اسلام آباد (ٹی این ایس) وطن عزیز کو درپیش اقتصادی مشکلات پر قابو پانے کیلئے اپنے طور پر اٹھائے جانے والے حکومتی اقدامات اور کچھ آئی ایم ایف اور دوسرے قرض دہندگان کی شرائط پر عملدرآمد کی بدولت ملکی معیشت میں یقینا بہتری آ رہی ہے مگر استحکام کی منزل ابھی بہت دور ہے یہ درست ہے کہ زرمبادلہ کے ذخائر بڑھے ہیں ترسیلات زر میں اضافہ ہوا ہے اور برآمدات بڑھنے سے تجارتی خسارہ بھی کم ہوا ہے بیرونی سرمایہ کار حکومتی پالیسیوں پر اعتماد کا اظہار کر رہے ہیں معاشی اقدامات کی بدولت اسٹاک مارکیٹ میں تیزی آ گئی ہے کاروباری سرگرمیوں میں اضافے سے روزگار کے نئے مواقعے پیدا ہو رہے ہیں پاکستان کے عالمی ڈیفالٹ کے خطرے میں 93 فیصد کمی آئی ہے مہنگائی کی شرح میں بھی کمی آئی ہے مگر کئی اشیا کی قیمتیں بڑھی ہیں جو غریب اور متوسط طبقات کی رسائی سے باہر ہیں نئے ٹیکسوں کے نفاذ اور پرانے ٹیکسوں کی شرح میں اضافے کا بوجھ بھی صارفین کی پریشانی کا باعث ہے اور بھی بہت سے عوامل ہیں جن کی وجہ سے عوام کی قوت خرید متاثر ہوئی ہے مگر ان تمام مسائل کا حل اور معاشی بحالی مزید اقدامات کی متقاضی ہے جن کیلئے حکومت مسلسل کوششیں کر رہی ہے اس عمل میں اسے کئی رکاوٹوں کا بھی سامنا ہے مگر اپنے مقصد سے لگن اس کی کامیابی کی راہ ہموار کر رہی ہے اس ضمن میں ٹیکسوں کی ادائیگی لازمی امر ہے جس کے بغیر کوئی قوم اقتصادی خود کفایت کا تصور بھی نہیں کر سکتی چیئرمین ایف بی آر کا ٹائلز مینوفیکچرر سیمنٹ انڈسٹری اور شوگر انڈسٹری 208 ارب روپے کی سیلز ٹیکس چوری کا انکشاف کوئی نیا نہیں ملک میں غیر معمولی پیمانے پر ٹیکس چوری کی جاتی اور اس میں ادارہ جاتی نااہلی سمگلنگ اور طاقتور صنعتی دھڑوں کیلئے حکومتی مراعات جیسے عوامل ہیں لیکن اس مسئلے سے نمٹنے کیلئے جو حل ناگزیر ہیں ان پر توجہ کم دکھائی دیتی ہے ملک میں سیلز ٹیکس کی مد میں چوری کا سدباب کرنے کیلئے درست اقدامات کے بجائے حکومت کے پاس ٹیکس آمدنی بڑھانے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ بالواسطہ ٹیکسوں کی شرح میںاضافہ کر دیا جائے افراط زر میں سنگل ڈیجٹ پر آنے کے باوجود اس وقت اشیائے ضروریہ پر ٹیکسوں کی بلند شرح مہنگائی کا ایک بڑا سبب ہے اور المیہ یہ ہے کہ بلاتفریق اس کا اطلاق سبھی شہریوں پر ہوتا ہے مثالی معاشی نظام میں دولت مند افراد سے وصول کر کے کمزور معاشی حیثیت والے طبقے پر خرچ کیا جاتا ہے مگر یہاں کمزور طبقہ بھی اسی طرح تختہ مشق ہے تا کہ سیلز ٹیکس اور ود ہولڈنگ ٹیکس کی آمدنی سے حکومتی اخراجات کو پورا میں مدد کرے یہ صورتحال ملک میں مہنگائی اور پسماندگی کی ایک بڑی وجہ ہے ملک کو مالیاتی وسائل میں خود کفیل بنانے اور قرضوں کی محتاجی سے پائیدار بنیادوں پر نجات پانے کے لیے محصولاتی آمدنی کو مجموعی قومی پیداوار کے کم ازکم 13 فی صد کی سطح تک لانا ضروری ہے جبکہ یہ تناسب فی الوقت 9 فی صد کے قریب ہے اس کی وجہ کئی شعبوں سے مجموعی قومی پیداوار میں ان کے تناسب کے مطابق ٹیکس کا وصول نہ ہونا ہے ان میں زراعت خوردہ فروشی اور مختلف نوعیت کی خدمات سرفہرست ہیں پاکستان کا زرعی شعبہ جوجی ڈی پی کا 27 فیصد حصہ فراہم کرتا ہے اور پاکستان کی چالیس فیصد لیبر فورس اسی شعبہ سے وابستہ ہے لیکن اس شعبے میں اصل ٹیکس نادہندگان بڑے جاگیردار ہیں جو ٹیکس چوری کرتے ہیں اور انکے سیاسی اثر و رسوخ کی وجہ سے حکومت اور ایف بی آر ان پر ہاتھ ڈالنے سے گریزاں ہے پاکستان کا موجودہ ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب 9.2 فیصد ہے جو عالمی اوسط سے بہت کم ہے جبکہ جاپان میں یہ تناسب 34.1 فیصد جنوبی کوریا میں 32 فیصد اور منگولیا میں 24.6 فیصد ہے ایشیائی معیشتوں کے تناظر میں یہ فرق پاکستان کے ٹیکس نظام کی خستہ حالی اور حکمران اشرافیہ کی غیر ذمہ داری کی عکاسی کرتا ہے پاکستان کو اس وقت بیرونی قرضوں کی بمع سود ادائیگی میں ایک تخمینے کے مطابق اوسطا 25 ارب ڈالر سالانہ ادا کرنے پڑ رہے ہیں،جبکہ آئی ایم ایف دوسرے مالیاتی اداروں اور دوست ممالک سے ملنے والے نئے اور سابقہ قرضوں کی ادائیگی کیلئے یہ رقم پوری کرنا محال ہورہا ہے ٹیکسوں کا حصول ریاست کا حق ہے مگر محاصل کا بوجھ امیروں پر ڈالا جانا اور غریبوں کی فلاح پر محاصل کا خرچ کرنا ہی کسی ملک کے معاشی نظام کے منصفانہ ہونے کا حقیقی پیمانہ ہے اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ ساختی خامیاں بنیادی ڈھانچے اور تربیت یافتہ انسانی وسائل کی کمی نے ٹیکس کے مستقل فرق میں نمایاں کردار ادا کیا ہے بدعنوانی اور نااہلی نے اس مسئلے کو مزید پیچیدہ کر دیا ہے جسکی وجہ سے مالیاتی اہداف حاصل کرنا مشکل ہو گیا ہے ٹیکس پالیسی میں مساوات اور شفافیت پاکستان کے ریونیو شارٹ فال کے مسئلے کو حل کرنے کی بنیاد ہے نا اہلیوں کو روکنے اور معیشت کو تقویت دینے کے لئے نظامی اصلاحات ضروری ہوچکی ہیں ایف بی آر کا رجعت پسند ٹیکس کے طریقوں پر انحصار بنیادی طور پر بالواسطہ ٹیکس نے معاشی عدم مساوات کو بڑھا اور کاروبار کی ترقی کو روک دیا ہے یکے بعد دیگر برسر اقتدار آنے والی حکومتیں ادائیگی کی اہلیت کے اصول کے ساتھ منصفانہ ٹیکس نظام کو اپنانے میں ناکام رہی ہیں ٹیکس ریونیو کے اہداف ودہولڈنگ ٹیکس اور بڑھے ہوئے نرخوں کے ذریعے پورے کئے جاتے ہیں جو موجودہ ٹیکس دہندگان پر بوجھ ڈالتے اور تعمیل کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں اس سے کاروبار کرنے کی لاگت اور افراط زر میں کے ساتھ ساتھ دولت کی عدم مساوات میں بھی اضافہ ہوتا ہے اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ قانونی سازی کے ذریعے ٹیکس کی بنیاد کو وسیع کرنے اور کرپشن کے نئے راستے کھولنے کے بجائے ٹیکس کے طریقہ کار کو آسان بنانے شرحوں کو کم کرنے اور غیر رسمی معیشت کو دستاویزی بنانے کے لئے اقدامات کئے جائیں جی ڈی پی میں ایک بڑا حصہ دار زراعت کا شعبہ ٹیکس نہیں دیتا جبکہ غیر رسمی معیشت اقتصادی سرگرمیوں کا ایک اہم حصہ ہے اس سے نمٹنے کے لئے ڈیجیٹائزیشن بہتر ٹیکس انتظامیہ اور باضابطہ مراعات کی ضرورت ہے حکومت رواں مالی سال کے دوران ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح کو 13 فیصد تک بڑھانا چاہتی ہے لیکن ٹیکس چوری روکے بغیر جی ڈی پی میں ٹیکس کا حصہ تسلی بخش حد تک بڑھانا ممکن نہ ہو گا اس لئے حکومت بلا تاخیر ٹیکس نادہندگان اور ٹیکس چوروں کے خلاف گھیرا تنگ کرے تاکہ ٹیکس نیٹ اور ٹیکس ریونیو میں اضافہ ہو سکے**













