شاہ اللہ دتہ،  دارالحکومت میں 24 سو سالہ قدیم آثار کا حامل علاقہ حکومت سے تحفظ کا طالب

 
0
2245

اسلام آباد،اکتوبر 29 (ٹی این ایس): شاہ اللہ دتہ دارالحکومت اسلام آباد کے مضافات اور شمال مغربی سِمت میں مارگلہ پہاڑیوں کے دامن میں واقع ایک قدیم گاؤں ہے جو رقبہ میں چھوٹا مگر تہذیبوں کی ایک بڑی تاریخ اپنے سینے میں رکھتا ہے.سات سو سالہ پرانے اس علاقہ کا مغلیہ دور میں نام ”دروی” تھا. سکندرِ اعظم،شیر شاہ سوری اور مغل بادشاہ اس علاقہ کو افغانستان سے ہندوستان آمد کیلئے راستے کے بطور استعمال کیا کرتے تھے۔

آٹھ صدیاں قبل بدھسٹ دور کے آثار، جن میں جلے ہوئے دئے اور درختوں کے ساتھ باندھے گئے مذہبی عقیدت کے حامل دھاگے وغیرہ شامل ہیں بھی یہاں پائے گئے. دیوہیکل درخت پتہ دے رہے ہیں کہ یہ کسقدر پرانے ہیں.ان درختوں سےموٹی رسیوں کی مانند لٹکتی ہوئی جڑیں سیاحوں کو جھولنے اور دوسری تفریح کاسامان فراہم کرتی ہیں۔

علاقہ میں خانپور کی طرف جانے والی سڑک پر شاہ اللہ دتہ کے مزار کے قریب غار موجود ہیں جن کی دیواروں پر بدھسٹ دور کے 24 سو سالہ قدیم نقش و نگار درج ہیں۔

ان ہی غاروں کے نزدیک ٹیکسیلا کے بادشاہ راجہ اَمبی نے سکندرِاعظم کااستقبال کیا تھا. ماہرینِ آثارِ قدیمہ کا کہنا ہے کہ علاقہ کی پہاڑیوں پر ترتیب سے بنی چھوٹی چھوٹی پٹیاں دراصل وہ کھیت ہیں جن میں بدھسٹ مونک اور ہندو سادھو اپنے اپنے ادوار میں سبزیاں اگایا کرتے تھے۔

ان غاروں سے اوپر کی طرف جائیے تو لوسر باؤلی نامی ایک سیڑھی دار کنواں اور خستہ حال دیواروں والی مسجد نظر آتی ہے جسے شہاب الدین غوری نے بنوایا تھا۔

یہاں ایک چشمہ بھی نکالتا ہے جسکا شفاف پانی مقامی لوگ پیتے اور دیگر ضروریات کے لئے استعمال کرتے ہیں۔

سی ڈی اے نے 2010 میں کئی تعلیمی اور تحقیقی اداروں کے مسلسل اصرار پر علاقہ کی اہمیت کا ادراک کرکے اسکے تحفظ کا منصوبہ بنایا اور اس طرح سید پور کے بعد یہ علاقہ دارالحکومت کا دوسرا تاریخی ورثہ قرار پایا۔

شاہ اللہ دتہ اور اسکے گردونواح میں یہ کل 23 ہزار کنال پر مشتمل رقبہ ہے جس میں 17 ہزار کنال لوگوں کی نجی ملکیت ہے،چھ ہزار کنال ہاؤسنگ سوسائٹی ڈویلپرس نے خرید کر ،سی-13، ڈی-13 اور ای-13 سیکٹر تعمیر کئے جبکہ بچی کھچی صرف 30 کنال اراضی حکومت کے پاس ہے۔

علاقہ کی خستہ حال سڑکیں بیان کر رہی ہیں کہ حکومت کو اس اہم علاقہ کی طرف کوئی خاص رغبت نہیں ہے. ضرورت اس امر کی ہے کہ اس تاریخی ورثہ کو محفوظ کرنے کے لئے سنجیدہ اقدامات کے جائیں اور اس سلسلہ میں اراضی خرید کر اسکو وسعت دی جائےاور سڑکیں تعمیر کرکے سیاحت کو فروغ دیا جائے۔