اسلام آباد. (ٹی این ایس) قائداعظمؒ کا فرمان ہے کشمیر ہماری شہ رگ ہے وزیراعظم پاکستان کی کاوشوں سےمسئلہ کشمیر بین الاقوامی سطح پر اجاگر ہوا ہے
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد اورکشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق کشمیر کا پرامن حل ہی خطے میں امن و استحکام کو برقرار رکھنے کا واحد راستہ ہے۔ 27 اکتوبر کو یوم سیاہ کشمیر کے طور پر منایا جاتا ہے، جو 1947 میں بھارتی فوجوں کے کشمیر میں داخل ہونے اور علاقے پر قبضے کی یاد میں ہے۔ اقوام متحدہ کا کردار اس تنازعے میں اہم رہا ہے، جس میں سلامتی کونسل کی قراردادوں کے ذریعے کشمیری عوام کے حق خود ارادیت کی حمایت کی گئی ہے اقوام متحدہ کی قراردادوں میں کشمیری عوام کے حق خود ارادیت کو تسلیم کیا گیا ہے قراردادوں میں تنازعے کے حل کے لیے بات چیت اور شہریوں کی حفاظت پر زور دیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ نے کشمیری عوام کے انسانی حقوق کیساتھ ساتھ ان کے تحفظ کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے تمام فریقین کو امن کے لیے اقدامات کرنے اور بات چیت کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ بین الاقوامی برادری کو تنازعے کے حل کے لیے کردار ادا کرنا چاہیے۔ اقوام متحدہ اور بین الاقوامی برادری کو کشمیری عوام کے حق خود ارادیت کی حمایت اور تنازعے کے حل کے لیے موثر اقدامات کرنے چاہئیں۔وزیراعظم پاکستان ہر بین الاقوامی فورم پر مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرر ہے ہیں ان کی کاوشوں سے بین الاقوامی سطح پر مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے میں مدد ملی ہے۔ انہوں نے مختلف بین الاقوامی فورمز پر کشمیر کے مسئلے کو پیش کیا اور بین الاقوامی برادری کی توجہ اس طرف مبذول کروائی مسئلہ کشمیر اب یہ مسئلہ عالمی سطح پر زیر بحث ہے عالمی رہنماؤں کی حمایت حاصل ہوئی ہے، جس سے کشمیری عوام کی آواز بین الاقوامی سطح پر بلند ہوئی ہے۔ کشمیر کے حق میں عالمی رائے عامہ بنانے سے بھارت پر دباؤ بڑھا ہے ۔ بھارت بین الاقوامی سطح پر تنہا ہوتا نظر آ رہا ہے، جس سے اسے اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنے پر مجبور ہونا پڑ سکتا ہے وزیراعظم کی کاوشیں مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ایک اہم کردار ادا کر رہی ہیں اور کشمیری عوام کی امیدوں کو بڑھا رہی ہیں۔ وہ مختلف بین الاقوامی فورمز پر کشمیر کے مسئلے کو پیش کر رہے ہیں اور بین الاقوامی برادری سے اس مسئلے کے حل کے لیے مدد کی اپیل کر رہے ہیں وزیراعظم نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاسوں میں مسئلہ کشمیر کو اجاگر کیا اور جنوبی ایشیا میں امن و استحکام کے لیے اس کے حل کی اہمیت پر زور دیا ہے۔ وزیراعظم نے اسلامی تعاون تنظیم کے اجلاسوں میں بھی مسئلہ کشمیر کو اجاگر کیا ہے اور اسلامی ممالک سے کشمیری عوام کی حمایت کی اپیل کی ہے۔ وزیراعظم نے مختلف ممالک کے سربراہوں کے ساتھ دو طرفہ ملاقاتوں میں بھی مسئلہ کشمیر کو اجاگر کیا ہے اور ان سے اس مسئلے کے حل کے لیے مدد کی درخواست کی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں وزیرِ اعظم پاکستان کا کہناتھا کہ جنوبی ایشیا میں امن و استحکام کے لیے تنازعہ کشمیر کا حل اقوام متحدہ کی قراردادوں میں موجودہےوزیرِ اعظم پاکستان نے واضح کیا کہ جنوبی ایشیا میں امن و استحکام کے لیے تنازعہ کشمیر کا حل ضروری ہے اور اس کے لیے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو بنیاد بنایا جا سکتا ہے۔
وزیرِ اعظم نے کشمیر کے تنازعے کو ایک دیرینہ مسئلہ قرار دیا جو جنوبی ایشیا میں امن و استحکام کے لیے خطرہ ہے۔ انہوں نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی اہمیت پر زور دیا جو کشمیری عوام کے حق خود ارادیت کو تسلیم کرتی ہیں۔ وزیرِ اعظم نے بین الاقوامی برادری سے اپیل کی کہ وہ کشمیر کے مسئلے پر توجہ دے اور اس کے حل کے لیے کردار ادا کرے۔ انہوں نے جنوبی ایشیا میں امن و استحکام کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ کشمیر کے مسئلے کا حل اس کے لیے ضروری ہے۔ وزیرِ اعظم کے خطاب نے ایک بار پھر کشمیر کے مسئلے کو بین الاقوامی سطح پر اجاگر کیا اور پاکستان کی اس معاملے پر پوزیشن کو واضح کیا۔ بھارت کو یہ جان لینا چاہیے کہ وہ اپنے جابرانہ ہتھکنڈوں سے کشمیری عوام کی حقیقی امنگوں کو دبا نہیں سکتا۔ پاکستان نے ہمیشہ کشمیری بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ اپنی غیر متزلزل یکجہتی کا اظہار کیا ہے۔ وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں کے مطابق جموں و کشمیر کے تنازع کے حتمی حل تک ان کی مکمل اخلاقی، سفارتی اور سیاسی حمایت جاری رکھے گا۔وزیر اعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان شہباز شریف کا ’’یوم سیاہ‘‘ 27 اکتوبر 2025 کے موقع پر پیغام میں کہناہے کہ 78 سال قبل اس دن بھارتی افواج سری نگر میں اتری تھی۔ اس کے بعد سے بھارت نے کشمیری عوام کی اپنی تقدیر خود طے کرنے کی جائز خواہشات کو دبایا ہے۔ یہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں کے تحت اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام رہا ہے۔ بھارت کے غیر قانونی طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر کے لوگوں نے گزشتہ 78 سالوں کے دوران ان گنت مشکلات کا سامنا کیا ہے۔ تاہم، ان کے ناقابل تنسیخ حق خود ارادیت کو حاصل کرنے کا ان کا عزم اتنا ہی مضبوط ہے جتنا کہ 1947 میں تھا۔ آج کے دن میں کشمیری عوام کی حق خودارادیت کی مسلسل جدوجہد میں دی گئی قربانیوں کو دل سے خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ بلاشبہ کشمیری عوام کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔ بھارت 5 اگست 2019 سے مقبوضہ جموں و کشمیر پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے یکے بعد دیگرے اقدامات کر رہا ہے بھارت کے مذموم عزائم کا مقصد مقبوضہ جموں و کشمیر کی متنازعہ حیثیت کو نقصان پہنچانا اور کشمیری عوام کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے ان کے جمہوری حق سے محروم کرنا ہے۔ آج کشمیری عوام اپنی روزمرہ کی زندگی اور معاش پر سخت ترین اور تکلیف دہ پابندیاں برداشت کر رہے ہیں۔ سیاسی قیدیوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ بھارتی قابض افواج انسداد دہشت گردی کے سخت قوانین کے تحت استثنیٰ کے ساتھ کام کرتی ہیں وزیراعظم پاکستان کی کاوشوں سے مسئلہ کشمیر بین الاقوامی سطح پر اجاگر ہونے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس حوالے سے مختلف اقدامات کیے گئے ہیں، جن میں اقوام متحدہ میں مسئلہ کشمیر کو اٹھانا، عالمی رہنماؤں سے ملاقاتیں کرنا اور کشمیری عوام کی حمایت کا اظہار شامل ہے۔ کشمیر کا مسئلہ پاکستان کے لیے ایک اہم موضوع رہا ہے اور حکومت نے اسے بین الاقوامی سطح پر اجاگر کرنے کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں۔ ان اقدامات کا مقصد عالمی برادری کا دھیان کشمیری عوام کی مشکلات اور ان کے حق خودارادیت کی طرف مبذول کرانا ہے۔
تاہم، اس مسئلے پر پاکستان اور بھارت کے درمیان اختلافات رہے ہیں اور بھارت کشمیر کے حوالے سے پاکستان کے موقف کی مخالفت کرتا رہا ہے۔ اس تنازعے کے حل کے لیے متعدد کوششیں کی گئی ہیں، لیکن ابھی تک کوئی مستقل حل نہیں نکل سکا۔ کشمیر کی موجودہ صورتحال کشیدہ ہے، خاص طور پر بھارتی جموں و کشمیر میں۔ بھارت کی جانب سے 5 اگست 2019 کے بعد سے مقبوضہ کشمیر میں بڑے پیمانے پر ڈیموگرافک تبدیلیاں کی جا رہی ہیں، جس سے مسئلہ کشمیر کو ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ 27 اکتوبر 1947ء کا دن تاریخ کی سیاہ ترین اور یادگار دنوں میں سے ایک ہے، جب بھارت نے جموں و کشمیر پر قبضہ کرنے کی غرض سے اپنی فوجیں اتار دیں، جس کے نتیجے میں بے شمار جانی و مالی نقصانات ہوئے۔ کشمیر کے باشندوں نے اس کے خلاف شدید مزاحمت کی اور آزادی کی جنگ لڑی، جو آج تک جاری ہے۔ 1947ء سے لے کر آج تک، کشمیری عوام اپنی آزادی اور حقوق کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ اس دن کو سیاہ دن کے طور پر منایا جاتا ہے تاکہ کشمیری عوام کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا جا سکے اور ان کی آزادی کی جنگ کی حمایت کی جا سکے۔کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے جو بھارت، پاکستان اور چین کے درمیان میں واقع ہے۔ اس کا رقبہ تقریباً 2 لاکھ 20 ہزار مربع کلومیٹر ہے۔ کشمیر کی آب و ہوا، خوبصورتی اور ثقافت بہت متنوع ہے۔ کشمیر کا مسئلہ 1947ء میں بھارت اور پاکستان کی تقسیم کے وقت سے شروع ہوا۔ اس وقت کشمیر ایک آزاد ریاست تھی جس کا حکمران ہندو تھا، لیکن آبادی کی اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ بھارت اور پاکستان دونوں نے کشمیر پر اپنا حق ظاہر کیا، جس کے نتیجے میں دونوں ممالک کے درمیان میں دو بڑی جنگیں ہوئیں۔ آج بھی، کشمیر کا ایک حصہ بھارت کے زیر انتظام ہے، جبکہ دوسرا حصہ پاکستان کے زیر انتظام ہے۔
کشمیر کے لوگ آزادی اور حقوق کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ ان کی جدوجہد کو بین الاقوامی سطح پر توجہ دلانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔مسئلہ کشمیر ایک پیچیدہ اور حساس تنازعہ ہے جو بھارت اور پاکستان کے درمیان ہے۔ یہ تنازعہ 1947 میں برصغیر کی تقسیم کے وقت سے شروع ہوا، جب کشمیر کی ریاست کے حکمران ہندو مہاراجہ ہری سنگھ نے اپنی ریاست کو بھارت میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا، جبکہ کشمیری عوام کی اکثریت مسلمان تھی اور وہ پاکستان میں شامل ہونا چاہتے تھے۔کشمیری عوام کی اکثریت آزادی چاہتی ہےکشمیر میں تشدد، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور سیاسی قیدیوں کے حوالے سے خدشات پائے جاتے ہیں۔2019 میں بھارت کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد سے حالات کشیدہ ہیں۔ مسئلہ کشمیر کا حل تلاش کرنا ایک مشکل چیلنج ہے، جس کے لیے بھارت، پاکستان اور کشمیری عوام کے درمیان بات چیت اور سمجھوتے کی ضرورت ہے۔مسئلہ کشمیر ایک پیچیدہ اور حساس تنازعہ ہے جس کی وجہ سے بھارت اور پاکستان کے درمیان کئی دہائیوں سے کشیدگی اور تصادم کا خطرہ موجود ہے۔ اس تنازعے کی پیچیدگی کی وجوہات میں شامل ہیں:
1947 میں برصغیر کی تقسیم کے وقت کشمیر کی ریاست کا معاملہ متنازعہ بن گیا۔
علاقائی دعوے: بھارت اور پاکستان دونوں کشمیر کے پورے خطے پر اپنا دعویٰ کرتے ہیں کشمیری عوام کی اکثریت مسلمان ہے، جبکہ بھارت میں ہندو اکثریتی آبادی ہے۔ کشمیر کی سرحدیں افغانستان، چین اور بھارت سے ملتی ہیں، جس کی وجہ سے اس کی سٹریٹجک اہمیت ہے۔ کشمیر میں تشدد، پابندیاں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں۔
اس تنازعے کے حل کے لیے متعدد کوششیں کی گئی ہیں، لیکن ابھی تک کوئی مستقل حل نہیں نکل سکامسئلہ کشمیر دنیا کے دیرینہ تنازعات میں سے ایک ہے جس کی وجہ سے برصغیر کے ڈیڑھ ارب لوگ اذیت میں مبتلا ہیں۔ اس پورے خطے میں امن کی بحالی اور ترقی کے لیے اس تنازعہ کا حل ناگزیر ہے دہشت گردی اور مقروض معیشت کے پیچھے بنیادی وجہ ہندوستان اور پاکستان کے خراب تعلقات ہیں جن کی جڑ مسئلہ کشمیر ہے۔ 78 سال سے اس بنیادی مسئلے کے حل میں پیشرفت نہ ہونے کی وجہ یہ ہے ہندوستان ریاست جموں و کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے مسئلہ کشمیر تب ہی حل ہو سکتا ہے جب ریاستی عوام کو بنیادی فریق تسلیم کر کے ان کی امنگوں کے مطابق اس کا حل تلاش کیا جائے۔ بھارتی مقبوضہ کشمیر کے عوام نے لاکھوں جانیں قربان کر کے یہ ثابت کیا کہ وہ کسی صورت بھارت کے ساتھ رہنے کے لیے تیار نہیں ۔ اہم بات یہ ہے کہ آج زمینی حقائق تبدیل ہو چکے ہیں اور 1947ء کی عینک سے آج کا معروضی سچ نہیں دیکھا جا سکتا
کشمیری عوام کے لیے اس مسئلے کا حل ہو جانا ضروری ہے اور اس کا ممکنہ اور منصفانہ حل کشمیریوں کا حق خود ارادیت ہے حق خودارادیت کو اقوام متحدہ بنیادی حق تسلیم کر چکی ہے اور موجودہ وقتوں میں کئی چھوٹے چھوٹے ملکوں نے اس حق کو اپنی خودمختاری کے لیے کامیابی سے استعمال کیا ہے
تقسیم برصغیر کے وقت مسلم لیگ نے ریاستوں کے آزاد رہنے کے حق کی بھرپور وکالت کی تھی جبکہ کانگریس کا موقف یہ تھا کہ ریاستوں کو بہر صورت بھارت یا پاکستان کا حصہ بننا چاہیئے۔ مہاراجہ ریاست، وزیر اعظم کااور مسلم کانفرنس ریاست کی خودمختاری کے حامی تھے. کانگریس کی پرزور مخالفت اور برطانیہ کی اس کی حمایت کی وجہ سے اس وقت کوئی بھی ریاست خودمختار نہیں رہ سکی۔ قبائلیوں کے حملے کے بعد مہاراجہ نے الحاق ہندوستان کے حق میں فیصلہ کر دیا، یہ بات ہندوستان کے عوام تک پہنچانے کی ضرورت ہے کہ کشمیری عوام ان کے دشمن ہیں نہ ان کے مخالف بلکہ وہ خود غاصبانہ قبضے کا شکار ہیں اور مظلوم عوام کے استحصال کے خلاف ان کی جدوجہد کے ساتھ یکجہتی رکھتے ہیں ,تقسیم ہند کے وقت کشمیر ایک الگ ریاست تھی جس میں مسلمانوں کی آبادی80فیصد کے قریب تھی اصولی طور پر اسے پاکستان کا حصہ ہونا چاہئے تھا لیکن اس وقت کے وائسرائے ہند اور بھارتی وزیراعظم جواہر لعل نہرو کی ملی بھگت کی وجہ سے کشمیر پاکستان کا حصہ نہ بن سکا کشمیریوں نے بھارت کے ساتھ الحاق کو مسترد کر دیا اور آزادی کے لیئے جدوجہد شروع کردی، جس کو بھارتی حکومت نے سختی سے دبانا چاہا بےشمار کشمیری شہید ہوئے اور لاکھوں ہجرت کر کے پاکستان آ گئے بھارت کے جبر و ستم کے خلاف جہاد شروع کر دیا صوبہ سرحد اور قبائلی علاقوں کے مجاہدین رضاکارانہ طور پر اپنے کشمیری بھائیوں کی امداد کے لئے اس جنگ میں شامل ہو گئے پنجاب کے لوگوں نے بھی اس جہاد میں شمولیت اختیار کی یہ مجاہدین ریاستی افواج کو شکست دے کر سری نگر کے قریب پہنچ گئے، اس طرح کشمیر کے مسئلہ پر لڑی گئی یہ پہلی پاک بھارت جنگ تھی وزیراعظم جواہر لعل نہرو نے پاکستانی افواج کی مسلسل پیش قدمی کے خوف سے اقوام متحدہ میں جنگ بندی کی درخواست دے دی اقوام متحدہ نے 1948ء میں قرار داد منظور کی کہ کشمیر متنازعہ علاقہ ہے کشمیریوں کی رائے کے مطابق حل کیا جائے۔ 1951ء میں بھی اس مسئلہ پر ایسی ہی ایک اور قرار داد منظور کی گئی، لیکن مکار بھارت نے ان قرار دادوں پر عمل کیا نہ ہی اقوام متحدہ اس پر عملدرآمد کروا سکی اس وجہ سے پاکستان اور بھارت میں اب تک چار جنگیں ہو چکی ہیں۔ آخری جنگ معرکہ حق میں بھارت کی تباہی اور یقینی شکست پر بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی درخواست پر امریکہ کے صدر ٹرمپ نے وزیراعظم پاکستان اور فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر سے جنگ بند کی اپیل کی۔معرکہ حق میں بھارت کو یقین ہو گیا کہ پاکستان کے خلاف جنگ اپنی موت کو دعوت دینا ہے تو اس نے اپنے مغربی حلیف افغانستان کے ذریعے پاکستان کے خلاف جنگ شروع کر ا دی لیکن افغانستان کی توقع کے برعکس افواج پاکستان نے افغانستان کی فوج کو شکست دے کراس کی 21 فوجی چوکیوں پر قبضہ کر لیا ، پاکستان کے جوابی حملے کی تاب نہ لاکر افغانستان حکومت نے بار بار حکومت پاکستان سے جنگ بندی کی درخواست کی اسلامی ملک قطر سعودی عرب اور ترکی کی درخواست پر پاکستان نے جنگ بندی کی درخواست منظور کر لی۔بھارت اور افغانستان کی شکست فلسطین اور اسرائیل کی جنگ بندی سے یہ امید ہے کہ کشمیر کی آزادی قریب ہے۔مسئلہ کشمیر، 1947 میں تقسیم ہند کے بعد سے پاکستان، بھارت اور کشمیری حریت پسندوں کے درمیان مقبوضہ کشمیر کی ملکیت کا تنازع ہے۔ پاکستان اس مسئلے پر جموں و کشمیر کے مسلم اکثریتی آبادی کی بنیاد پر دعویٰ کرتا ہے اور اسے پرامن طریقے سے حل کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد کا حامی ہے، دسمبر 1947 میں ہندوستانی وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے تنازعہ کشمیر کے حل کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے مدد طلب کی۔ جموں و کشمیر کے لوگوں کے حق خود ارادیت کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں میں واضح طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔ ان قراردادوں میں جموں وکشمیر کی حتمی حیثیت کا فیصلہ کرنے کے لیےاقوام متحدہ کی نگرانی میں آزادانہ اورمنصفانہ رائے شماری کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ ہندوستان اور پاکستان دونوں نے ان قراردادوں کو قبول کیا تھا۔ اقوام متحدہ کےچارٹر کےآرٹیکل 25 کے تحت دونوں فریق قراردادوں پرعمل درآمد کے پابند ہیں۔78 سالوں سے بھارت نے کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد میں رکاوٹیں کھڑی کی ہیں،1989 سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں اس کے وحشیانہ جبر کے نتیجے میں 100,000 سے زائد کشمیری ہلاک ہو چکے ہیں۔
5 اگست2019 سےبھارت نےمقبوضہ جموں وکشمیرکوضم کرنے کےلیےیکطرفہ اورغیرقانونی اقدامات کیےہیں جسے اس کےانتہاپسند بی جےپی رہنماؤں نے”حتمی حل”کا نام دیا ہے،اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 122 (1957) میں کہا گیا کہ جموں و کشمیر کے مستقبل کا تعین کرنے کے لیے یکطرفہ اقدامات ریاست کا درست اختیار نہیں ہو سکتا۔ 5 اگست 2019 کے بعد سےبھارت کی طرف سے تمام یکطرفہ اقدامات کو غیر قانونی اور کالعدم تصور کیاگیا ہے،مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام نے بھارت کے یکطرفہ اقدامات کو واضح طور پر مسترد کر دیا ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کےعوام آزادی اور خود ارادیت کے لیے جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل نمائندے نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ جموں و کشمیر کے تنازع کا حل جنوبی ایشیا میں دیرپا امن کےحصول کے لیےضروری ہے،تنازعہ کےحوالے سے بات چیت کے لیے حالات پیدا کرنے کی ذمہ داری بھارت پر عائد ہوتی ہے جس کے لیے ضروری ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بند اس کے ساتھ 5 اگست 2019 سے کیے گئے غیر قانونی یکطرفہ اقدامات کو منسوخ کرے۔ اقوام متحدہ اور اس کے رکن ممالک چارٹر کے ذریعے جموں اور کشمیر کے تنازعہ کے پرامن حل کو فروغ دینے کے پابند ہیں،پاکستان اقوام متحدہ کے چارٹر میں بیان کردہ تمام طریقوں کو استعمال کرتے ہوئے اس مقصد کو فعال طور پر فروغ دے گا اقوام متحدہ کےہائی کمشنربرائے انسانی حقوق نے رپورٹیں جاری کیں جن میں بھارت پر کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا الزام لگایا گیا اور انکوائری کمیشن کی تشکیل کا مطالبہ کیا گیا ۔ اقوام متحدہ کےہائی کمشنربرائے انسانی حقوق رپورٹیں جاری کیں جن میں بھارت پر کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا الزام لگایا گیا اور انکوائری کمیشن کی تشکیل کا مطالبہ کیا گیا ۔ کشمیر بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ تنازعہ ہے اوراب وقت آگیا ہےکہ اقوام متحدہ کے مستقل ممبران مسئلہ کشمیر کے پرامن حل کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔













