کراچی اپریل 06 (ٹی این ایس): وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ تھر منصوبے پر وفاق کی جانب سے ٹرانسمشین لائن بچھانے کی شرط پر کڑوی گولی نگلی پڑی، خان صاحب اپنی خیر منائیں جب زرداری صاحب اسلام آباد آئیں گے، ہمیں نہ آپ کا کھانا چاہئے اور نہ ہی کنٹینر بلکہ اپنے نکلنے کا انتظام کریں۔ دوسروں کے ذریعہ سندھ کو رقم دینے کے کھو کلے اعلان کردیئے گئے، تھر کے انفراسٹرکچر پر ایک ارب خرچ ہوچکے ہیں، سندھ کے گیس، بجلی اور دیگر وسائل پر ڈاکے لگ چکے ہیں اب کوئلہ پر بھی لگائے جارہے ہیں۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے ہفتہ کو مہتہ پیلس میوزیم میں سراج انسٹیٹیوٹ آف بزنس اسٹڈیز اور انڈومنٹ فنڈ ٹرسٹ کی جانب سے دو روزہ قومی کانفرنس “سندھ، سندھو اور شاہ لطیف” کے عنوان سے منعقدہ تقریب سے بطور مہمان خصوصی. شرکت کرنے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔کانفرنس کا اہتمام سراج انسٹیٹیوٹ آف بزنس اسٹڈیز اور انڈومنٹ فنڈ ٹرسٹ کے اشتراک سے کیا گیا۔
کانفرنس کا افتتاح وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے کیا جبکہ افتتاحی سیشن کی صدارت ڈاکٹر فہمیدہ حسین نے کی۔ اس موقع پر شرکائے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے تمام معزز مہمانوں اور شرکا کو کانفرنس میں خوش آمدید کہا اور کہا کہ ڈاکٹر فہمیدہ حسین کی مدبرانہ قیادت میں قائم انسٹیٹیوٹ صحیح سمت میں کام کررہا ہے۔
انھوں نے کہا کہ سندھ ادب علم کا گہوارا ہے۔ انھوں نے کہا کہ دو روزہ لطیف قومی کانفرنس کا انعقاد کرکے شاہ عبداللطیف بھٹائی کے پیغام کو انکے پڑھنے اور سمجھنے والوں تک رسائی کیلئے اکٹھا کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ادیب حضرات ذرا دیر سے اٹھتے ہیں اس لیے آج دیر سے پہنچے گے لیکن ہم جوکہ ادب سے دور ہیں وہ وقت پر پہنچ گئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ماضی کی بنسبت آج کا معاشرہ بہت ثقافت زدہ ہے کیوں کہ سیاسی شعور ہو یا مذہبی یا پھر کلچر ہو ہم سب طبقات میں آگے جارہے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ آج کے وقت میں لطیف کا امن اور بھائے چارے کا پیغام ضروری ہے اگر ہم لطیف کو پڑھیں اور سمجھیں تو اچھی باتیں کریں، ہمیں اپنی زبان، ادب، ثقافت اور کلچر پر بھرپور کام کرنے کی ضرورت ہے۔ انھوں نے بتایا کہ جب مجھ سے نورالہدی شاہ نے پوچھا کہ آپ نے لطیف کو پڑھا ہی تو میں نے کہا کہ مجھے اپنے والد جب اسکول چھوڑنے جاتے تھے تو شاہ لطیف کے اشعائر سناتے جاتے تھے۔
انھوں نے کہا کہ بھٹائی میری روح میں بسا ہوا ہے، لیکن انکے رسالے کا مطالعہ صحیح طریقے سے نہیں کرسکا۔ انھوں نے کہا کہ حمید آخوند نے مجھے بھٹائی کے رسالے کی تعلیم دینے کا واعدہ کیا تھا لیکن بعد میں اپنے واعدے پر نہیں اترے۔ انھوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ اس کانفرنس کے ذریعے ہمیں شاہ لطیف کے پیغام کو سمجھنا ہے اور اس پر عمل کرنا ہے کیوں کہ ہمیں اپنی نئے نسل کو بھٹائی کے پیغام کو سمجھانا ہے، اسی طریقہ سے اپنی ثقافت، زبان اور ادب کو سنبھال سکیں گے۔
انھوں نے کہا کہ میں اپنے بچے چاہیں وہ جو بھی زبان بولتے ہوں انکو بھٹائی پڑھنا چاہئے۔ وزیراعلی سندھ انسٹیٹیوٹ کو فنڈز دینے سے متعلق دھیرے لہجہ اور طنزیہ کہا کہ وزیراعظم کی جانب سے جو سندھ کو 162 ارب دینے کا اعلان ہوا ہے وہ آپکو دے دونگا، جس پر ادیبوں یک رائے ہوکر کہا وہ تو نہیں ملیں گے۔ وزیراعلی سندھ نے بڑے فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اطمینان دیتے ہوئے یقین دلایا کہ سندھ حکومت کے فنڈز سے سراج انسٹیٹیوٹ کو فنڈ دونگا تاکہ اچھا کام کرسکے۔
اس موقع پر سراج انسٹیٹیوٹ آف بزنس اسٹڈیز کی جانب سے 3 کتابوں “منظرنامو، ملا جی دور اور شیکسپئر کی کہانیاں” کی نقاب کشائی کی گئی۔ افتتاحی سیشن میں ادیب حضرات کی بڑی تعداد سمیت تدریسی و انتظامی شعبہ جات کے سربراہان، پروفیسرز نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔بعد ازاں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے وزیراعلی سندھ نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان کو کہیں کہ وہ اپنی خیر منائیں جب زرداری صاحب اسلام آباد آمد کا اعلان کریں گے۔
انھوں نے بتایا کہ نہ انکا کھانا چاہئے نہ ہی کنٹینر بلکہ وہ اپنے نکلنے کا انتظام کریں۔ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہے، وقت آنے پر تو گدھے کو بھی باپ بنانا پڑتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ لطیف قومی کانفرنس میں کھڑے ہوکر کوئی بے ادبی کی بات نہیں کرنا چاہتا۔ایک شخص جس کو قانون کا اور نہ ہی پارلیمنٹ کا لحاظ ہے اس سے یہی امید کی جاسکتی ہے۔
تھر منصوبے سے متعلق پوچھے گئے سوال پر انھوں نے بتایا کہ جب یہ منصوبہ شروع ہوا تو ہمیں کڑوی گولی نگلنی پڑی تھی کیوں کہ ٹرانسمیشن کا مسئلہ پیچیدہ تھا۔ انھوں نے بتایا کہ تھر منصوبے اور انفراسٹرکچر پر اس وقت تقریبا ایک ارب کے قریب خرچ کرچکے ہیں، ٹرانسمیشن بچھانے اور بجلی خریدنے کیلئے وفاق کی شرط تھی کہ بجلی پیدا ہونے پر نیشنل گرڈ میں داخل ہوگی۔
ٹرانسمیشن لائین مٹیاری سے سیدھا فیصل آباد منتقل ہورہی ہے جبکہ دوسری لائین بھی بچھا رہے ہیں تو وہ بھی لے جارہے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ سندھ نے ہمیشہ پاکستان کی خدمت کرتا رہا ہے، سندھ سے بجلی پیدا کرنے کا وعدہ شہید بینظیر بھٹو نے 1994 کیا تھا، انکی تقاریر بھی رکارڈ ہیں شاید(میڈیا) نے بھی سنی ہونگی۔ جب وقت قریب آیا تو انکی حکومت کو ختم کردیا گیا اور منصوبہ مکمل بھی نہیں کرنے دیا۔
انھوں نے بتایا کہ ہم شہید بینظیر کا خواب پورا کرنے جارہے ہیں اور یہی منصوبہ انشا للہ پاکستان کی لوڈشیڈنگ ختم کرنے میں معاون ثابت ہوگا۔پنجاب کے اپوزیشن لیڈر کو گرفتاری سے متعلق سوال کے جواب پر انھوں نے بتایا کہ میں کچھ نہیں کرسکتا، پنجاب والے اس مسئلہ کو حل کریں، میری ذاتی رائے کا سوال ہے تو میں کہوں گا یہ سراسر غلط ہے۔ایک اور سوال پر انھوں نے بتایا کہ میرے خیال سے اسد عمر جارہے ہیں ان سے واشنگٹن ملنے۔
انھوں نے میڈیا کو تنبیہ کرتے کہا کہ خیال رکھیں کہ پیچھے عمران خان صاحب کہیں خودکشی نہ کرلیں۔نقل کی روکتھام اور تعلیمی معیار سے متعلق سوال پر انھوں نے کہا کہ ہم نے کوشش بھرپور کی اور وزیر تعلیم کو بھی کہا ہے جس پر انھوں نے مختلف دورے کرکے سخت ایکشن بھی لیے ہیں۔انھوں نے کہا کہ میں نے اقدامات کئے تھے تو کورٹ نے ختم کردئے، صوبے کے وزیراعلی کی حیثیت سے میری ذمہ داری تو بنتی ہے لیکن ہم سب کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنی مستقبل کی نسل کو اس طرح سے خراب نہ کریں۔
سندھ کے گیس، بجلی اور دیگر وسائل پر ڈاکے لگ چکے ہیں اب کوئلہ پر بھی لگائے جارہے ہیں۔ شہید بینظیر بھٹو کے وژن کے مطابق انشا اللہ سندھ ہی پاکستان کی لوڈشیڈنگ ختم کرے گا۔وفاق کی جانب سے سندھ کو پیکیج دینے سے متعلق سوال پر انھوں نے بتایا کہ مجھے آپ لوگ ہی بتائیں کہ 162 ارب روپے کہاں کرچ ہوئے، کوئی ایک منصوبہ ہی بتائیں، مجھے تو بتایا نہیں گیا۔
انھوں نے کہا کہ رواں سال 120 ارب روپے کا خسارہ وفاق کا سندھ کو ہوا ہے ایسا ہم بولتے بھی آئے ہیں لیکن اب ہم نے حساب لگایا ہے کہ 134 ارب روپے کم ملے ہیں ۔ انھوں نے کہا کہ یہ پیسہ کہاں سے لائے گے، مجھے نہیں لگتا کہ وزیراعظم نے اعلان بھی کیا ہوگا، دوسروں کے ذریعے سے اعلانات ہورہے ہیں، خود انھوں نے نہیں کیا۔ انھوں نے کہا کہ وزیراعظم لاہور گئے تو مزدوروں کیلئے انسے پیسے مانگے گئے تو جواب دے دیا۔ انھوں نے کہا کہ عوام کو آسرہ بھی نہیں کرنا چاہئے، ابھی تک تو ناامیدی ہی کا سامنا ہے۔ اور انشا للہ سندھ ہی عوام کے مسائل اور امیدیں پورا کرے گی۔













