ایمبیسی روڑ پر دہائیوں سے ماحولیاتی آلودگی سے تحفظ دینے والے سینکڑوں درختوں کا صفایا،شہریوں کا اظہارِ افسوس

 
0
1708

 اسلام آباد،اکتوبر 20 (ٹی این ایس): وفاقی دارلحکومت اسلام آبادکا ترقیاتی ادارہ، سی ڈی اے، ایمبیسی روڑ پر دہائیوں سے استادہ، بہاروں کی امیدیں دلانے اور فضائی آلودگی سے بغیر معاوضہ تحفظ فراہم کرنیوالے سینکڑوں درختوں کو جس طرح کاٹ رہا ہے اس کو دیکھ کر پروین شاکر کا شعر یاد آتا ہے کہ

اِس بارجو ایندھن کے لئے کٹ کے گرا ہے

چِڑیوں کو بڑا پیار تھا اُس بوڑھے شجر سے

اِس کاروائی کی تاویل یا توجیع یہ پیش کی جارہی ہے کہ ٹریفک کی روانی متاثر ہورہی تھی چنانچہ روڈ کی کشادگی کے لئے ان درختوں کا کاٹنا ناگزیر ہوگیاتھا۔

ملک کے دارلحکومت اور دسویں بڑے شہر،جہاں دن رات لاکھوں گاڑیاں، ہائیڈرو کاربن، کاربن مونو آکسائیڈ، نائیٹروجن اوکسائیڈ،سلفر ڈائی اوکسائیڈ اور دیگر مضرِ صحت گیسز خارج کرکے اسکے ۲۰ لاکھ مکینوں کو فضائی آلودگی کے خطرات کی ذد میں لاتا ہے وہاں یہی درخت نہ صرف اُنکو تحفظ کی ڈھال فراہم اور فضائی آلودگی کو صاف کرتے ہیں بلکہ خوبصورتی اوردرجہ حرارت کو معتدلی کے نکتہ پر رکھنے کے اعتبار سے انھیں دوسرے شہروں سے ممتاز کر دیتا ہے۔راولپنڈی کو اسکا جڑواں شہر کہا جاتا ہے مگر دونوں شہروں کے درمیان سفر کرنے والے جانتے ہیں کہ انہی درختوں اور سبزہ زاروں کے طفیل اسلام آباد کادرجہ حرارت پنڈی سے کتا کم اور ٹھنڈا ہوتا ہے ۔انسانوں کے لئے قدرت کے یہ بے معاوضہ سپاہی ترقی کے نام پر انسانوں کے ہاتھوں ہی کٹ گرتے ہیں۔دہائیوں سے کھڑے یہ درخت ہماری دو نسلوں کو تحفظ کے ساتھ ساتھ موسموں کے تغیر کے لطف سے محظوظ کرتے رہے مگر آج ایسے گرے جیسے ہماری راہوں کے بس یہی کانٹے تھے اور انکو ہٹائے بغیر کوئی چارہ نہ تھا۔

ایک ہی وقت میں ان سینکڑوں خوبصورت درختوں کی کٹائی نے شہریوںکو افسردہ کر دیا ہےجن میں نہ صرف بڑے بلکہ بچے بھی شامل ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ درخت ماحول کو بہتر بناتے ہیں، آکسیجن فراہم کرتے ہیں انکو کاٹنا قتل کے برابر ہے۔

پاکستان کا زمینی رقبہ 199ملین ایکٹر ہے جس کے 4فیصد حصے میں جنگلات ہیں جبکہ ماحولیاتی اصول کے مطابق کسی بھی ملک کے 25فیصد حصے میں جنگلات کا ہونا سازگار ہے۔اس حوالے سے پاکستان خطے کے دیگر ممالک میں سب سے پیچھے ہے۔

موسمیاتی تبدیلی کی وزارت کے میڈیا ترجمان نسیم شیخ ملک میں درختوں اور جنگلات کے حوالے سے کہتے ہیں کہ مہذب ملکوں میںاب درختوں کو کاٹنے کے بجائے انہیں ٹکنالوجی کی مدد سے دوسرے مقامات پر منتقل کیا جاتا ہے۔

 ہمارے سی ڈی اے کے پاس فنڈز کی کمی نہیں ہے پھر بھی اگر کرپشن کو ہی کچھ کم کرے تو ان پیسوں سے یہ ٹیکنالوجی حاصل کرکے دہائیوں سے ہماری زندگی کو زندگی دینے والے اِن بے لوث دوستوں کویوںپل بھر میں اِس بے دردی سے کاٹ گرانے کی ضرورت پیش نہ آئے۔