ڈی پی او پاکپتن تبادلہ ازخود نوٹس کیس کی سماعت شروع،خاور مانیکا اور ان کی بیٹی مبشرہ مانیکا بھی عدالت عظمیٰ میں موجود

 
0
402

چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے خاور مانیکا (دائیں) کے ساتھ جھگڑے پر ڈی پی او رضوان گوندل (بائیں) کے تبادلے کا از خود نوٹس لیا تھا
اسلام آبادستمبر 3(ٹی این ایس): ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈی پی او) پاکپتن کے تبادلے پر از خود نوٹس کیس کی سماعت سپریم کورٹ میں شروع ہوگئی۔چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثارکی سربراہی میں 3 رکنی بینچ کیس کی سماعت کر رہا ہے۔وزیراعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ عمران کے سابق شوہر خاور مانیکا اور ان کی بیٹی مبشرہ مانیکا بھی عدالت عظمیٰ میں موجود ہیں۔اس سے قبل جمعے کو عدالت کے حکم پر آئی جی پنجاب، آر پی او اور سابق ڈی پی او پاک پتن رضوان گوندل پیش ہوئے تھے۔دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے تھے کہ ڈی پی او کو ڈیرے پر بلا کر معافی مانگنے کا کیوں کہا گیا اور رات ایک بجے کیوں تبادلہ کیا گیا؟دوسری جانب سابق ڈی پی او رضوان گوندل نے وزیراعلیٰ ہاؤس میں طلبی، وزیراعلیٰ کی جانب سے احسن جمیل کے بطور بھائی تعارف کرانے اور بیرون ملک سے کرنل طارق کا پیغام موصول ہونے سے متعلق آگاہ کیا تھا۔عدالت عظمیٰ نے ابراہیم مانیکا اور احسن جمیل گجر کو بھی آج پیش ہونے کا حکم دے رکھا ہے۔دوسری جانب ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو بھی آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف سے متعلق عدالتی فیصلے پڑھ کر آنے کی ہدایت کی تھی۔
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے وزیراعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے سابق شوہر خاور مانیکا کو ناکے پر روکنے والے ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈی پی او) کا ٹرانسفر کر دیا گیا تھا، جس پر سوشل میڈیا پر خوب لے دے ہوئی۔رپورٹ کے مطابق پولیس نے جمعرات 23 اگست کو پاکپتن میں خاور مانیکا کو ناکے پر رکنے کا اشارہ کیا مگر وہ نہ رکے، لیکن جب پولیس نے ان کی کار کو روکا تو انہوں نے غلیظ زبان استعمال کی۔
واقعے کے بعد حکومت پنجاب نے ریجنل پولیس افسر (آر پی او) اور ڈی پی او رضوان گوندل کو جمعہ 24 اگست کو طلب کیا اور ڈی پی او رضوان گوندل کو خاور مانیکا کے ڈیرے پر جاکر معافی مانگنےکا حکم دیا گیا، تاہم رضوان گوندل نے یہ کہہ کر معافی مانگنے سے انکار کردیا کہ اس میں پولیس کا کوئی قصور نہیں۔جس کے بعد ڈی پی او رضوان گوندل کا تبادلہ کردیا گیا تھا۔
اس معاملے پر حکومتی ذرائع کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے آر پی او اور ڈی پی او کو طلب کرکے دونوں افسران کو معاملہ ختم کرنے اور رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی تھی، تاہم رپورٹ نہ دینے پر انہیں عہدے سے ہٹایا گیا۔
بعدازاں اس معاملے پر چیف جسٹس ثاقب نثار نے ازخود نوٹس لیا تھا۔عدالت عظمیٰ نے رضوان گوندل کو بیان حلفی جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے اپنے ریمارکس میں کہا تھا کہ اگر وزیراعلیٰ یا اس کے پاس بیٹھے شخص کے کہنے پر تبادلہ ہوا تو یہ درست نہیں، کسی وزیراعلیٰ کے لیے بھی آرٹیکل 62 ون ایف کی ضرورت پڑسکتی ہے۔