تاریخ رقم کر لیں ‘اس سے پہلے کے تاریخ رقم ہو جائے

 
0
465

معروف  صحافی  ارشاد بھٹی کا موجودہ سیاسی حالات پر تجزیہ

سقراط بن کر “زہر کا پیالا “پینے کا تاثر دیتے ہوئے یہ ذہنوں میں رہے کہ سقراط کو نہ دولت سے محبت تھی اور نہ اس پر کرپشن اور منی لانڈرنگ کا الزام تھا’مانا کہ ہر الکپون پکڑے جانے کے بعد رابن ہڈ ہونے کا دعوٰی کرے مگر یاد رہے کہ سیاست ہو یہ لیڈر شپ جب اخلاقی برتری نہ رہے تو پھر جگ ہنسائی او ر رسوائی !

حضور آپ کا کہنا کہ جے آئی ٹی رپورٹ ناقص ‘جانبدارانہ ‘متعصبانہ ‘یک طرفہ اور قانون کے  خلاف ‘جے آئی ٹی  نےمینڈیٹ سے تجاوز کیا ‘آپ پر لگے سب الزامات تصوراتی اور یہ آپ کو گھیرنے اور اقتدار سے فارغ کرنے کی سازش ‘آپ کا یہ فرمانا کہ نفرت اور تعصب سے بھرا جے آئی ٹی کا یہ کام 60 دنوں کا نہیں برسوں کی محنت ‘مطلب بہت پہلے سے آپ کے خلاف چارج شیٹ تیار ہو رہی تھی ‘آپ کا یہ سمجھنا کہ جے آئی ٹی کرپشن کہانی بے ہنگم کاغزات کا پلندہ اور آپ نے بھولپن اور سادگی میں  بار بار ویزہ لینے کی تکلیف سے بچنے کے لیے اقامہ لیا’لہذا ایف زیڈ ای کمپنی اور 10 ہزار درہم یا ڈالر تنخواہ تو محض ایک رسمی اور کاغزی کارروائی ہے آپ کا اس پر بھی مصر رہنا کہ  کاروبار تو خسارے میں تھا مگر آپ  اور آپ کا خاندان منافع کما تا رہا ‘آپ کا یہ تاثر دینا کہ آپ کی لڑائی تو سولین بالادستی کی جنگ اور آپ کو یہ علم بھی کہ کس حساس ادارے نے کس کی مدد کی’کس خفیہ ہاتھ نےکون سی دستاویز مہیا کی اور غیر ملکی حکومتوں نے کس کے کہنے پر ثبوت مہیا کیے اور آپ یہ بھی کہ رہے ہیں کہ آپ کے کاغزوں میں ہیر پھیر محض آپ کے مشیروں اور وکیلوں کی نالئقیاں اور اکاونٹنٹ سطح کی غلطیاں اور آپ کو کچھ معلوم نہیں ‘حضور چونکہ آپ اپنی  اس رام کہانی کے ساتھ پھر سے سپریم کورٹ میں ‘لہذا اس پر کیا سر کھپانا’اب تو یہ چند دنوں کی بات کہ جے آئی ٹی رپورٹ سچ یا آپ حق پر’مگر حضور چند باتیں پلے نہیں پڑ رہیں ‘جیسا کہ آپ کے خلاف سب کچھ ہی جھوٹ مطلب آپ کے خلاف کچھ ہے ہی نہیں تو پھر اوپر سے نیچے تک یہ چیخ وپکار اور رونا دھونا کیوں؟  ‘یہ کربلائی ماحول کس لیے  اور اس شام غریباںجیسے سوگ کا مطلب ‘اگر آپ نے کچھ کیا ہی نہیں تو پھر کیا فرق پڑتا ہے کہ کوئی 60 دنوں میں کاغزات اکھٹے کرے یا 60 سالوں میں ‘پھر وہ کون سی عمر وعیار کی زنبیل  یا الہ دین کا چراغ  آپ کے ہاتھ لگا کہ کاروبار خسارے میں تھا مگر آپ لاکھوں ‘کروڑوں ڈالر کما رہے تھے اور پھر باقی الزامات چھوڑیں اگر آپ نے ایف ذیڈ ای کمپنی میں کاغزی عہدہ اور تنخواہ اس لیے قبول کی کہ آپ کا مقصد اقامہ لے کر بار بار دبئی ویزے کی تکلیف سے بچنا تھا تو حضور پہلی بات تو یہ کہ کسی سابق  وزیراعظم کو دبئی ویزے کا کیا مسئلہ’کیونکہ سابق وزیراعظم کے پاس ریڈ پاسپورٹ اور اوپر سے سابق وزیراعظم نوازشریف ہو’چلو یہ مان لیتے کہ یہ کہانی بھی سچی تو حضور یہ سب کچھ الیکشن کمیشن گوشواروں  میں کیوں نہ بتایا اور یہ سب انکم ٹکس ریٹرنزمیں کیوں نہ لکھا۔ویسے اب تو محترم اسحاق ڈار بھی یو اے ای شیخ  کے تین خط پیش کر چکے جس کے مطابق ڈار صاحب کو 3 سال کی ایڈوائزی  کی ایک ارب روپے تنخواہ ملی’3 سال کی تنخواہ ایک ارب روپے کمال ہے’حضور کمال ہے!

باقی آپ اور آپ کے وزیروں کا اشاروں کنائیوںمیں مسلسل یہ تاثر دینا کہ آپ کے خلاف سازش ہو رہی اور سب کچھ سازشیوں کا کیا دھر ا’حضور پاناماآنے کے بعد آپ ہی تھے جنہوں نے کہا کہ “میں خود سپریم کورٹ کو خط لکھ رہا ہوں کہ وہ معاملے کی انکوائری کرے”اور یہ آپ ہی تھے جنہیں سپریم کورٹ پر مکمل بھروسہ تھا ‘اب یہ بے اعتباری اور بدگمانی کیوں؟اور سپریم کورٹ کے زیر نگرانی کیس میں سازشی کہاں سے آگئے’چلو یہ بات بھی مان لی تو حضور اللہ کے فضل و کرم سے آپ تیسری مرتبہ وزیراعظم ‘بنے یہ علیحدہ بات  ہے کہ ہر مرتبہ مقررہ وقت سے پہلے ہی گھر جانا پڑا’مگر  تین دفعہ کا وزیراعظم ‘ملک کی سب سے بڑی  جماعت کا سربراہ اور اپنے خطے کاا یک تجربہکار لیڈر اگر اپنی سیاست  کے فائنل ٹوئنٹی ٹوئنٹی میچ کے آخری اوور میں بھی چوکے’چھکے مارنے کی بجائے اپنی وکٹ ہی بچا رہا ہو تو حیرت ہے’حضور بہت حیرت ہے’حضور آخری اوورز میں تو ریلوکٹے اور پھٹیچر کھلاڑی  بھی چھکا’چوکا مارنے کا رسک لے لیں’حیرت یہ بھی کہ ایک طرف حکومت’پارٹی اور خاندانی عزت داؤ پر جبکہ دوسری طرف  ابھی بھی میر جعفروں اور میر صادقوں کے چہروں سے نقاب الٹنے کی ہمت نہیں’محترم یہی وقت ہے آنکھوں اور ہاتھوں کی زبان بولنے کی بجائے اب زبان کھولیں’بولیں کہ آپ کابیانیہ بھی بنے’ابھی بولیں ورنہ بعد  میں”اساں  جان کے میٹ لئ اکھ وے”کوئی نہیں سنے گا’اور پھر آپکو تو تاریخ رقم کرنے کا شوق’تو یہی موقع تاریخ رقم کرنے کا ‘لیکن تاریخ نہ ڈیلوں سے رقم ہوتی ہے اور نہ گونگے پن    سے’تاریخ محلات  میں مشاورتی اجلاسوں کی صدارت کر کے رقم ہوتی ہے اور نہ ادھوری معلومات اور افواہ بازی  پر یقین کر کے رولا ڈالنے سے ‘تاریخ نہ ہر روز پریس کانفرنسوں اور ٹی وی پروگراموں میں مخالفین کو’جا تیری توپوں پر کیڑے پڑیں ” جیسی بدعائیں دینے اور نہ کرسی سے چمٹے رہنے سےرقوم ہوتی ہے’قبلہ تاریخرقم کرنے کیلئے میدان میں اترنا اور قربانی دینا پڑے لہذا دل بڑا کریں اور میدان میں اتریں’تاریخ آپ کے انتظار میں!

حضور ایک تو آپ کی چپ نقصان دہ اوپر سے آپکا جو حمایتی بھی بول رہا وہ ایسا کہ عدالت عظمی کا تو پتا نہیں لیکن عوامی عدالت میں آپکا کیس خراب ہی ہو ریا’جیسے 15 سو ریال پر پلنے والے وہ صاحبجو یہ انکشاف کر چکے کہ”جے آئی ٹی  کی رپورٹ ڈاکٹر طاہر القادری نے بھارت اور اسرائیل کی مدد سے مرتب کی”انہی نے پہلے یہ کہہ کر”لوگو باہر نکلو جہاد کا وقت آگیا “ساتھ ہی یہ بھی فرمایا”اللہ  جےآئی ٹی  والوں کے ہاتھ کوڑھے کرے”حضور ویسے تو بددعا کا سٹینڈرڈ دیکھ کر ہی موصوف کی ذہنی حالت کا اندازہ ہو جائےمگر پھر بھی پوچھنا کہ یہ کن لوگوں کو جہاد کی کال دی جارہی اور کون باہر نکلے گا’پاناماکو ایک طرف بھی رکھ دیں تو بھی کیا سب کو یہ علم نہیں کہ نظام گل سڑ چکا’جمہوریت بیساکھیوں پر اور جمہوریت کے علمبرداروں کی کارکردگی یہ کہ بھٹو کی پارٹی سندھ کو چھوڑیں’10 سالہ اقتدار کے بعد بھی ن  لیگ کی حالت یہ کہ ادھر دو بارشیں برسیں اور ادھر گھبرا کر پنڈی نالہ لئی فوج کے حوالے کر دیا’مطلب چھوٹو گینگ سے نالہ لئی تک اور کراچی سے لاہور تک سب کچھ کروائیں فوج سےلیکن مشہور یہ کیئے رکھیں کہ ہمیں  توفوج  کچھ کرنے ہی نہیں دیتی’یہاں جہادی کال دینے والے صاحب کو نبیﷺکا یہ فرمان سنانے کو دل چاہ  رہا ہے کہ”سب سے بڑا جہاد یعنی جہاد اکبر اپنے نفس کے خلاف جہاد “اگر آپ سب نے اپنے نفسوں  کے خلاف جہاد  کر لیا ہوتا تو آج یہ نفسا نفسی نہ ہوتی’آگے سنیئے آپکے ایک سرفروش وزیر فرماتے ہیں کہ”جے آئی ٹی کے تمام اراکین بددیانت “اب کیا کہا جائے صرف اس کے کہ”جو جیسا اسے سب کچھ نظر بھی ویسا  ہی آئے”

حضور والا ویسے تو ابھی تک ہم آپ کی ایک دوسرے کےبالکل الٹ 3 تقریریں ہی ہضم نہیں کر سکے لیکن پھر بھی درخواست یہی کہ بولیں’اس سے پہلے کہ بولنے کو کچھ نہ رہے’اصل بات بتا  دیں’اس سے پہلے کہ سب کو اصل بات کا پتا چل جائےاور تاریخ رقم ہو جائے’باقی حضور والا آخر میں صرف اتنی سی گذارش کہ سقراط کی طرح”زہر کا پیالہ”پینے کا تاثر دیتے ہوئے یہ ذہنوں میں رہے کہ سقراط کو نہ دولت سے محبت تھی اور نہ اس پر کرپشن اور منی لانڈرنگ کا الزام’مانا کہ ہر  الکپون پکڑے جانے کے بعد رابن ہڈ ہونے کا دعوی کر مگر سیاست ہو یا لیڈر شپ’جب اخلاقی برتری نہ رہے تو پھر جگ ہنسائی اوررسوائی