پاکستان کے افغانستان میں اپنی قومی سلامتی کے حوالے سے جائز اہداف ہیں،امریکہ کا اعتراف

 
0
565

واشنگٹن،نو مبر10(ٹی این ایس) : امریکا نے کہاہے کہ صدر ٹرمپ نے پاکستان سے دہشتگردوں کی مبینہ پناہ گاہوں کے خاتمے کے لیے واضح اقدامات اٹھانے کو کہا ہے لیکن نئی افغان حکمت عملی سے یہ واضح نہیں ہوتا کہ ہم پاکستان کو اس کی قومی سلامتی سے متعلق ترجیحات تبدیل کرنے پر کیسے مجبور کریں گے، ڈاکٹر شکیل آفریدی کی رہائی کے لیے پاکستان سے بات چیت جاری ہے ،پاکستان کو معلوم ہے کہ امریکہ افغانستان سے نہیں جا رہا اور ہم طالبان کو شکست دینے کے لیے پٴْر عزم ہیں، ہم اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستان کے افغانستان میں اپنی قومی سلامتی کے حوالے سے جائز اہداف ہیں اور ہمارا موقف ہے کہ ان اہداف کو حاصل کرنے کا بہترین طریقہ مذاکرات ہیں اور طالبان پر دباؤ ڈالنا کہ مذاکرات کی میز پر آنے کا وقت آگیا ہے،دہشت گرد گروہوں کے ذریعے آج کی دنیا میں دفاعی اہداف حاصل نہیں کیے جا سکتے۔

پاکستان میں بطور معاشرہ تبدیل ہو رہا ہے ان میں سے کچھ منفی تبدیلیوں پر کچھ حلقوں میں تحفظات ہیں، دہشت گرد گروہ پاکستان کی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں، چاہے وہ حقانی نیٹ ورک ہو یا جیش محمد یا لشکر طیبہ ہوں۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق سال 2018ء کے لیے پاکستان اور افغانستان کے امریکی وزارت خارجہ کے مجوزہ بجٹ پر بحث کے لیے سینیٹ کی دو قائمہ کمیٹیوں کی مشترکہ سماعت واشنگٹن میں ہوئی جس میں کمیٹی کے ارکان نے امریکہ کی افغان پالیسی کے تناظر میں سوالات حکام کے سامنے رکھے۔

ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے پاکستان اور افغانستان کے لیے مجوزہ بجٹ کی مد میں ایک اعشاریہ ایک ارب ڈالر مختص کیے گئے ہیں جس میں افغانستان کے لیے تقریباً 800 ملین ڈالر رکھے گئے ہیں، جبکہ پاکستان کے لیے تقریبا 345 ملین ڈالر رکھے گئے ہیں۔امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغانستان پاکستان، ایلس ویلز اور یو ایس ایڈ کے سینئر نمائندے، گریگری ہیوگر نے کمیٹی کے سامنے پاکستان اور افغانستان کے حوالے سے انتظامیہ کا مؤقف پیش کیا۔

سماعت کے آغاز ہی میں کمیٹی کی چیئرپرسن نے اپنے ابتدائی کلمات میں کہا کہ اس کے باوجود کہ صدر ٹرمپ نے اسلام آباد سے دہشتگردوں کی مبینہ پناہ گاہوں کے خاتمے کے لیے واضع اقدامات اٹھانے کو کہا ہے۔ لیکن، نئی افغان حکمت عملی سے یہ واضع نہیں ہوتا کہ ہم پاکستان کو اس کی قومی سلامتی سے متعلق ترجیحات تبدیل کرنے پر کیسے مجبور کریں گے۔کمیٹی کے رکن، ٹیڈ یوہو، جو امریکی ایوانِ نمائندگان کی امور خارجہ کمیٹی کے نائب چیئرمین بھی ہیں پاکستان کی انسداد دہشتگردی کے حوالے سے کوششوں سے متاثر نظر نہیں آئے، ان کا کہنا تھا کہ نائن الیون کے بعد سے پاکستان نے انسداد دہشت گردی کی مد میں امریکہ سے دسیوں ارب ڈالر وصول کیے۔

لیکن اس کے باوجود پاکستان میں دہشت گرد گروہ کھلے عام اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں اور اب ایسا کیا ہوگا کہ پاکستان اپنی سمت تبدیل کرے گا۔سماعت کے دوران امریکی حکام سے یہ بھی پوچھا گیا کہ کیا پاکستان ڈاکٹر شکیل آفریدی کو رہا کرنے پر آمادگی ظاہر کر رہا ہے جس پر نمائندہ خصوصی کا کہنا تھا کہ اس معاملے پر امریکہ پاکستان سے بات چیت جاری رکھے ہوئے ہے۔

لیکن، فی الحال اس پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔اس سماعت کے بعدگفتگو کرتے ہوئے نمائندہ خصوصی ایلس ویلز نے کہا کہ پاکستان کو معلوم ہے کہ امریکہ افغانستان سے نہیں جا رہا اور ہم طالبان کو شکست دینے کے لیے پٴْر عزم ہیں۔ نتیجتاً بہت سے اندازے بدل جائیں گے۔ ہم اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستان کے افغانستان میں اپنی قومی سلامتی کے حوالے سے جائز اہداف ہیں اور ہمارا موقف ہے کہ ان اہداف کو حاصل کرنے کا بہترین طریقہ مذاکرات ہیں اور طالبان پر دباؤ ڈالنا کہ مذاکرات کی میز پر آنے کا وقت آگیا ہے۔

نمائندہ خصوصی، ایلس ویلز نے مزید کہا کہ دہشت گرد گروہوں کے ذریعے آج کی دنیا میں دفاعی اہداف حاصل نہیں کیے جا سکتے۔ اٴْن کے بقول،درحقیقت ہم دیکھ رہے ہیں کہ ایسے گروہوں کے باعث پاکستان کا اعتدال پسند معاشرہ اور مذہبی رواداری متاثر ہوئی ہے۔ پاکستان میں بطور معاشرہ تبدیل ہو رہا ہے ان میں سے کچھ منفی تبدیلیوں پر کچھ حلقوں میں تحفظات ہیں۔امریکی نمائندہ خصوصی نے ایک بار پھر امریکی مؤقف دہرایا کہ دہشت گرد گروہ پاکستان کی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں، چاہے وہ حقانی نیٹ ورک ہو یا جیش محمد یا لشکر طیبہ ہوں۔