اسلام آباد (ٹی این ایس) پاکستان خطے کے محفوظ مستقبل کے لیے پُر عزم

 
0
31

اسلام آباد (ٹی این ایس) پاکستان خطے کے محفوظ اور خوشحال مستقبل کے لیے پُر عزم ہے۔ اسٹریٹجک ہم آہنگی پاکستان کے اس دیرینہ عزم کی عکاس ہے کہ وہ ایک محفوظ، مربوط، اور باہمی تعاون پر مبنی علاقائی نظام تشکیل دے، جو مشترکہ سلامتی کے مفادات اور علاقائی یکجہتی پر مبنی ہو۔ پاکستان کی میزبانی میں اسلام آباد میں منعقد ہونے والی ریجنل چیفس آف ڈیفنس سٹاف کانفرنس میں امریکا، قازقستان، کرغزستان، تاجکستان اور ازبکستان کے اعلیٰ عسکری حکام نے شرکت کی۔آئی ایس پی آرکے بیان میں بتایا گیا کہ اسلام آباد میں پاکستان کی زیرِ میزبانی ’مضبوط ربط، محفوظ امن‘ کے عنوان سے ریجنل چیفس آف ڈیفنس اسٹاف کانفرنس کا انعقاد کیا گیا فیلڈ مارشل عاصم منیر نے اپنے خطاب میں خطے میں امن، استحکام اور تعمیری کردار ادا کرنے کے عزم کا اعادہ کیا اور کہا کہ درپیش چیلنجز کے تناظر میں اسٹریٹجک مکالمہ اور باہمی اعتماد اہمیت کا حامل ہے کانفرنس کے مقاصد میں بہتر اقدامات، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تعاون کا فروغ شامل ہے، فیلڈ مارشل عاصم منیر نے کہا ہے کہ پاکستان خطے کے محفوظ اور خوشحال مستقبل کے لیے پُر عزم ہے۔عالمی خطرات اور پیچیدہ ہائبرڈ چیلنجز میں باہمی فوجی تعاون کی اشد ضرورت ہے

ریجنل چیفس آف ڈیفنس اسٹاف کانفرنس کا مقصد باہمی تعاون کی مضبوطی ہے۔ اعلیٰ سطح کے اس مکالمے میں علاقائی سلامتی کی صورتِ حال، وسطی اور جنوبی ایشیا کے تزویراتی حالات میں تبدیلی، مشترکہ تربیتی اقدامات، انسداد دہشت گردی میں تعاون اور بحرانوں کے دوران مربوط انسانی ہمدردی پر مبنی ردِ عمل جیسے امور پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔ شریک وفود نے اجتماعی طور پر امن، احترام، قومی خودمختاری کے تحفظ، دہشت گردی، سائبر سیکیورٹی کے خطرات اور پُرتشدد انتہا پسندی جیسے مشترکہ خطرات سے نمٹنے کے لیے اپنے عزم کا اعادہ کیا۔ شرکاء نے دفاعی سفارت کاری کو فروغ دینے کے لیے پاکستان کی قیادت، مہمان نوازی اور اس اقدام کو سراہا ہے۔یہ یاد رکھیں کہ پاکستان کی موجودہ سفارت کاری امریکہ‘ دیگر مغربی ممالک‘ چین اور روس کے اس مؤقف کے مطابق ہے جو پاکستان اور بھارت کو مسائل کا سفارتی حل تلاش کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ پاکستان کے ان وفود نے‘ جو امریکہ اور یورپی ممالک کے دورے پر گئے‘ دو نکات پر زور دیا جو کافی عالمی پذیرائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے: اول‘ پاکستان پہلگام واقعے کی آزاد بین الاقوامی تحقیقات میں تعاون کے لیے تیار ہے۔ دوم‘ پاکستان بھارت کے ساتھ تمام متنازع امور پر بات کرنے کے لیے آمادہ ہے جن میں دہشت گردی اور کشمیر بھی شامل ہیں۔ پاکستان نے امریکہ اور دیگر دوست ممالک سے کہا کہ وہ بھارت کو قائل کرنے کے لیے اپنی سفارت کاری کو بروئے کار لائیں تاکہ بھارت اور پاکستان کے مابین دیرینہ تصفیہ طلب مسائل پُرامن اور مذاکراتی عمل کے ذریعے حل کیے جا سکیں‘ جس سے نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ پوری عالمی برادری کو فائدہ ہو گا۔ سلامتی کے لیے جامع ترقی ناگزیر ہے اقتصادی ترقی کے باوجود، پاکستان کی معیشت کی بنیادیں میکرو اکنامک کمزوریوں، پسماندگی اور باہم منسلک پالیسیوں کی ناکامیوں سے دوچار ہیں جیو اکنامک رجحان بذات خود اس بات کا مطلب نہیں کہ پاکستان اپنے روایتی سیکورٹی خدشات سے پیچھے ہٹ رہا ہےپاکستان کسی بھی قیمت پر محض خوشحالی یا امن کے منافع کی خاطر خوشحالی کا خواہاں نہیں معیشت کو بڑھنے کا مقصد ایک بڑاقومی وسائل بنانا ہے جس سے ملک کا دفاع اور سلامتی کا شعبہ مستقبل میں آج کے مقابلے میں زیادہ وسائل حاصل کر سکتا ہے خوشحالی کا زیادہ سے زیادہ اسٹریٹجک مقاصد کے لیے زور دینے کا مطلب یہ ہے کہ جیو اکنامکس کے لیے جیو اسٹریٹجی کا کوئی متبادل نہیں اس کے بجائے مؤخر الذکر کو پہلے سے جوڑ دیا جاتا ہے پاکستان ‘علاقائی امن’ چاہتا ہے اور ‘بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر بنانا چاہتا ہے’ یہ مقصد ایک مضبوط دفاع اور ڈیٹرنس موقف کے ماتحت ہے، جو متوقع مضبوط معیشت کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔موجودہ رجحانات کے پیش نظر، بھارت کے ساتھ کسی سیاسی قدم میں تبدیلی کا امکان نظر نہیں آتا، بھارت کے ساتھ جغرافیائی سٹریٹجک مقابلے کی بجائے کم ہونے کے زیادہ امکانات پیدا کرتی ہے۔ کچھ ڈیٹرنس پرامیدوں کی نظر میں، اس سے پاک بھارت تعلقات کو استحکام مل سکتا ہے۔ لیکن یہی بات فوجی جدیدیت کے پاکستان کے پہلے سے موجود منصوبوں کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے، پاکستان کی روایتی سلامتی کی ترجیحات کے معروف عناصر کا اعادہ – خاص طور پر اس عمومی، غیر درجہ بند سطح پر – ملک کی سمت اور نقطہ نظر کے ناقدین کو جیتنے کا امکان نہیں بناتا۔پاکستان کی جوہری صلاحیت ہماری روایتی فوجی صلاحیتوں اور قومی طاقت کے تمام عناصر کے ساتھ مل کر، قابل اعتبار کم از کم جوہری ڈیٹرنس کے حدود میں، مکمل سپیکٹرم ڈیٹرنس کے ذریعے جنگ کو روکتی ہےخارجہ پالیسی کے حصے میں چین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو ‘مشترکہ مفادات اور باہمی افہام و تفہیم سے چلنے والے’، اور ‘اعتماد اور تزویراتی ہم آہنگی کی بنیاد پر’ توسیع جاری رکھنے کی خصوصیت بھی دی گئی ہے۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری کو چین کے ساتھ خوشحالی کے ایجنڈے کے مرکز کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق، 2015 میں شروع کیا گیا، اس نے اب تک پاکستان میں 25.4 بلین امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔ پاکستان کے روایتی سیکورٹی اپروچ کے لیے ممکنہ طور پر ایک نئے عزائم کا تعین کرتی ہے وہ اس کے بیان کردہ ارادے میں ‘خلائی صلاحیتوں’ اور ‘معلومات اور سائبر سیکیورٹی’ کو بڑھانا ہے۔ کوئی تفصیلات فراہم نہیں کی گئی ہیں، لیکن چین نے 28 جنوری کو کہا کہ وہ ‘پاکستان کے لیے مواصلاتی سیٹلائٹ تیار کرنے اور پاکستان اسپیس سینٹر کی تعمیر میں تعاون کو ترجیح دے گا’ پاکستان کی خارجہ پالیسی کی پیروی کے حوالے سے اس کا حوالہ قومی سلامتی کی پالیسی میں ہے۔پاک بھارت جنگ 2025کے بعد سے بھارتی وزیر خارجہ‘ وزیر داخلہ اور دیگر وزرا آئے روز پاکستان کے خلاف دھمکی آمیز بیانات دے رہے ہیں کہ بھارت کسی بھی وقت پاکستان کے خلاف دوبارہ فوجی کارروائی کر سکتا ہے۔ بھارت نے کئی وفود امریکہ‘ برطانیہ اور کچھ یورپی ممالک میں بھیجے تاکہ پاکستان کے خلاف اپنا منفی بیانیہ پیش کرکے عالمی حمایت حاصل کی جا سکے تاہم بھارتی کوششیں ناکام رہی ہیں کیونکہ مغربی ممالک کے دورے پر جانے والا بھارتی وفد پاکستان کے خلاف کوئی ٹھوس شواہد پیش نہیں کر سکا۔ وہ 22 اپریل کو مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں سیاحوں پر ہونے والے دہشت گرد حملے میں پاکستان کے ملوث ہونے کے ثبوت بھی فراہم نہ کر سکاتھا۔ پاکستان نے اس واقعے کی آزادانہ اور غیر جانبدارانہ بین الاقوامی تحقیقات میں تعاون کی پیشکش کی‘ لیکن بھارت نے اس پیشکش کو نظرانداز کرتے ہوئے پاکستان کے خلاف منفی پروپیگنڈا جاری رکھاتھا۔ بھارت نے پہلگام واقعے کو جواز بنا کر سات مئی کی شب پاکستان کے مختلف شہری اہداف پر میزائل حملے کیے تھے بھارت کو نہ صرف مئی کی جنگ میں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا بلکہ عالمی سفارت کاری میں بھی شرمندگی اٹھانا پڑی تھی

جنگ کے بعد بھارت کی سفارتی کوششوں نے امریکہ کے ساتھ اس کے تعلقات کو بھی متاثر کیا ۔ جنگ کے حوالے سے بھارت نےبڑی غلطیاں کیں, یہ کہ بھارتی عسکری اور سول حلقے اور اس کے نیم سرکاری دفاعی ماہرین اس غلط فہمی کا شکار تھے کہ بھارت اپنی روایتی فوجی برتری کے باعث ایک یا دو دن میں پاکستان کے دفاعی نظام کو مفلوج کر دے گا۔ ان کے نزدیک بھارت کی افرادی قوت‘ ہتھیاروں‘ فضائیہ اور بحریہ کی برتری پاکستان کے دفاعی نظام کو اس حد تک مفلوج کر دے گی تاہم مئی کی چار روزہ جنگ میں بھارت کا یہ خوش فہمی پر مبنی اعتماد بری طرح ناکام ہوا کیونکہ پاکستان نے سات مئی کو بھارتی حملوں کے بعد اپنے جدید فضائی دفاعی نظام کو متحرک کر دیا۔ پاکستان نے پیشہ ورانہ مہارت‘ سروس سے وابستگی اور جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے سات سے 10 مئی کے درمیان بھارت کے فضائی حملوں کو نہ صرف ناکام بنایا بلکہ پاکستان نے چینی ساختہ J10-C‘ پاک چین مشترکہ منصوبے کے تحت بنے JF-17 تھنڈر طیارے‘ جدید میزائلوں‘ ڈرونز (چینی‘ ترک اور پاکستانی ساختہ) ریڈار اور سیٹلائٹ کمیونیکیشن سسٹم اور سائبر ٹیکنالوجی کی مدد سے بھارتی حملے کو مؤثر طور پر ناکام بنایا۔ پاکستان نے کشمیر سے لے کر بھارتی ریاست گجرات تک بھارتی فوجی اڈوں کو نشانہ بنایا جن میں سے کچھ کو شدید نقصان پہنچا‘ حتیٰ کہ روسی ساختہ S-400 دفاعی نظام بھی متاثر ہوا۔ پاکستان نے چھ بھارتی طیارے مار گرانے کا دعویٰ کیا جن میں تین فرانسیسی ساختہ رافیل طیارے شامل تھے۔ یہ سب ان بھارتی دفاعی حلقوں کے لیے ایک شدید دھچکا تھا جو کبھی پاکستان کی عسکری مہارت اور اس کی جدید دفاعی ٹیکنالوجی کی ترقی کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں تھے۔ بھارت کی غلطی یہ تھی کہ اس نے اس حقیقت کو تسلیم کرنے سے انکار کیا کہ امریکی سفارت کاری‘ خاص طور پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ذاتی دلچسپی نے 10مئی کی شام پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ بندی کروائی۔ بھارتی حکومت یہ اعتراف کرنے سے قاصر رہی کہ بھارت نے امریکہ کی ثالثی پر جنگ بندی قبول کی۔ دنیا بھر میں اس حقیقت کے تسلیم کیے جانے کے باوجود بھارت کا یہ انکار امریکہ اور بھارت کے تعلقات میں خلیج کا سبب بنا اس کے برعکس پاکستان نے صدر ٹرمپ اور ان کی ٹیم کی کوششوں کو سراہا اور امریکہ سے کہا کہ وہ بھارت اور پاکستان کے مابین تمام متنازع مسائل پر بات چیت کے لیے اپنا سفارتی کردار ادا کرے ور اثر و رسوخ استعمال کرے۔ تاہم‘ بھارت نے امریکہ کی اس پیشکش کو رد کر دیا اور کہا کہ وہ پاکستان کے ساتھ مسائل میں امریکہ کی ثالثی نہیں چاہتا۔ بھارت کی غلطی یہ تھی کہ اس نے پاکستان کے ساتھ مسائل حل کرنے کے لیے پُرامن مذاکرات کے عالمی مشورے کو سننے سے انکار کر دیا۔ بین الاقوامی برادری دو ایٹمی ریاستوں کے مابین مکمل روایتی جنگ کے امکان سے خائف تھی کیونکہ یہ جنگ ایک بھیانک ایٹمی تصادم میں بھی بدل سکتی تھی۔ لیکن بھارت پاکستان کے ساتھ کسی مسئلے پر بات کرنے کو تیار نہیں۔ بھارت کا سندھ طاس معاہدے 1960ء کو یکطرفہ طور پر معطل کرنے کا اعلان بھی دونوں ممالک کے مابین مزید تناؤ کا باعث بنا بین الاقوامی قانون اور سندھ طاس معاہدے کی شرائط کے مطابق بھارت اس معاہدے کو یکطرفہ طور پر معطل نہیں کر سکتا‘ بین الاقوامی آبی اور قانونی ماہرین بھی پاکستان کے مؤقف کی تائید کرتے ہیں کہ بھارت یہ اقدام نہیں کر سکتا۔ بھارت کی اس ضد نے اسے عالمی سطح پر بھی سفارتی نقصان پہنچایا پاکستان کی موجودہ سفارت کاری امریکہ‘ دیگر مغربی ممالک‘ چین اور روس کے اس مؤقف کے مطابق ہے جو پاکستان اور بھارت کو مسائل کا سفارتی حل تلاش کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ماضی میں پاکستان کی مشرقِ وسطیٰ کے ساتھ قربتیں مذہبی، ثقافتی اور جغرافیائی وجوہات کی بنیاد پر پروان چڑھیں پاکستان کو عربوں کے قریب لانے میں ہماری کامیاب دفاعی صلاحیتوں کا کلیدی کردار ہے کیونکہ پاک بھارت جنگ 1965ء میں بھی افواجِ پاکستان بالخصوص پاک فضائیہ کی شاندار کارکردگی نے عربوں کی توجہ اپنی جانب مرکوز کرالی تھی۔ سعودی عرب کا شمار مشرق وسطیٰ کے اہم ترین ممالک میں ہوتا ہے جو پاکستان کا قریبی اتحادی ہے، تاریخی طور پر پاکستان اور سعودی عرب کے مابین عسکری تعلقات ساٹھ کی دہائی میں قائم ہوئے، ماضی میں جب بھی سعودی عرب کی علاقائی سالمیت کو خطرہ لاحق ہوا، پاکستان نے آگے بڑھ کر ہر مشکل وقت میں دفاعی تعاون فراہم کیا،آج بھی بے شمار فوجی خدمات سرانجام دے رہے ہیں دونوں ممالک کی افواج مشترکہ فوجی مشقوں میں باقاعدگی سے حصہ لیتی ہیں، پاکستان کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ سعودی عرب کی سرپرستی میں قائم ہونے والے اسلامی فوجی اتحاد برائے انسداد دہشت گردی کی سربراہی کیلئے سابق پاکستانی آرمی چیف کو مقرر کیا گیا۔ پاکستان کو بحیرہ عرب کی عظیم بحری قوت کا درجہ بھی حاصل ہے اورپاکستانی بحری جہاز مختلف خلیجی ممالک بشمول متحدہ عرب امارات، قطر اور عمان کی بندرگاہوں کے باقاعدگی سے دورے کرتے ہیں، اس حوالے سےمذکورہ ممالک نے پاکستان سے عسکری تربیت، دفاعی تعاون اور مشترکہ مشقوں پر مبنی دفاعی معاہدے بھی کررکھے ہیں،پاکستان ان ممالک کے عسکری افسران اور جوانوں کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں میں بہتری کیلئے تربیتی کورسز کا انعقاد کرتا ہے اور انکی بیشتر دفاعی ضروریات پاکستان کے توسط سے ہی پوری ہوتی ہیں۔ پاکستان اوربھارت کے مابین حالیہ سرحدی کشیدگی کا معاملہ صرف لڑاکا طیاروں تک محدود نہ رہا بلکہ پاکستان نے الیکٹرانک وارفیئر، ڈرون نیوٹرلائزیشن اور ایئر اسپیس مانیٹرنگ میں جدید صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے دنیا کو ششدر کردیا، ناقابلِ تسخیر سمجھے جانے والے فرانسیسی ساختہ رافیل جہازکو مارگرانے کی خبرمشرق وسطیٰ کے عرب ذرائع ابلاغ میں بھی ٹاپ ہیڈ لائنز کا حصہ بننے میں کامیاب ہوگئی۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی کامیاب دفاعی حکمت عملی نے مشرق وسطیٰ کے ممالک کی نظر میں ہماری عسکری ساکھ کو بہتر سے بہترین کردیا ہے، خلیجی ممالک پاکستان کو ایک ایسے ملک کے طور پر دیکھ رہے ہیں جو جدید ڈرون وار فیئر، ایئر ڈیفنس اور سائبر سیکورٹی کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا حامل ہے۔ حالیہ پاک بھارت جنگ نے پاکستان کو سنہری موقع فراہم کیا ہے کہ وہ تنازعات کے شکار خطے میں دفاعی سفارت کاری کے میدان میں تیزی سے پیش رفت کرے،
پاکستان اپنی مضبوط دفاعی صلاحیت کی بدولت نہ صرف اپنی ملکی سرحدوں کی حفاظت یقینی بناسکتا ہے بلکہ پاکستان کا وجود مشرق وسطیٰ کی علاقائی سلامتی کیلئے بھی ناگزیر ہے