پی اے سی کا مشرف دور میں وزارت تعلیم کو دی گئی 3ارب 58کروڑ روپے کی رقم میں بد عنوانیوں پر سخت تشویش کااظہار

 
0
523

اسلام آباد دسمبر 27(ٹی این ایس)پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی عملدرآمد مانیٹرنگ کمیٹی نے سابق صدر جنرل ریٹائر ڈ پرویز مشرف دور میں مدرسہ ریفارمز اور ملک کے تمام اضلاع میں پولی ٹیکنیکل انسٹیٹیوٹ قائم کرنے کیلئے وزارت تعلیم کو دی گئی 3ارب 58کروڑ روپے کی رقم میں بد عنوانیوں پر سخت تشویش کااظہار کرتے ہوئے آڈیٹر جنرل آف پاکستان کو معاملے کا ایک ماہ کے اندر اندر خصوصی آڈٹ کر نے کی ہدایت کی ہے۔ اجلاس بدھ کو کمیٹی کے کنوینر رانا افضال حسین کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا جس میں کمیٹی کے ارکان محمود خان اچکزئی، میاں عبدالمنان سمیت متعلقہ سرکاری اداروں کے اعلیٰ کے حکام نے شرکت کی۔ اجلاس میں وفاقی تعلیم و پیشہ وارانہ تربیت کے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیا گیا۔فیڈرل ایجوکیشن کے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیتے ہوئے محمود خان اچکزئی نے کہاکہ 18، 18 سال کے آڈٹ اعتراضات زیر التوا چلے آرہے ہیں مگرکوئی جوابدہ نہیں ہے ٗ وفاقی سیکرٹری تعلیم نے مؤقف اختیار کیا کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد یہ وزارت صوبوں کو منتقل ہونے کی وجہ سے ابہام پیدا ہوا۔ ریکارڈ کی عدم فراہمی کی وجہ سے تاخیر ہوئی ٗ آڈٹ حکام نے پی اے سی کو بتایاکہ 2004۔05ء میں وزارت کو ملک کے تمام اضلاع میں پولی ٹیکنیک انسٹیٹیوٹ بنانے کے لئے اربوں روپے فراہم کئے گئے۔

محمود خان اچکزئی کے استفسار پر وفاقی سیکرٹری تعلیم و پیشہ وارانہ تربیت نے بتایاکہ پی سی ون نہ بنانے کی وجہ سے یہ منصوبہ پروان نہیں چڑھ سکا۔ کمیٹی کے کنوینر رانا افضال حسین نے کہاکہ یہ بد انتظامی ہوئی مگر اس کی باز پرس نہیں کی گئی۔ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ غریب ملک میں ہر ضلع میں پولی ٹیکنیک بن جاتا تو اچھی بات تھی۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ ملک کے کسی ضلع میں کہیں نہیں بن سکا۔ پی اے سی کے اسستفسار پر سیکرٹری وفاقی تعلیم و پیشہ وارانہ تربیت نے کہاکہ نیو ٹیک والے اس منصوبے پر کام کراتے ہیں۔ میاں عبدالمنان نے کہاکہ ساڑھے تین ارب روپے اس مد میں فراہم کئے گئے مگر یہ رقم خرچ نہیں ہوئی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ دیکھاجائے کہ یہ رقم کہا خرچ ہوئی۔مدرسہ ریفارمز اور پولی ٹیکنیک انسٹیٹوٹ نہیں بنے۔ آڈٹ نے آڈٹ اعتراض کس بنیاد پر بنایا ہے۔ کمیٹی کے کنوینر رانا افضال حسین نے کہاکہ 3ارب 58 کروڑ کے بجٹ میں سے 80 فیصد رقم خرچ ہوئی، ایک ادارہ بھی قائم نہیں ہوا۔ آڈٹ کو یہ بات مد نظر رکھنی چاہیے تھی۔ آڈٹ حکام نے پی اے سی سے درخواست کی ہمیں ایک ماہ کا وقت دیا جائے ہم اخراجات کی تفصیلات متعلقہ وزارت سے لے کر فراہم کردیں گے۔

پی اے سی نے آڈٹ کو حکم دیا کہ ایک ماہ کے اندر ہمیں اس کی مکمل تفصیلات فراہم کی جائیں۔ ڈپٹی آڈیٹر جنرل شریف اللہ وزیر نے کہاکہ واقعی ایک بڑی رقم کی بد انتظامی سامنے آئی ہے۔ پی اے سی اس کے مکمل آڈٹ کا حکم دے۔ کمیٹی کے کنوینر نے آڈیٹر جنرل کو حکم دیا ہے کہ اس خصوصی آڈٹ کیاجائے۔ پی اے سی نے وفاقی وزارت تعلیم و پیشہ وارانہ تربیت کے سیکرٹری کو ہدایت کی کہ اس معاملے پر آڈٹ حکام کے ساتھ مکمل تعاون کیاجائے اور آڈٹ کو جہاں سے بھی ممکن ہو ڈھونڈ کے ریکارڈ فراہم کیاجائے۔ اگر وزارت ریکارڈ فراہم نہ کرے تو ایف آئی اے اور نیب کو کارروائی کے لئے کہا جائے۔ ایک اور آڈٹ اعتراض کے جائزے کے دوران آڈٹ حکام نے پی اے سی کو بتایاکہ وزارت کا مؤقف ہے کہ وزارت صوبوں کو منتقل ہونے کی وجہ سے ریکارڈ دستیاب نہیں ہے۔ پی اے سی نے ہدایت کی کہ کیڈ کو بھی اس میں شامل کرکے خصوصی آڈٹ کیاجائے۔ پرویز مشرف دور میں وفاقی وزارت تعلیم میں خلاف قواعد تعیناتیوں اور تقرریوں کے حوالے سے ایک آڈٹ اعتراض کے جائزے کے دوران محمود خان اچکزئی نے کہاکہ آسامی نہ ہو تو وزیر اعظم اور صدر پاکستان بھی کسی کو تعینات نہیں کرسکتے۔ مگر اس طرح کے واقعات نظر آرہے ہیں۔ قواعد کو نظر انداز کر کے تو بہتری نہیں ہوسکتی۔

سب پاناما کے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔ ان معاملات کو کوئی نہیں دیکھتا۔ وفاقی تعلیم و پیشہ وارانہ تربیت کے سیکرٹری نے کہاکہ محکمہ کے قواعد و ضوابط کے قاعدہ 4 کا سہارا لے کر ان کو ترقی دی ہے۔ محمود خان اچکزئی نے کہاکہ آسامی نہ ہو تو اس پر کس قاعدے کے تحت ترقی دے کر تعیناتی نہیں ہو سکتی۔ آڈٹ حکام نے کہاکہ بعد میں انہوں نے بعض ریٹائرڈ ہونے والے افسران کی جگہ ان لوگوں کی تعیناتی کردی۔ وزارت کی طرف سے بتایاگیا کہ متعلقہ افسر یو ایس ایڈ کی طرف سے پہلے ماسٹر ڈگری کے لئے سکالرشپ دیا گیا اور بعد میں انہیں پی ایم ڈی کے لئے منتخب کرلیا گیا۔ پی ایم ڈی کے بعد انہیں قاعدہ 4کے تحت گریڈ 19میں ترقی دے کر تقرری کردی گئی۔ محمود خان اچکزئی نے کہاکہ 2004ء میں پی اے سی نے وزارت کے افسر محمد رجب کو حکم دیا کہ اس معاملے کی مکمل چھان بین کرکے پی اے سی کو بتایا جائے۔ انہوں نے بھی رپورٹ نہیں دی۔ پھر یہ معاملہ 2012ء کی ڈی اے سی میں زیر بحث آیا۔ پی اے سی نے حکم دیا کہ اس معاملے پر ایک اور ڈی اے سی کی جائے۔