اسلام آباد (ٹی این ایس) یوں لگتا ہے جیسے فتح جنگ کی یہ رات کسی ڈرامے کا منظر تھی۔ سپیشل پرائس مجسٹریٹ چوہدری شفقت محمود رات کے اندھیرے میں سی پیک سے واپس جا رہے تھے کہ اچانک اطلاع ملی کچھ بھاری بھرکم ٹرک مشکوک انداز میں رواں دواں ہیں۔ عام سرکاری افسر ہوتا تو شاید گاڑی تیز کرتا اور خاموشی سے اپنے گھر پہنچ جاتا۔ لیکن چوہدری شفقت محمود رُک گئے۔ پولیس کو بلایا، ٹیم بنائی اور فیصلہ کیا کہ آج رات ان ٹرکوں کو ہر حال میں روکنا ہے۔ یہی فرق ہوتا ہے دبنگ افسر اور کاغذی کارروائی کرنے والے میں۔
جب ڈی ایس پی اسلم ڈوگر، ایس ایچ او مجاہد عباس، چوکی انچارج سید کامران اور محرر حسیب احمد موقع پر پہنچے تو دیکھنے والوں نے محسوس کیا کہ یہ کوئی عام ناکہ نہیں، یہ ریاست کی رٹ کا امتحان ہے۔ بیس ٹرک روکے گئے۔ 232 ٹن آٹا اور چوکر برآمد ہوا۔ یہ صرف سامان نہیں تھا بلکہ پنجاب کے عوام کا رزق تھا جو خاموشی سے سرحد پار لے جایا جا رہا تھا۔ وہ لمحہ دیدنی تھا جب پولیس اہلکاروں نے کاغذی کارروائیوں کو چھوڑ کر عملی میدان میں مظبوط گرفت دکھائی۔ اگلے ہی دن یہ خبر ڈپٹی کمشنر اٹک راؤ عاطف رضا اور ڈی پی او سردار موہارن خان کے نوٹس میں پہنچی۔ دونوں نے نہ صرف کارروائی کو سراہا بلکہ اپنے عملے کی حوصلہ افزائی بھی کی۔
اب ذرا دو روز بعد کے منظر پر نظر ڈالیں۔ فتح جنگ انٹرچینج کے قریب پھر ناکہ لگایا گیا۔ اس بار سات ٹرک دھر لئے گئے۔ اور یہ کوئی اتفاق نہیں تھا۔ یہ ثابت کر دیا گیا کہ انتظامیہ صرف ایک وقتی کارروائی نہیں کر رہی بلکہ ایک منظم حکمت عملی کے ساتھ کھڑی ہے۔ چوہدری شفقت محمود نے بار بار یہی کہا کہ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کے وژن کے مطابق کسی بھی صورت آٹا اور گندم کو پنجاب سے باہر نہیں جانے دیا جائے گا۔ اس جملے نے ایک پیغام دیا کہ یہ کارروائیاں کسی ذاتی نمائش یا فوٹو سیشن کے لیے نہیں بلکہ صوبائی سطح پر طے شدہ پالیسی کا حصہ ہیں۔
یہ ساری دبنگ کارروائیاں اپنی جگہ قابلِ تحسین ہیں، مگر پس منظر میں ایک کڑوی حقیقت بھی ہے۔ گندم کے اسمگلر صرف ٹرک نہیں بھر رہے، وہ دراصل عوام کی پلیٹ سے نوالہ چرا رہے ہیں۔ ایسے میں جب سیلاب کی تباہ کاریاں لاکھوں گھروں کو اجاڑ چکی ہوں، بھوک سڑکوں اور بستیوں میں دہلیز تک پہنچ چکی ہو اور غذائی قلت کا خطرہ منڈلا رہا ہو، تو یہ ٹرک کسی چوری شدہ مال کے نہیں بلکہ زندہ انسانوں کی سانسوں کے بوجھ کے تھے۔ ایسے میں ریاستی مشینری کی بروقت مداخلت نے نہ صرف آٹے کے تھیلے بچائے بلکہ دراصل ہزاروں پیٹوں کی بھوک بجھائی۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کے وژن نے ان کارروائیوں کو ایک سمت دی اور یہ واضح کیا کہ عوام کے رزق پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں ہوگا۔ چوہدری شفقت محمود کا کردار یہاں اور بھی نمایاں ہے، جنہوں نے یہ دکھایا کہ جب افسران دل سے اپنے فرض کو نبھائیں تو عوام کو تحفظ اور امید دونوں ملتے ہیں۔ ان کی جرات اور قیادت مقامی انتظامیہ کے لیے روشنی کا مینار بن گئی ہے۔
اہلِ علاقہ کا ردعمل بھی دلچسپ تھا۔ لوگ کھلے عام کہہ رہے تھے کہ اس بار افسران نے ہمیں مایوس نہیں کیا۔ ہر طرف یہ تاثر پھیلا کہ واقعی انتظامیہ نے اپنے فرائض دیانتداری سے انجام دیے ہیں۔ یہ منظر اس لیے بھی اہم ہے کہ عوام کو اکثر شکایت رہتی ہے کہ کارروائیاں صرف اخباری بیانات تک محدود رہتی ہیں۔ مگر یہاں ٹرکوں کی لمبی قطار، پولیس کی نگرانی، اور قبضے میں لیے گئے سامان نے ایک نئی فضا پیدا کی۔
یہاں ایک اور پہلو بھی ہے۔ انتظامی افسران کی اس دبنگ کارروائی کے بعد عملے کا مورال بلند ہوا۔ ڈپٹی کمشنر اور ڈی پی او کی ستائش نے پولیس کے جوانوں کو یہ حوصلہ دیا کہ ان کی محنت کو تسلیم کیا جا رہا ہے۔ عوامی سطح پر جب افسران کو داد و تحسین ملتی ہے تو اس کا اثر نیچے تک جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مقامی لوگ اب یہ امید کر رہے ہیں کہ ایسی کارروائیوں پر انعامات بھی ملیں گے تاکہ باقی افسران بھی اسی جذبے کے ساتھ اپنے فرائض انجام دیں۔
اس سارے منظرنامے میں سب سے دلچسپ کردار چوہدری شفقت محمود کا ہے۔ ان کی پہچان پہلے ہی ایک دبنگ افسر کی تھی لیکن حالیہ دنوں میں ان کی شہرت مزید بڑھ گئی ہے۔ عام طور پر ہم نے سنا ہے کہ افسران فائلوں اور ایئرکنڈیشنڈ دفتروں سے باہر نہیں نکلتے، لیکن یہاں معاملہ الٹ ہے۔ ایک افسر رات کے چار بجے سڑک پر کھڑا ہے، پولیس کو کمانڈ دے رہا ہے، اور ٹرکوں کو روک رہا ہے۔ یہ تصویر عوام کے ذہنوں میں نقش ہو چکی ہے۔
عوام نے یہ بھی کہا کہ اگر ہر ضلع میں ایسے افسران موجود ہوں تو کسی کو یہ جرات نہ ہو کہ وہ پنجاب کے عوام کے حصے کا رزق دوسرے صوبے لے جائے۔ یہ بات محض ایک جملہ نہیں بلکہ اس احساس کا اظہار ہے کہ ریاستی مشینری صحیح سمت میں چل رہی ہے۔ اور یہی وہ لمحہ ہے جب عوام کو یقین ہونے لگتا ہے کہ حکومت ان کے ساتھ ہے۔
فتح جنگ کی یہ کہانی صرف ایک کارروائی کی نہیں بلکہ ایک رویے کی کہانی ہے۔ یہ رویہ بتا رہا ہے کہ اگر ارادہ پختہ ہو، قیادت واضح ہو اور ٹیم ایمانداری سے کام کرے تو کوئی بھی رکاوٹ بڑی نہیں ہوتی۔ وزیراعلیٰ پنجاب کے وژن سے لے کر ایک محرر تک، سب نے اپنے حصے کا کردار ادا کیا۔ نتیجہ سب کے سامنے ہے: ٹرک روکے گئے، آٹا محفوظ رہا، اور عوام کا اعتماد بحال ہوا۔
یوں لگتا ہے جیسے یہ سارا منظر ایک خواب کا حصہ ھے لیکن یہ حقیقت تھی۔ اور حقیقت کبھی کبھی فسانے سے زیادہ دلچسپ ہوتی ہے۔ فتح جنگ کی سڑکوں پر کھڑے وہ ٹرک، پولیس کی سرخ بتیوں کی جھلک، اور ایک دبنگ افسر چوھدری شفقت محمود کا کڑک لہجہ آج بھی علاقے کے لوگوں کو یاد ہے۔ یہ واقعہ محض آج کی نہیں بلکہ آنے والے دنوں کے لیے ایک مثال ہے کہ جب نیت اور نگران دونوں مضبوط ہوں تو کسی کو بھی عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔













