مسلم لیگ (ن) کی یہ روایت رہی جب ان کو فتح ہوتی تو یہ اْسے جمہوریت کی کامیابی سمجھتے ور جب ان کو شکست کا سامنا کرنا پڑتا تو وہ جمہوریت کی ناکامی تصور کرتے ہیں۔شرمیلا فاروقی

 
0
841

اسلام آباد مارچ 13(ٹی این ایس)پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما شرمیلا فاروقی نے سینیٹ میں حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کی شکست کی وجہ لیگی سینیٹرز اور پارٹی قیادت کے درمیان اختلافات کو قرار دیدیا۔نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے شرمیلا فاروقی نے کہاکہ مسلم لیگ (ن) کی شروع سے یہ روایت رہی ہے کہ جب ان کو فتح ہوتی ہے تو یہ اْسے جمہوریت کی کامیابی سمجھتے ہیں اور جب ان کو شکست کا سامنا کرنا پڑے تو وہ جمہوریت کی ناکامی تصور کی جاتی ہے۔انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) سینیٹ میں اپنی شکست کو دوسروں پر ڈال کر ایک غلط تاثر پیش کررہی ہے جبکہ حقیقتاً ان کے اپنے سینیٹرز پارٹی کی پالیسیوں سے تنگ آچکے تھے اور اسی لیے انہوں نے دوسری جماعتوں کو ووٹ دیا۔انہوں نے کہاکہ مسلم لیگ (ن) کی سینیٹر کلثوم پروین نے تو خود اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے ڈپٹی چیئرمین کیلئے پیپلز پارٹی کو ووٹ دیاکیونکہ لیگی امیدوار عثمان کاکڑ ایک ایسی شخصیت تھے جن کا پارٹی سے کسی قسم کا بھی کوئی تعلق نہیں تھا۔پی پی رہنما نے کہاکہ انہیں چاہیے کہ اپنے سینیٹرز سے سوال کریں کہ آخر انہوں نے اپنی وفاداریاں کیوں تبدیل کیں جبکہ بلوچستان میں سیاسی تبدیلی کی وجہ بھی ان کے اپنے اراکین صوبائی اسمبلی (ایم پی ایز) سے ناراضگی تھی، جو پھر ایک بغاوت کی شکل اختیار کرگئی۔پیپلز پارٹی پر سینیٹ انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ کے الزام سے متعلق ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے واضح کیا کہ جہاں کہیں بھی سیاست میں خلا پیدا ہوتی ہے تو دوسری جماعتیں اپنی جگہ بنانے کیلئے متحرک ہوتی ہیں ٗ جو ایک عام سی بات ہے۔
شرمیلا فاروقی نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) اپنی غلطیوں پر نظر ثانی کرے اور پھر دیکھیں کہ ساڑھے چار سال اس کا اپوزیشن کیساتھ ایوان میں رویہ کیسا رہا ہے لہذا آج جو کچھ ہوا وہ اسی کا نتیجہ تھا اور اسی لیے کوئی سیاسی جماعت بھی ان کی حمایت کے لیے تیار نہ تھی۔ان کا کہنا تھا کہ رضا ربانی کے ساتھ پیپلز پارٹی کی قیادت کے کوئی اختلافات نہیں اور وہ ایک قابل احترام شخصیت ہیں، جنہوں نے اس ایوان کو اپنے دور میں بہت عزت بخشی ہے، مگر ہمارے اس فیصلے کا مقصد صرف بلوچستان کو بھی اس سیاست میں اس کا حصہ دینا تھا تاکہ وہاں کی بھی نمائندگی حاصل ہوسکے۔پی پی پی رہنما نے کہا کہ میں یہ نہیں سمجھتی کہ آج صادق سنجرانی کے چیئرمین سینیٹ بننے سے بلوچستان کے تمام حالات ٹھیک ہوجائیں گے، مگر کم از کم ایک چھوٹے صوبے کی نمائندگی بہت معنیٰ رکھتی ہے اور امید ہے کہ نئے چیئرمین تمام معاملات کو درست کی جانب لے کر جائیں گے۔