وفاقی حکومت کی غلط پالیسیوں کے باعث شوگر ملوں نے کرشنگ شروع کرنے سے انکار کردیا ہے،وزیراعلیٰ سندھ

 
0
346

کراچی نومبر 25 (ٹی این ایس)وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت کی غلط پالیسیوں کے باعث آبادگاروں اور شگر ملز مالکان کے درمیان ایک مسئلہ پیدا ہوگیا ہے، جس کی وجہ سے شوگر ملوں نے کرشنگ شروع کرنے سے انکار کردیا ہے۔ انہوں نے یہ بات ہفتہ کو دو سڑکوں حب ریور روڈ اور سرجانی۔ مدینتہ الحکمت روڈ کے افتتاح کے فورا بعد ہمدرد یونیورسٹی کے نزدیک میڈیا سے باتیں کرتے ہوئے کہی۔صوبائی وزیر بلدیات جام خان شورو، صوبائی ویزر فشریز اینڈ لائیو اسٹاک محمد علی ملکانی، صوبائی وزیر ورکس اینڈ سروسز امداد پتافی، ایم پی اے سعید غنی اور سیکریٹری بلدیات رضوان اعوان و دیگر ان کے ہمراہ تھے۔

وزیراعلی سندھ نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ 24 نومبر کو اسلام آباد میں سی سی آئی کے اجلاس میں شگر کین کریشنگ کے معاملے کو اٹھایا گیا تھا۔میں نے انہیں بتایا تھا کہ مسائل وفاقی حکومت کی جانب سے غلط پالیسیوں کی باعث پیدا ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت نے دسمبر 2016 میں چینی کی درآمد کرنے پر پابندی عائد کردی تھی اور جنوری، فروری، مارچ اور اپریل کے مہینوں میں شگر جو کہ گداموں میں پڑی تھی وہ ایکسپورٹ نہیں ہوسکی۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں تقریبا 8 ملین ٹن چینی ہر سال پیدا ہوتی ہے اس میں سے مقامی طور پر کھپت صرف بامشکل 5 ملین ٹن ہے۔اس طرح ہر سال ہمارے پاس 3 ملین ٹن شگر اضافی ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ وفاقی حکومت چینی کی برآمد پر پابندی عائد نہ کرے کیونکہ اس کے باعث ہمیں اضافی اسٹاک کے حوالے سے مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ڈمانڈ اور سپلائی کا میکنزم بری طرح سے متاثر ہوا ہے اور اب ہمیں سنگین صورتحال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔سید مراد علی شاہ نے کہا کہ بین الاقوامی مارکیٹ میں تقریبا 15 روپے قیمت کا فرق ہے لہذا وفاقی حکومت نے صوبائی حکومتوں کو سی سی آئی اجلاس میں یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ چینی کی برآمد پر سبسڈی دے گی جس کے لیے صوبائی حکومتیں کی کچھ مالی بوجھ برداشت کریں گی۔ ایک اور سوال کے جواب میں وزیراعلی سندھ نے کہا کہ سی سی آئی کے اجلاس میں بتایا گیا کہ کسی بھی شگر مل نے پنجاب میں کریشنگ شروع نہیں کی ہے مگر کسی نے بھی احتجاج نہیں کیا ہے اور نہ ہی وہ سڑکوں پر آئے ہیں۔

اصل میں پنجاب میں یکم نومبر سے کریشنگ شروع کرنا تھی مگر سندھ میں گنے کی کریشنگ کے معاملے کو سیاسی بنادیا اور اس سیاست کے بدولت آبادگاروں کو نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کی حکومت آبادگاروں سے ساتھ ہے جنہوں نے ایک سخت محنت اور سرمایہ کاری کر نے کے بعد فصل اگائی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ صورتحال کے ڈیڈلاک میں وفاق اور صوبائی حکومتوں نے فیصلہ کیا ہے کہ مداخلت کرنے اور چینی کے اسٹاک کو ایکسپورٹ کے ذریعے ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت ، وفاقی حکومت کے کوآرڈینیشن کے ساتھ سبسڈی دینے اور گنے کی قیمت کا اعلان کرنے کے پلان پر کام کررہی ہے۔گورنر سندھ زبیر احمد کے متعلق بات کرتے ہوئے وزیراعلی سندھ نے کہا کہ وہ انکے بہترین دوست ہیں مگر وہ حقائق سے واقف نہیں ہے۔

گرین لائین پروجیکٹ وفاقی حکومت کے غیر سنجیدہ رویے کہ باعث تاخیر کا شکار ہوا ہے اور یہ 16 ارب روپے کا پروجیکٹ تھااور وفاقی حکومت نے صرف 5 ارب روپے مختص کیے ہیں جس کے باعث یہ 4 سالوں میں مکمل نہیں ہوسکا ہے۔اور ہاں، یہ اگر پنجاب میں شروع ہوتا تو یہ ایک سال میں مکمل ہوجاتا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ انہوں نے صوبائی وزیر ٹرانسپورٹ سید ناصر شاہ کو ہدایت کی ہے کہ وہ بی آر ٹی سسٹم میں طلبا کو رعایتی ٹکٹ کی فراہمی کے لیے ضروری انتظامات کرے۔ انہوں نے کہا کہ یہ اہم ہے اور ہم اسے یقینی بنائیں گے۔

یہ سوال کے جواب میں مراد علی شاہ نے کہا کہ انہوں نے صوبے بھر میں تمام ڈویژنل انتظامیہ کو واضح ہدایات کی ہیں کہ وہ فیض آباد، اسلام آباد میں شروع کیے گئے آپریشن کے ردعمل کے حوالے سے تمام تر ضروری اقدامات کریں۔انہوں نے کہا کہ ہم کسی کو بھی قانون کو اپنے ہاتھوں میں لینے کی اجازت نہیں دیں گے۔ وزیرعلی سندھ نے کہا کہ انہوں نے وفاقی حکومت پر زور دیا تھا کہ وہ 3 فیصد مردم شماری بلاکس کی تصدیق کریں تاکہ مردم شماری کی ساکھ کو بہتر بنایا جاسکے مگر اس وقت انہوں نے صرف ایک فیصد کی تصدیق پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ 24 نومبر کے سی سی آئی کے اجلاس میں وفاقی حکومت نے 5 فیصد سینسس بلاکس کی تصدیق پر آمادگی ظاہر کی تھی تاکہ ملک کے لوگ یقین کرسکیں۔انہوں نے کہاکہ یہ ایک اچھا عمل ہے اور مجھے امید ہے کہ تصدیق کا عمل اچھے طریقے سیکیا جائے گا۔

قبل ازیں وزیراعلی سندھ سائٹس پر ایک سادہ سی تقریب میں 2 اہم سڑکوں حب ریور اور سرجانی ۔مدینتہ الحکمت روڈ کا افتتاح کیا۔ حب ریور روڈ کراچی کے میگاپروجیکٹ کا حصہ ہے جس میں دسمبر 2016 میں کام شروع ہوا اور یہ 15 ماہ میں مکمل ہوا ہے۔ یہ 12 کلومیٹر طویل سڑک ہے اور اس پر 1.25 بلین روپے خرچ ہوئے ہیں۔اس پر روڈ کے ایک طرف1.26 کلومیٹر گندے پانی کا نالہ بھی تعمیر کیا گیا ہے ۔ سرجانی۔ مدین الحکمت روڈ 6 ماہ میں تعمیر کیا گیا ہے اور اس پر نارتھرن بائی پاس تا ہمدرد یونیورسٹی اضافی سڑک بھی تعمیر کی گئی ہے۔ اس منصوبے پر 1246.16 ملین روپے لاگت آئی ہے۔ یہ تین لائین (ایک طرف) اور دورویہ راستہ ہے۔ وزیراعلی سندھ نے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ منصوبے کراچی پیکیج کے پہلے مرحلے کے تحت شروع کیئے گئے تھے اور کراچی پیکیج کے پہلے مرحلے کے منصوبے تکمیل کے مراحل میں ہے اور اب ہم 15 دسمبر سے دوسرا مرحلہ شروع کرنے جارہے ہیں۔