گیس ضائع ہوتی ہے اس کی لاگت 20 کروڑ ڈالرز فی مہینہ ہے۔کئی سالوں میں تقسیم، بلوں کی وصولی یا یو ایف جی میں کوئی بہتری نہیں آئی ہے۔ انہیں بہتر کرنے کا واحد راستہ یہی ہے کہ ان اداروں کی نجکاری کردی جائے۔ یہ حقیقت ہے کہ وہ سرکاری ادارے جو نقصان میں جارہے ہیں انھیں اصلاحات کے ذریعے اور کرپشن سے بچاکر منافع بخش اداروں میں بدلا جاسکتا ہے۔مزید برآں اس میں کوئی شک نہیں کہ بہت سے سرکاری ادارے ایک عرصے سے اربوں روپوں کے نقصان میں جارہے ہیں حقیقت یہ ہے کہ سرکاری اداروں کی تباہی کی 100 فیصد ذمے داری بیوروکریسی پر عاید ہوتی ہےریلوے میں عشروں سے کرپشن ہورہی ہے اس کا نتیجہ یہی نکلنا تھا جو نکل رہا ہے لیکن وزیر ریلوے کا موقف ہے کہ ریلوے کو بیچنے نہیں دیں گے دنیا بھر میں مال بردار ریلوے کا حصہ ریلوے کے منافع کا ذریعہ بنا ہوا ہے اور پیسنجر سروس عموماً نقصان کا باعث ہی بنی رہتی ہے۔ریلوے کے پاس بے تحاشا زمین موجود ہے فوج کے بعد ریلوے وہ واحد ادارہ ہے جو زمین کی ملکیت کے حوالے سے دوسرے نمبر پر ہے۔ریلوے کی زمین کو بیچنے کے بجائے اسے پٹے پر اٹھایا جائے تو زمین کی ملکیت بھی ریلوے کے پاس رہے گی اور پٹے سے حاصل ہونے والی رقوم ریلوے کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے میں مددگار ثابت ہوگی