لاہور ہائی کورٹ کا بڑا فیصلہ! بریت کے بعد کردار سرٹیفکیٹ میں ایف آئی آر کا ذکر غیر قانونی اگر آپ عدالت سے باعزت بری ہو جائیں تو
*کردار سرٹیفکیٹ میں ایف آئی آر کا ذکر نہیں ہوگا۔
*آپ کی عزت و وقار محفوظ رہے گی (آرٹیکل 14 کے تحت)۔
*پولیس ریکارڈ رکھ سکتی ہے لیکن سرکاری سرٹیفکیٹ میں نہیں دکھا سکتی۔
عنوان:
عبدالرحمٰن فریاد بنام حکومتِ پنجاب وغیرہ
آئینی درخواست نمبر 40844/2025
پس منظر:
عبدالرحمٰن فریاد نے آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 199 کے تحت یہ درخواست دائر کی کہ اُنہیں پولیس کریکٹر سرٹیفکیٹ دیا جائے جس میں اُس ایف آئی آر کا ذکر نہ ہو جس میں وہ باعزت بری ہو چکے ہیں۔
یہ ایف آئی آر نمبر 1254/2024 تھانہ نواں کوٹ لاہور میں پتنگ بازی ایکٹ کے تحت درج ہوئی تھی۔ مقدمہ سیشن 30 مجسٹریٹ کے سامنے چلا اور 20.12.2024 کو دفعہ 249-A ض ف کے تحت بریت کا حکم ہو گیا۔ ریاست نے اس بریت کو چیلنج نہیں کیا، لہٰذا فیصلہ حتمی ہو گیا۔
پولیس نے 13.03.2025 کو کریکٹر سرٹیفکیٹ جاری کیا مگر اُس میں ایف آئی آر کا اندراج کر دیا، جس پر درخواست گزار نے سیکرٹری داخلہ پنجاب سے دوبارہ درست سرٹیفکیٹ مانگا۔ اس پر تاخیر اور انکار ہوا، جس کے بعد درخواست گزار نے عدالت سے رجوع کیا۔
حکومت کا مؤقف:
پولیس رولز 1934 کے رول 24.5 اور 2024 ترمیم کے مطابق ایف آئی آر کا ریکارڈ 60 سال محفوظ رہتا ہے اور ڈیجیٹل سسٹم (PSRMS) سے حذف نہیں ہو سکتا، صرف اس کا اسٹیٹس (مثلاً بریت، سزا وغیرہ) اپڈیٹ ہو سکتا ہے۔
عدالت کا مشاہدہ:
*درخواست گزار پر الزام اخلاقی پستی یا ریاست مخالف جرم کا نہیں تھا۔
*بریت کا فیصلہ حتمی ہو چکا ہے۔
*محض ایف آئی آر کا اندراج اور بریت کے باوجود سرکاری کاغذات میں ذکر انسانی وقار (آرٹیکل 14) کی خلاف ورزی اور بے جا داغ کا باعث ہے۔
*پولیس اندرونی مقاصد کے لیے ریکارڈ رکھ سکتی ہے مگر عوامی یا سرکاری سرٹیفکیٹ میں بری شخص کے خلاف ذکر ناجائز ہے۔
*لاہور ہائی کورٹ اور پشاور ہائی کورٹ کے فیصلوں میں واضح ہے کہ بریت کے بعد ایف آئی آر کا ذکر کردار سرٹیفکیٹ میں نہیں ہونا چاہیے۔
حکم:
درخواست منظور۔
سیکرٹری داخلہ پنجاب کو ہدایت دی گئی کہ درست کریکٹر سرٹیفکیٹ جاری کیا جائے جس میں ایف آئی آر نمبر 1254/2024 کا کوئی ذکر نہ ہو۔
حکم کی کاپی آئی جی پنجاب اور چیف سیکرٹری پنجاب کو بھیجی جائے تاکہ ہدایات پر عمل یقینی بنایا جا سکے۔













