سپریم کورٹ میں آئین کے آرٹیکل باسٹھ ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت کے تعین سے متعلق کیس کی سماعت

 
0
385

اسلام آباد،جنوری31(ٹی این ایس):اسلام آبادچیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نین آئین کے آرٹیکل باسٹھ ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت کے تعین سے متعلق کیس کی سماعتنکے دوران اپنے ریمارکس میں کہا کہنچیٹنگ کرنے والوں پر تاحیات پابندی ہونی چاہیے،بے ایمانی کا مطلب چیٹنگ اور فراڈ ہے، جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ ایمانداری اور وقار بہت اہم ہے، قوم کے لیڈر کے منتخب ہونے کے لیے کوئی معیار ہونا چاہیے، کاغذات نامزدگی میں غلط بیانی عوام الناس کے ساتھ جھوٹ ہوگی ۔

بدھ کے روز چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے آرٹیکل 62 ون ایف کی تشریح اور نااہلی کی مدت کے تعین کے کیس کی سماعت کی، سابق وزیراعظم نواز شریف کی طرف سے سینئر وکیل اعظم نذیر تارڑ پیش ہوئے اور کیس کی تیاری کیلئے تین دن کا وقت دینے کی درخواست کی جو عدالت عظمیٰ نے منظور کرلی، دوران سماعت نواز شریف کے وکیل اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ عدالت کے پبلک نوٹس میں ابہام ہے اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ پبلک نوٹس ان لوگوں کیلئے تھا جو متاثرہ ہیں، تمام متاثرہ لوگ اپنے لئے ایک مشترکہ وکیل کر لیں، آرٹیکل 62ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت کا تعین کرنا چاہتے ہیں پبلک نوٹس میں غلطی ہو گئی ہوگی، یہ نوٹس صرف متاثرین کے لئے ہے، اللہ ڈنو کے وکیل وسیم سجاد نے کہا کہ ان کے موکل کو 2013 میں 2008 کے کاغذات نامزدگی مسترد ہونے پر ڈی نوٹیفائی کیا گیا، عدالت 62 ون ایف کے معاملے کو حل کرے، آرٹیکل 63 میں نااہلی کے ساتھ سزا کا تعین بھی ہے، زیادہ سے زیادہ نااہلی پانچ سال کی ہونی چاہیے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اگر عدالت کسی شخص کو نااہل کر دے تو کیا وہ شخص تین ماہ بعد انتخابات میں حصہ لے سکتا ہی ۔ طارق محمود ایڈووکیٹ نے کہا کہ نااہلی پانچ سال کی ہونی چاہیے، پشاور ہائی کورٹ نے پرویز مشرف کو بدیانتی پر تاحیات نااہل قرار دیا، عدالتی معاون منیر اے ملک نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن لڑنا سب کابنیادی حق ہے، اٹھارویں ترمیم سے قبل آرٹیکل 63میں ماضی کے کنڈکٹ پرنااہلی تاحیات تھی، اٹھارویں ترمیم میں پارلیمنٹ کی بصیرت یہ تھی تاحیات نااہلی کونمدت سے مشروط کردیا تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین کے وکیل سکندر بشیر نے اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ جہانگیر ترین نے فیصلے کے خلاف نظرثانی دائرکررکھی ہے، اس. کیس میں منیراے ملک کے دلائل پر بھی انحصار کروں گا اور اپنی جانب سے بھی دلائل دوں گا، عدالت کو آرٹیکل 62اور63کی تشریح کرنی ہوگی، نیب قانون اور روپاقانون میں نااہلی تاحیات نہیں ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ ایمانداری آرٹیکل 62ون ایف کاحصہ ہے، کسی شخص کے خلاف ڈیکلریشن آجائے وہ ذہینی طور پرصحتمند نہیں کیاوہ شخص تاحیات نااہل ہوگا، آرٹیکل 62کے دیگرالفاظ کوبھی دیکھناہوگا، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ پارلیمنٹ نے آرٹیکل 63میں نااہلی کی مدت کا تعین کردیاہے ،پارلیمنٹ نے آرٹیکل 62میں نااہلی کی مدت کاتعین نہیں کیا، اسکامطلب ہے پارلیمنٹ آرٹیکل 62کی نااہلی ختم نہیں کرناچاہتی تھی، چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کے پاس آئین کی تشریح کااختیار ہے، جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ سوال یہ ہے ڈیکلریشن سے نجات حاصل کیے بغیر اسکے اثرات سے کیسے نجات حاصل کی جاسکتی ہے، جب تک ڈیکلریشن موجود ہے اس کے اثرات بھی ہوں گے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل62ون ایف کاسکوپ وسیع ہے، جسٹس اعجاز الاحسن نے جہانگیر ترین کے وکیل سے استفسار کیا کہ کیاآرٹیکل 62ون ایف کے تحت نااہلی 5سال ہونی چاہیے تو سکندر بشیر نے کہا کہ سنگین جرائم پر بھی الیکشن لڑنے کی قدغن کاتعین ہے، آرٹیکل 62ون ایف کے تحت نااہلی دائمی نہیں ہونی چاہیے اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جب تک آرٹیکل 62ون ایف کی ڈیکلریشن ختم نہ ہوگا اس کے اثرات جاری رہیں گے، جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ آئین میں ترمیم کے لیے پارلیمنٹ سے رجوع کیاجاتاہے، اس پر سکندر بشیر نے کہا کہ تاحیات نااہلی کی قدغن پارلیمنٹ نے نہیں عدالت نے لگائی ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ ایک کیس میں کہہ چکے ہیں ڈیکلریشن کوواپس لینے کی ڈیکلریشن نہیں دی جاسکتی، جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ایمانداری اوروقار بہت اہم چیزہے، پارلیمینٹیرن کے لیئے ایمانداری بہت ضروری ہے، ہم اس قوم کے لیڈر کی بات کررہے ہیں، ہم نے اہلیت اور نااہلیت کے فرق کوذ ہن میں رکھناہے ، ہم نے کاروں اور واشنگ مشینوں سے رقوم برآمد ہوتے دیکھی ہیں، کیاوہ لوگ مستقبل میں وزیراعظم وزیراور ایم این اے بن سکتے ہیں، قوم کے لیڈروں کے منتخب ہونے کے معیار ہونے چاہئیے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ چیٹنگ کرنے والوں پرتاحیات پابندی ہونی چاہیے، بے ایمانی کامطلب چیٹنگ اورفراڈ ہے، سکندر بشیر نے کہا کہ ریاست کے خلاف جرم کرنے والے سزا بھگت کر رکنی اسمبلی بن سکتے ہیں، جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا سنگین جرائم والے ملزم کو عمرقید پوری کرکے 5سال نااہلی کی سزا بھی بھگتنی پڑتی ہے، یہاں ہم لیڈرشپ،قومی اسمبلی اور سینٹ کی بات کررہے ہیں چیف جسٹس نے کہا کہ ایک دن اسی شخص نے وزیریاوزیراعظم بنناہے،سکندر نے کہا کہ کاغذات نامزدگی میں غلطی پر الیکشن کالعدم ہوتاہے اس پر جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ اب آپ اپنی نظر ثانی درخواست کے دلائل دے رہے ہیں، جسٹس عمر عطابندیال بندیال کا کہنا تھا کہ کیانااہلی سزاہے یامعذوری ہے،کیاسزابھگتنے کے بعد کسی امیدوار پر قدغن ہوگی، سکندر بشیر نے کہا کہ آرٹیکل 62ون ایف کے تحت جرم دیوانی ہے فوجداری نہیں ہے، جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ ہمیں اہلیت اورنااہلیت میں فرق کاجائزہ لیناہے، کیانااہلی کی ڈیکلریشن خودبخود ختم ہوجائے گی، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم میں آرٹیکل 62اور63میں ٹائم لمٹ نہیں نہیں تھی، اگرآپ کو18ویں ترمیم سے پہلے نااہل کرتے تومدت کتنی ہوتی ہے ، 18ویں ترمیم سے پہلے یہ نااہلی تاحیات ہوتی، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیاعدالت کوہرکیس میں نااہلی کی مدت کاالگ سے تعین کرناہوگا، اس سکندر بشیر نے کہا کہ کیس ٹو کیس مدت کے تعین کاحامی نہیں ہوں، ڈیکلریشن کے اثرات کے خاتمے کے لیے عدالت کے سامنے کھڑے ہیں، دوران سماعت چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدالتی معاون نے بھی بنیادی حقوق کی بات کی ہے شناختی کارڈ پرنااہلی کوہم دائمی قراردے چکے ہیں، اس کیس میں 5سال نااہلی کاسوچ رہا تھا لیکن اس شخص نے کہیں سے سفارش کروائی توتاحیات نااہلی ہوگئی، جسٹس عمر عطابندیال بندیال نے کہا کہ کاغزات نامزدگی میں غلط بیانی عوام الناس کے ساتھ جھوٹ ہوگی سکندر بشیر کے دلایل مکمل ہونے کے بعد کیس کی سماعت آج جمعرات تک ملتوی کردی ہے واضحنرہے کہ 14 ارکان اسمبلی نے سپریم کورٹ میں دائر درخواستوں میں مطالبہ کیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلینکانقانون ختم کرکے اس کی مدت کا تعین کیا جائے۔

درخواستیں دائر کرنے والوں میں سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف اور پی ٹی آئی رہنما جہانگیر خان ترین سمیت وہ ارکان اسمبلی بھی شامل ہیں جنہیں جعلی تعلیمی ڈگریوں کی بنا پر نااہل کیا گیا۔