اسلام آباد نومبر 6(ٹی این ایس)وزیر مملکت برائے اطلاعات ونشریات مریم اور نگزیب نے پیر کو پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ میں صحافیوں کی فلاح وبہبود اور تحفظ سے متعلق مجوزہ قانون سازی پر سینئر صحافیوں کیساتھ بل کے مسودے پر تفصیلی مشاورت کی ۔مریم اور نگزیب نے اپنے ریمارکس میں کہاکہ بل کے مسودے میں صحافیوں کی مشوروں کو جگہ دی جائیگی ۔انہوںنے کہاکہ بل کی بنیاد پر صحافیوں اور میڈیا کے کارکنوں کے تحفظ کیلئے جو کمیٹی قائم کی جائیگی اس میں صحافیوں بھی شامل کئے جائینگے ۔انہوںنے یقین دلایا کہ حکومت پریس کی آزادی پر کوئی قدم غن نہیں لگائیگی ۔انہوںنے کہاکہ دہشتگردی کی وجہ سے صحافیوں کا تحفظ ضروری ہے اور یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ صحافیوں کوبلا خوف وخطر آزادی اور ذمہ داری کیساتھ اپنے پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کو پورا کر نے کیلئے پر امن ماحول فراہم کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ مجوزہ بل پر حکومت نے تمام پریس کلبوں سے بھی رائے مانگی تھی جس میں اکثریت نے اپنی رائے حکومت کو بھیج دی ۔انہوںنے کہاکہ سینئر صحافی احمد نور انی پر حملے کے بعد اب یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ کس طرح اظہار آزادی سے متعلق ذمہ داری پوری کرے ۔انہوںنے کہاکہ حکومت صحافت کی آزادی قدغن لگانے کی بجائے خود احتسابی پر یقین رکھتی ہے ۔اس سے پہلے سینئر صحافیوں نے ’’جرنلسٹس ویلفیئر اینڈ پروٹیکشن بل 2017ء ‘‘پر اپنی رائے دیتے ہوئے صحافیوں کو درپیش خطرات پر تشویش کا اظہار کیا اور شکوہ کیا کہ حکومت نے اس وقت تک صحافیوں کے تحفظ کیلئے کوئی موثر پالیسی نہیں اپنائی ۔سینئر صحافی ناصر ملک نے کہاکہ صحافیوں کے خلاف تشدد کے تقریباً 180کیسز درج ہوئے ہیں جس میں صرف دو میں ملزمان کو سزا دی گئی ہے ۔ٹی وی اینکر مطیع اللہ جان نے کہاکہ حکومت کو صحافیوں کے تحفظ کے سلسلے میں اپنی اتھارٹی کو یقینی بنانا چاہیے ۔انہوںنے کہاکہ صحافیوں پر تشدد کے واقعات میں ملوث لوگوں کے خلاف تحقیقات کا مرحلہ کمزور نظر آتا ہے کیونکہ بعض اوقات پولیس تحقیقات کے باوجود بھی موثر تحقیقات اس لئے نہیں کر سکتی کہ تشدد کے واقعات میں ملوث ہونے والے دیگر ادارے تحقیقات میں تعاون نہیں کرتے ۔
سینئر صحافی حنیف خالد نے مطالبہ کیا کہ صحافیوں کے تحفظ سے متعلق قوانین موجود ہیں لیکن اس پر صحیح طریقے سے عمل نہیں ہوتا ۔انہوںنے قوانین پر عملدر آمد کیلئے حکومت سے موثر کر دارادا کر نے کا مطالبہ کیا ۔سینئر صحافی محمد طاہر خان نے کہاکہ حکومت اور مالکان کو ملکر صحافیوں کی تربیت کیلئے اقدامات اٹھانے چاہئیں ۔انہوںنے کہاکہ ذمہ دارانہ رپورٹنگ کیلئے بھی حکومت اور مالکان اپنا کر دار ادا کریں تاکہ صحافت کی ساکھ کو برقرار رکھا جائے ۔انہوںنے کہاکہ ذمہ داری سے صحافت کی جائے تو سکیورٹی کے مسائل بھی کم ہو سکتے ہیں ۔اجلاس کے شرکاء نے بلوچستان میں صحافیوں کو درپیش خطرات پر تشویش کا اظہار کیا اور کہاکہ حکومت کو اس سلسلے میں موثر اقدامات اٹھانے چاہئیں ۔انہوںنے افسوس کااظہار کیا کہ کئی دنوں سے اخبارات کی تقسیم کی اجازت نہیں دی جارہی ہے اور پریس کلبز پر کئی حملوں ہو چکے ہیں ۔
سینئر صحافی مظہر اقبال نے کہاکہ حکومت نے بل میں کسی بھی معاملے کے سلسلے میں وقت متعین نہیں کیا ہے ۔بل کے مسودے کے مطابق صحافیوں کو عوام تک درست خبریں پہنچانے کیلئے صحافیوں کی ان کی ذمہ داریوں کے حوالے سے حوصلہ افزائی کی جائیگی ۔میڈیا مالکان اور تنظیموں میں صحافیوں کی مناسب تربیت کو یقینی بنائیں گی۔بل میں کہاگیا کہ صحافیوں کو اپنی ذمہ داریاں پوری کر نے کے وقت مکمل تحفظ اور سکیورٹی فراہم کی جائیگی ۔کام کے دور ان متاثرہونے والے صحافیوں کو متاثر ہ ملازم اور ان کے خاندان اور قانونی وارث کو حکومت اور میڈیا کے مالکان مشترکہ طورپر ریلیف فراہم کرینگے ۔تمام میڈیا مالکان اپنے ملازمین بشمول رپورٹرز ،ْ کیمرہ مین ،ْ فوٹو گرافر ،ْ ڈی ایس این جی سٹاف اور ڈرائیورز کی انشورنس کرینگے ۔قدرتی آفات مثلاً آگ لگنے ،ْ حادثہ ،ْ بم بلاسٹ یا کسی مسلح تنازع کی صورت میں متعلقہ مالکان صحافیوں کو تمام سہولتیں فراہم کرینگے جس میں بلٹ پروف جیکٹس ،ْ ہیلمنٹ اور متعلقہ سیفٹی آلات شامل ہیں ۔ٹی وی لائسنس ،ْ اے بی سی سرٹیفکیٹ اور ڈیکلریشن کی تجدید کے وقت مالکان کیلئے ملازمین کی ہیلتھ اور لائف انشورنس کے سرٹیفکیٹ اور گزشتہ ماہ کی سیلری کی سلپ متعلقہ حکام کو دکھائی جائیگی ۔
مالکان متعلقہ صوبائی حکومتیں اور مرکزی حکومت ملکر وفات پانے اور شہید ہونے والے صحافیوں کے بچوں کی چودہ سال تک تعلیمی اخراجات اٹھائینگے ۔صحافیوں کے قائم جرنلسٹس انڈومنٹ فنڈز سے وفات پانے والے اور شہید ہونے والے صحافیوں کے خاندان کو مناسب معاوضہ دیا جائیگا ۔