اسلام آباد ہائیکورٹ نے توہین عدالت نوٹس میں معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کی معافی قبول کرلی

 
0
232

اسلام آباد نومبر 01 (ٹی این ایس): اسلام آباد ہائیکورٹ نے توہین عدالت نوٹس میں وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کی معافی قبول کرتے ہوئے شوکاز نوٹس واپس لے لیا اور نیا شوکاز نوٹس جاری کر کے 5 نومبر کو ذاتی حثیت میں طلب کر لیا۔ جمعہ کو چیف جسٹس جسٹس اطہر من اللہ نے سماعت کی۔ اس موقع پر وزیراعظم کی معاون خصوصی ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان عدالت میں پیش ہوئیں۔
ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کی جانب سے معروف قانون دان میاں عبدالروف ایڈوکیٹ اور محمد علی بخاری ایڈوکیٹ پیش ہوئے۔ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ میں سوچ بھی نہیں سکتی کہ کوئی ایسی بات کہوں جس سے عدلیہ کی توقیر میں کمی ہو، اگر میرے الفاظ سے عدالت کی دل آزاری ہوئی ہے تو میں معذرت خواہ ہوں اور مستقبل میں مزید محتاط رہوں گی۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے دورران سماعت ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ ایک اہم عہدے پر فائز ہیں، آپ ایک ایسے وزیر اعظم کی مشیر ہیں جو قانون کی بالادستی کے علم بردار ہیں، آپ کو اس لئے نوٹس جاری کیا کہ آپ نے ایک زیر التوا معاملے پر بات کی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ میری ذات کے بارے میں جو کہیں مجھے کوئی پرواہ نہیں کیوں کہ سچ سچ ہوتا ہے، ہم منتخب نمائندوں اور کابینہ کی بہت عزت کرتے ہیں لیکن آپ کی گفتگو سے فیئر ٹرائل کا حق متاثر ہوا ہے۔ اس موقع پر عدالت نے ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کو عدالتی رولز پڑھنے کا کہا جس پر انہوں نے عدالتی رولز پڑھے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کوئی بھی ارجنٹ معاملہ عدالت آ سکتا ہے، ہم کبھی چھٹی پر نہیں ہوتے، آپ کے اپنے میڈیکل بورڈ نے کہا ہوا ہے کہ حالت تشویشناک ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ مجھے اس عدالت کے ججوں پر فخر ہے، ایک سال کے دوران ہم نے سب سے زیادہ درخواستیں نمٹائیں ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کہہ رہی تھیں کہ کاش غریب لوگوں کے لیے بھی ایسا ہو، ہم یہاں بیٹھے ہی عام لوگوں کے لیے ہیں، ہم صرف اللہ کو جواب دہ ہیں جس کا نام لیکر ہم نے حلف لیا ہے ۔ ہم پریس کانفرنس نہیں کر سکتے اس لیے آپ کو بلایا، آپ نے خود عدالتی رولز پڑھ لیے ہیں۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان سے استفسار کیا کہ کیا آپ کبھی ضلعی عدالتوں میں گئی ہیں، اس سماعت کے بعد وہاں جا کر دیکھیں دکانوں میں عدالتیں لگی ہیں، اٴْس کچہری میں عام لوگوں کے مسائل سنے جاتے ہیں، آپ بار کے صدر کے ساتھ جائیں اور صورتحال دیکھیں، کچہری میں ٹوائلٹ تک موجود نہیں ہیں۔ چیف جسٹس نے مزید کہا کہ میں آپ کو کبھی شوکاز نوٹس جاری نہ کرتا، آپ کو صرف دکھانے کے لیے بلایا۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ آپ کو وزیراعظم نے ایسا کہنے کے لیے نہیں کہا ہو گا۔ عدلیہ کی توقیر میں کمی آپ کے الفاظ سے نہیں ہوتی، ہمارے فیصلوں سے عدلیہ کی توقیر میں کمی ہو سکتی ہے، کوئی کہتا ہے کہ ڈیل ہو گئی، پوچھیں کیا کسی نے ججز کو اپروچ کیا ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ جج پر ذاتی تنقید پر عدالتیں ہمیشہ تحمل کا مظاہرہ کرتی ہیں، عدالت اس معاملے سے متعلق آپ کی معافی قبول کرتی ہے اور آپ کے خلاف توہین عدالت کا پرانا شوکاز نوٹس واپس لیا جا رہا ہے اور نیا نوٹس جاری کیا جا رہا ہے۔
عدالت نے ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کو پیر تک تحریری جواب داخل کرانے کا حکم دیتے ہوئے کیس کی سماعت منگل تک ملتوی کر دی۔ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ منگل کو کابینہ کا اجلاس ہوتا ہے، اس دن سماعت نہ رکھیں۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سماعت کی تاریخ تبدیل نہیں کی جائے گی۔ عدالت نے ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کو بار کے نمائندوں کے ساتھ ڈسٹرکٹ کورٹس کے دورے کا حکم بھی دیا۔