ڈرائیوروں کے قتل کا تسلسل ۔۔۔ کہانی کیا ہے ؟

 
0
570

جاوید ملک /شب وروز
نوجوان کی آواز فرط جذبات سے رندھ گئی وہ بیس اکیس سال کا پختون تھا اکثر پٹھانوں کی طرح اردو بولتے ہوئے اس کے لہجے سے بھی پشتو جھلک رہی تھی وہ شہر اقتدار میں کھڑا گلہ پھاڑ پھاڑ کر حکمرانوں سے استفسار کررہا تھا اگر وفاقی دار الحکومت میں بھی وہ محفوظ نہیں ہے تو پھر ہر شہری کی جان ، مال ، عزت کی حفاظت کا قانون ملک کے کس گوشے میں رائج ہے ۔
اس کی جذباتی تقریر ختم ہوئی تو میں نے اس سے پوچھا کہ اصل مسئلہ کیا ہے ؟
وہ کہنے لگا
’’میں ڈرائیور ہوں ‘‘ ٹیکسی چلاتا ہوں پہلے پرائیویٹ ٹیکسی چلاتاچلاتا تھا پھر اس ملک میں دو غیر ملکی کمپنیاں آگئیں ایک کا نام کریم اور دوسری کا نام اوبر ہے مجھے بھی مجبوراًیک کمپنی سے منسلک ہونا پڑا ۔ اب آئے روز ہماری کمپنی کیلئے ٹیکسیاں چلانے والا کوئی نہ کوئی ڈرائیور شاہراہ دستور کی سڑکوں پر مردہ پایا جاتا ہے ہم دہائیاں دیتے رہتے ہیں مگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو پرواہ ہے نہ ہی ہماری کمپنی کے مالکان کو ’’ ابھی اس کی بات جاری تھی کہ موقعہ پر موجود کئی اور ڈرائیور بولنے لگے ہر شخص کی اپنی ایک علیحدہ کہانی تھی ، شکایات کے انبارتھے مگر لب لباب ایک ہی تھا انصاف نہیں ہے اس شورشرابے میں ایک نوجوان کی چیختی ہوئی آواز نے جیسے میرے کانوں میں گرم سیسہ سا انڈیل دیا
’’میں زاہد خان ہوں ، ٹیکسی چلاتا ہوں ، کسی روز اس شہر کی کسی سڑک کنارے میری سر کچلی لاش ملے گی میرے دوست اسی طرح اکٹھے ہونگے نعرہ بازی کریں گے اور پھر سب بھول جائیں وہ بھی جن کی ذمہ داری میرا تحفظ تھی اور وہ بھی کہ جنہیں میرے قاتل پکڑنا تھے۔۔۔۔۔۔ یہاں برسوں سے یہ ہی گھناؤنا کھیل جاری ہے اور نہ جانے کب تک جاری رہے گا ‘‘
اس کا انتہائی خوفناک سچ میرا سینے میں تیر کی طرح اتر رہا تھا وہ معمولی پڑھا لکھا نوجوان جس کا ذریعہ معاش ڈرائیوری تھا اس راز سے پردہ اُٹھا رہا تھا جسے اس دیس کے نام نہاد افلاطون کھوج نہیں پائے تھے ۔ ہمارا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ہم ’’وقت ٹپاؤ‘‘ پالیسی پر کارفرما ہیں برسوں سے اس ملک پر اسی قانون کا راج ہے ہر حادثے کے بعد چند روز شورا شرابہ ہوتا ہے قانون اپنی پوری طاقت سے حرکت میں آتا ہے ، اپنی موجودگی کا احساس دلاتا ہے مگر جیسے ہی شور تھمتا ہے یہ پھر لمبی تان کر سو جاتا ہے ۔
میں نے دیکھا شہر اقتدار کے نیشنل پریس کلب کے سامنے ایک طرف ٹیکسی ڈرائیور کے قتل کے خلاف سارے ڈرائیور نعرہ بازی کررہے تھے ان کے بلکل سامنے وفاقی دارالحکومت کے اساتذہ دھرنا دئیے بیٹھے تھے اور ایک طرف جڑاوں شہروں کے پراپرٹی ڈیلرز حکومت کی پالیسیوں پر کف چڑھائے احتجاج ریکارڈ کرارہے تھے میں ہرروز یہ مناظر دیکھتا ہوں چہرے بدلتے ہیں ، مطالبے بدلتے ہیں ، گروہ بدلتے ہیں مگر سب کے مطالبوں کا ماخد ایک لفظ ہوتا ہے ’’ انصاف ‘‘ اور میں حیران ہوتا ہوں کہ ان کے جائز مطالبات سننے اور حل کرنے کا وقت کسی کے پاس نہیں یہ معمولی مسائل عام آدمی کی زندگی کو اجیرن بنادیتے ہیں جبکہ ارباب اختیار صرف ایک فارمولے پر نظام چلارہے ہیں ’’وقت ٹپاؤ‘‘اور ’’مٹی پاؤ‘‘
وہ سب جو فیصلہ ساز ہیں ، وہ سب کہ جو صاحب اختیار ہیں ، وہ سب کہ جنہوں نے یہاں قانون نافذ کرنا ہے ان سے ہاتھ جوڑ کر میرا ایک سوال ہے اس ملک میں پرائیویٹ ٹیکسی کی غیرملکی کمپنیاں کئی ماہ سے کام کررہی ہیں انہیں یہاں کام کرنے کی اجازت کس نے دی ان کے چیک اینڈ بیلنس کی ذمہ داری کس کی ہے اور ایک پرائیویٹ سروس کو ملک میں عام ہونے سے قبل اس پیشے منسلک لوگوں کو کیا تحفظ دیاگیا اور اس معمولی سروس کیلئے غیر ملکی کمپنیاں کیوں ضروری تھیں کیا اس دیس میں کوئی ادارہ نہیں جو آن لائن ٹیکسی سروس کیلئے نظام و ضع کرتا ۔۔۔ اداروں کو سنجیدگی سے اپنی ذمہ داریاں نبھانا ہوگی اور مال بناؤ مہم سے نکل کر اس ملک کے مستقبل کیلئے سوچنا ہوگا ہم کب تک پوری دنیا میں تماشہ بنے رہیں گے اور آئے روز سڑکوں کے کنارے پر ہمارے نوجوانوں کے لاشے ہماری بے حسی کا منہ چڑھاتے رہیں گے ۔ ووٹ کو عزت دو کے نعرے تخلیق کرنے والے اگر عام آدمی کو عزت دے دیتے ، ان کے چھوٹے چھوٹے مسائل سن لیتے ، حل کرلیتے تو آج سڑکوں پر ذلیل رسوا نہ ہورہے ہوتے لیکن عام لوگ تو ان کی نظر میں کیڑے مکوڑے ہیں جن کی ’چوں چاں‘ سننے کیلئے ان کے پاس وقت ہے نہ ہی یہ اس کی ضرورت محسوس کرتے ہیں ۔