امریکہ نئی صدی میں  خونی لکیریں کھینچ کر نئی جغرافیائی تقسیم چاہتا ہے، ہمیں دبا اور بھارت کو اُبھار رہا ہے، قومی یکجہتی کی ضرورت ہے نہیں تو شاید 2018 کا الیکشن نہ دیکھ پائیں ، مولانا فضل الرحمن

 
0
452

اسلام آباد  نومبر 14(ٹی این ایس):  جمعیت علماء اسلام(ف) کے سربراہ او ر پارلیمنٹ میں کشمیر کمیٹی کے چیئرمین مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ امریکہ نئی صدی میں  خونی لکیریں کھینچ کر نئی جغرافیائی تقسیم چاہتا ہے، ہمیں دبا اور بھارت کو اُبھار رہا ہے، قومی یکجہتی کی ضرورت ہے نہیں تو شاید 2018 کا الیکشن نہ دیکھ پائیں۔

وہ منگل کے روز نیشنل پریس کلب میں میٹ دی پریس سے خطاب کر رہے تھے ۔

مولانا نے کہا کہ پورا عالم اسلام اس وقت آزمائش اور کرب سے گزر رہا ہےاور اس  پر مستزاد یہ کہ  ہم ملک کے اندر داخلی یکجہتی سے بھی محروم ہیں، مشترکہ اور قومی سوچ کے تحت ہم مسائل کا تجزیہ کرنے اور مشکلات سے نکلنے کے طالب بھی نہیں رہے۔

انھوں نے کہا کہ کشمیری 70سال سے ایک مشکل سے گزرے رہے ہیں اور ہندوستان ہے کہ اس ہٹ دھرمی کا مسلسل ارتکاب کر رہا ہے، کبھی وہ مذاکرات روک دیتا ہے، کبھی سرحدات پر کشیدگی پیدا کر دیتا ہے، کشمیر کے اندر پر تشدد اقدامات کرتا ہے، ریاستی دہشت گردی کا ارتکاب کرتا ہے اور پاکستان کے ساتھ کشیدگی بھی سوچ سمجھ کر پیدا کرتا ہے، اس وقت خطے میں امریکہ اور ہندوستان کے مفادات مشترکہ ہیں، امریکہ چین کے نئے اقتصادی ویژن ، فلسفے کو فروغ دینے میں رکاوٹ دینا چاہتا ہے، سی پیک کی صورت میں چین کی اقتصادی سیڑھی پاکستان بنا، چنانچہ ہندوستان پاکستان کے اقتصادی سیڑھی کو تاریک بنانے کی کوشش کر رہا ہے، گزشتہ 15,16سے امریکیوں کی ترجیحات کو دیکھ بھی رہے ہیں اب بھی کوئی ان کی ترجیحات کو نہ سمجھے، تو وہ امت مسلمہ کی راہبری کا حقدار نہیں، امریکہ نئی صدی میں نئی جغرافیائی تقسیم چاہتا ہے اور اپنے مفادات کے لیے  جغرافیائی لکیریں خون سے کھینچنا چاہتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہر ملک میں عدم استحکام پیدا کرنا اور عدم استحکام پیدا کرنے کیلئے سیاسی عدم استحکام پیدا کرنا شامل ہیں، افغانستان، شام، عراق، یمن کی صورت میں اور اب سعودی عرب اور افریقی ممالک پر یہ خطرات منڈلا رہے ہیں، چند ماہ پہلے میں نے کہا تھا کہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کیلئے آغاز ہمارے سیاسی داخلی بحران سے کیا جا رہا ہے، جب سیاسی بحران پیدا ہوا تو عدالتوں کے ذریعے وزیراعظم کو گھر بھیج دیا گیا، فیصلوں کے نتیجے میں ٹرمپ نے پاکستان کو دھمکی دی، پاکستانی علاقوں میں ڈرون حملوں کی دھمکیاں دی گئیں، مالی طور پر دھمکیاں بھی دی گئیں جبکہ دوسری جانب ہندوستان کو پاکستان پر حملے کیلئے جاسوس ڈرون دیئے گئے 16۔سال قبل ہمیں کہا گیا تھا کہ دہشت گردی کی جنگ میں شریک نہیں ہوں گے تو ہندوستان فائدہ اٹھائے گا لیکن اب ہندوستان کے ساتھ نیوکلیئر معاہدے ہو رہے ہیں، انڈیا کو ڈرون دیئے جا رہے ہیں،کشمیریوں اور فلسطینیوں کے کاذ کو خطرے میں ڈالا جا رہا ہے،دنیا میں دہشت گردی کے حوالے سے جنگ چھیڑ دی گئی ہے اور آزادی کی تحریکوں کو دہشت گردی کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے، ہم دنیا کے ساتھ چلنا چاہتے ہیں لیکن دنیا ہمارے داخلی مفادات کو تسلیم کرے، اگر ہمیں انکار ہے تو صرف غلامی سے انکار ہے، ہندوستان بھونڈے طریقے سے کشمیر پر بات کرنا چاہتا ہے، ساری دنیا مذاکرات کی بات کر رہی ہے، بین المذاہب مذاکروں کی بات ہو رہی ہے، ہم دھمکیوں سے پاک مذاکرات چاہتے ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں مولانا فضل الرحمان نے واضح کیا ہے کہ خدا نہ کرے کہ قوم 2018 کا الیکشن نہ دیکھ سکے،خدانخواستہ کوئی حادثہ نہ ہو جائے،سیاسی جماعتوں کوآپس میں بات کرنی چاہیے،ہمارےنیوکلیئرپروگرام کوتباہ کرنے کی منصوبہ بندی ہورہی ہے،ہماری امداد بند اوربھارت کودی جا رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ فاٹا کا خیبرپختونخوا سے انضمام ہونا چاہیے یا نہیں اس پراختلاف رائے ہے۔

مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ہم پاکستان کے آئین ، جمہوریت، پارلیمنٹ کے ساتھ ہیں، جمہوری عمل نہیں رکنا چاہیے، مفاہمت کی بنیاد پر سیاست آگے بڑھانی چاہیے، ہر جماعت سخت موقف اختیار کر رہی ہے آئندہ الیکشن کے بعد ان کی حکومت بن جائے۔ انہوں نے کہا کہ خدا نہ کرنے قوم 2018 الیکشن نہ دیکھ سکے۔ ضروری ہے سیاسی جماعتیں بات کریں تاکہ خدانخواستہ کوئی حادثہ نہ ہو، سیاسی لوگوں کوایک دوسرے کوسننا چاہیے۔

فضل الرحمان نے کہا کہ امریکی اقدامات سے خطے میں عدم استحکام پیدا ہوگا، ہم امریکہ کی غلامی سے انکار اور دوستی کا اقرار کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری امداد بند اوربھارت کودی جا رہی ہے۔آج بھارت سے سول نیوکلیئرمعاہدے ہورہے ہیں، ہمارے نیوکلیئرپروگرام کو تباہ کرنے کی منصوبہ بندی ہورہی ہے۔ انہوں نے کہاکہ کہا گیا دہشتگردی کیخلاف اتحاد کا حصہ نہیں بنیں گے تو بھارت کو فائدہ دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ بھارت نے بھونڈے انداز میں کشمیر پرمذاکرات کی بات کی ہے اور ہمیں ملک میں قومی یکجہتی کی ضرورت ہے۔