میڈیا اور سوشل میڈیا میں حکومت کے خلاف تنقید کے ساتھ ساتھ کامیابیوں کو بھی اجاگر کرنا چاہئے،وزیر داخلہ

 
0
352

اسلام آباد اکتوبر 26(ٹی این ایس)۔ : وفاقی وزیر داخلہ پروفیسر احسن اقبال نے کہا ہے کہ پاکستان ارتقائی دور سے گزر رہا ہے، 2018ء میں دوسری بار پرامن انتقال اقتدار ایک سنگ میل ہے، آئندہ انتخابات آزادانہ، شفاف اور منصفانہ ہوں گے، اقتصادی استحکام کیلئے سیاسی استحکام ناگزیر ہے، میڈیا اور سوشل میڈیا میں حکومت کے خلاف تنقید کے ساتھ ساتھ کامیابیوں کو بھی اجاگر کرنا چاہئے، ملکی ترقی کیلئے سول ملٹری تعلقات میں ہم آہنگی ضروری ہے، ملکی ترقی کیلئے سیاستدانوں، فوج، عدلیہ اور میڈیا کو مثبت سوچ کے ساتھ آگے بڑھنا ہو گا، ایک دوسرے پر اعتماد سے دشمن کے مذموم عزائم کو ناکام بنایا جا سکتا ہے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعرات کو پی آئی ڈی میں صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ارتقائی دور سے گزر رہا ہے، ملک نے گذشتہ 67 سال کے دوران کئی مدو جزر کا سامنا کیا ہے، دنیا نے یقین کر لیا تھا کہ پاکستان اندرونی طور پر تضادات کا مجموعہ ہے اور یہاں مستحکم جمہوری نظام رائج نہیں کیا جا سکتا لیکن پہلی بار گذشتہ جمہوری حکومت نے اپنی پانچ سالہ مدت پوری کی ہے اور دنیا کو یہ باور کرانے میں مدد ملی کہ پاکستان سیاسی طور پر میچور ہو چکا ہے جبکہ 2018ء میں انتقال اقتدار کی منتقلی ایک اہم سنگ میل ہے جب دوسری بار منتخب جمہوری حکومت اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرے گی، اگر ایسا ہوا تو دنیا میں یہ تاثر ابھرے گا کہ پاکستان مستحکم اور پائیدار جمہوری ملک بن چکا ہے لیکن اگر کسی بھی طریقہ سے موجودہ حکومت کو پٹڑی سے اتارا گیا یا اسے مدت پوری کرنے نہ دی گئی تو یہ تاثر ابھرے گا کہ گذشتہ حکومت نے اتفاقیہ طور پر مدت پوری کی اور پاکستان معمول کے مطابق جمہوری ملک نہیں بن سکتا۔

انہوں نے کہا کہ انتخابی اصلاحات بل اور حلقہ بندیوں کے حوالہ سے کام جاری ہے، 2018ء میں آزادانہ، منصفانہ اور شفاف انتخابات ہوں گے اور ہم دنیا پر یہ ثابت کر دیں گے کہ پاکستان جمہوری طور پر مستحکم اور پائیدار بن چکا ہے، ہمیں سیاسی سے اقتصادی قوم بننے کی ضرورت ہے، 20 ویں صدی سیاسی نظریات کی صدی تھی جبکہ 21 ویں صدی معاشی نظریات کی صدی ہے، اب ملکوں کی طاقت اور صلاحیت کا اندازہ سیاسی نہیں اقتصادی درجہ بندی سے کیا جاتا ہے، ہمیں دنیا کی اقتصادی میدان میں مقابلہ کی تیاری کرنی ہے، اقتصادی استحکام کیلئے اندرونی سیاسی استحکام بنیادی شرط ہے، اگر سیاسی استحکام نہیں ہو گا تو ملک ترقی نہیں کر سکتا۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت نے توانائی بحران کے خاتمہ، معیشت کی ترقی، تعلیم کے فروغ اور دہشت گردی کے خاتمہ کے منشور پر انتخابات میں حصہ لیا تھا، پہلے 20، 20 گھنٹے بجلی جاتی تھی، اب 20، 20 گھنٹے بجلی آتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ قیام پاکستان سے لے کر 2013ء تک صرف 16 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کی گئی جبکہ گذشتہ چار سال کے دوران 10 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کی گئی، 2025ء تک مزید 15 ہزار میگاواٹ بجلی نظام میں شامل ہو جائے گی، عالمی بینک نے اعتراف کیا ہے کہ پاکستان کی شرح نمو 5.3 فیصد ہے جو کہ گذشتہ 10 سالوں میں سب سے بہترین ہے، رواں سال 6 فیصد تک شرح نمو لے جانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے، اگر سیاسی حادثات کا شکار نہ ہوتے تو شرح نمو 6.5 تک پہنچ سکتی تھی۔

انہوں نے کہا کہ ملک معاشی ترقی کی راہ پر گامزن ہو چکا ہے، آپریشن ضرب عضب اور ردالفساد کے باعث کراچی، بلوچستان سمیت ملک کے دیگر حصوں میں امن و امان کی صورتحال میں بہتری آئی ہے، ہم ترقیاتی ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں، کوئٹہ۔گوادر شاہراہ سے دونوں شہروں کے درمیان سفر کا دورانیہ 2 دن سے کم ہو کر 8 گھنٹے تک پہنچ گیا ہے، گوادر سے خضدار۔رتوڈیرو شاہراہ مکمل ہو گئی ہے جس سے اس پسماندہ علاقہ میں ترقی کے نئے دور کا آغاز ہو گا، ترقیاتی ایجنڈے کے باعث بلوچستان میں امن دشمنوں کے خلاف کامیابی ملی، سی پیک کی وجہ سے پاکستان عالمی سرمایہ کاروں کی توجہ کا مرکز بن گیا ہے، یہ اصل تبدیلی ہے، کنٹینر میں نعرے لگانے سے تبدیلی نہیں آتی۔

انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی سطح پر ہمارا بیانیہ بہت اچھا ہے، عالمی سطح پر پاکستان کے معاشی اشارے کو سراہا جا رہا ہے، ہم چاہتے ہیں کہ ملکی میڈیا حکومت پر تنقید کے ساتھ ساتھ اس کی کامیابیوں کو بھی اجاگر کرے، آج کا پاکستان 2013ء کے پاکستان سے کئی درجے بہتر ہے، ہم کامیابی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ستیاناس اور بیڑا غرق بریگیڈ کے بیانیہ سے لگتا ہے کہ ملک ڈوب رہا ہے، جب سیاسی رہنمائوں کی پگڑی اچھالی جائے گی تو نوجوان مایوسی کا شکار ہو کر باغی ہو جائیں گے اور انتہاء پسند اور دہشت گرد ان کی مایوسی سے فائدہ اٹھائیں گے، ہمیں پراعتماد اور مثبت بیانیہ سامنے لانا چاہئے، مجموعی تاثر مثبت ہونا چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ ہم پانچویں جنریشن وار فیئر میں ہیں، انفارمیشن اس کا خطرناک ہتھیار ہے، انتخابات آنے والے ہیں، ہمیں ملکی سلامتی اور سیاست کیلئے کوئی اجتماعی بیانیہ سامنے لانا چاہئے، ہمیں جمہوری آزادیوں پر یقین رکھتے ہوئے اختلاف رائے کا حق دینا چاہئے، اس کیلئے ہمیں ضابطہ اخلاق بنانے کی ضرورت ہے جس میں ملک میں عدم استحکام، انتشار، دہشت گردی اور انتہاء پسندی پھیلانے والوں کے خلاف واضح نقطہ نظر ہونا چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے واقعات کی کوریج کے حوالہ سے میڈیا نے اپنے رویہ میں بہتری لائی ہے، اس وقت ایک نفسیاتی جنگ چل رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا پر حقائق نہیں بلکہ غلط معلومات بھی پھیلائی جاتی ہیں، اس کیلئے اداروں کو فلٹر بنانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے مشکل چیلنجوں کے باوجود مؤثر اقدامات کرکے کامیابیاں حاصل کی ہیں، خطہ میں آئندہ تین سال کے دوران اہم تبدیلیاں وقوع پذیر ہوں گی جس کے پاکستان پر سنگین اثرات مرتب ہوں گے، اس عرصہ کے دوران ہمیں داخلی استحکام برقرار رکھنے کی ضرورت ہے، اگر ہمارے داخلی استحکام کو نقصان پہنچا تو پاکستان مخالف قوتیں اپنی سازشوں میں کامیاب ہو جائیں گی، ہم سب کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہئے، پاکستان اس وقت سیاسی اور جمہوری ارتقائی مراحل اور افزائش سے گزر رہا ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ کوئی ادارہ کسی دوسرے ادارے کو کمزور نہ سمجھے، تمام ادارے آئین و قانون میں رہ کر کام کریں، یہی پاکستان کی ترقی و فلاح کا راستہ ہے، اگر ہم اندرونی کشمکش کا شکار ہوں گے تو اس کا فائدہ بیرونی دشمنوں کو پہنچے گا۔

انہوں نے کہا کہ قومی سلامتی کمیٹی کے ذریعے سول ملٹری تعلقات میں ہم آہنگی لانے کی کوشش کر رہے ہیں، سول ملٹری تعلقات کے دائرہ کو صحت مند، مؤثر اور بہتر ہونا چاہئے، اگر ہم ایک دوسرے پر اعتماد کریں گے تو دشمن کامیاب نہیں ہو گا، ایک منظم مہم چل رہی ہے جس کا مقصد مسلم لیگ (ن) اور فوج کے درمیان لڑائی کرانا ہے، یہ باتیں وہ سیاستدان کر رہے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ وہ (ن) لیگ کو شکست نہیں دے سکتے، یہ خطرناک کھیل اور سازش ہے جس کو ہم نے ناکام بنانا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے عوام نواز شریف پر اعتماد کرتے ہیں ان کی قیادت کی وجہ سے پاکستان مسلم لیگ (ن) میں کوئی دراڑ نہیں ڈال سکتا، اگر کوئی مسلم لیگ (ن) سے الگ ہو گا تو اسے عوام معاف نہیں کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ملک میں ترقی کی یہی رفتار برقرار رہی تو 2047ء تک پاکستانیوں کی فی کس آمدن 1600 ڈالر سے بڑھ کر 2800 ڈالر فی کس تک پہنچ جائے گی، اگر ہم شرح نمو کو 8 سے 10 فیصد تک لے جانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو فی کس آمدنی 8 ہزار ڈالر تک پہنچ سکتی ہے تاہم اس بارے میں فیصلہ ہمارا طرز عمل کرے گا، اگر ہم بے یقینی کی فضاء میں رہے تو یہی صورتحال برقرار رہے گی، اگر جمہوریت مستحکم رہی اور اس کا تسلسل برقرار رہا تو ہم 2047ء میں ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں شامل ہو جائیں گی، سیاسی رہنمائوں، فوج، عدلیہ اور میڈیا کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔