آئی جی پنجاب کا تبادلہ لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج، اہم خبر آ گئی

 
0
404

لاہور 09 ستمبر 2020 (ٹی این ایس): پاکستان مسلم لیگ (ن) نے انسپکٹر جنرل (آئی جی) پنجاب پولیس کا تبادلہ لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کردیا۔

عدالت عالیہ میں مسلم لیگ (ن) کے رہنما ملک محمد احمد خان کی جانب سے درخواست دائر کی گئی۔

مذکورہ درخواست میں وفاقی اور صوبائی حکومت، موجودہ آئی جی انعام غنی، سابق آئی جی شعیب دستگیر، ایڈیشنل آئی جی پی آپریشنز ذوالفقار حمید اور کیپیٹل سٹی پولیس افسر (سی سی پی او) لاہور محمد عمر شیخ کو فریق بنایا گیا ہے۔

لیگی رہنما کی دائر کردہ درخواست میں مؤقف اپنایا گیا کہ آئی جی پنجاب کا تبادلہ پولیس رولز کی خلاف ورزی ہے۔

ساتھ ہی یہ استدعا کی گئی کہ عدالت آئی جی پنجاب کے تبادلے کے نوٹیفکیشن کو کالعدم قرار دے جبکہ سی سی پی او لاہور کے نوٹیفکیشن کو بھی کالعدم قرار دیا جائے۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز پنجاب میں ایک مرتبہ پھر آئی جی کو تبدیل کرتے ہوئے شعیب دستگیر کو عہدے سے ہٹا کر انعام غنی کو نیا آئی جی پولیس تعینات کردیا گیا تھا۔

وفاقی حکومت نے ایڈیشنل آئی جی جنوبی پنجاب کے عہدے پر فرائض سر انجام دینے والے سینئر پولیس افسر انعام غنی کو آئی جی پنجاب کے عہدے پر تعینات کرنے کا نوٹیفیکشن جاری کیا تھا۔

شعیب دستگیر کی آئی جی کے عہدے سے تبدیلی حال ہی میں تعینات ہونے والے کیپیٹل سٹی پولیس افسر (سی سی پی او) لاہور عمر شیخ سے اختلافات کے بعد سامنے آئی تھی۔

اس سے قبل یہ رپورٹس آئی تھیں کہ شعیب دستگیر نے ان کی مشاورت کے بغیر عمر بن شیخ کو حال ہی میں لاہور کے کیپیٹل سٹی پولیس افسر کے تقرر پر تحریک انصاف کی حکومت کے تحت کام کرنے سے انکار کردیا تھا۔

ساتھ ہی انہوں نے وزیر اعلیٰ پنجاب سے ان کے کسی ‘مناسب جگہ’ پر تبادلہ کرنے کا مطالبہ بھی کیا تھا، آئی جی پی کو یہ قدم اٹھانے پر مجبور کرنے کی ایک اور وجہ یہ بھی بتائی گئی تھی کہ سی سی پی او نے مبینہ طور پر اپنے عہدے پر آنے کے بعد چند پولیس اہلکاروں سے گفتگو کے دوران چند تبصرے کیے تھے۔

اس پیش رفت سے متعلق معلومات رکھنے والے ایک عہدیدار نے ڈان کو بتایا تھا کہ شعیب دستگیر نے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار سے ملاقات کی اور ان سے ‘کسی اور مناسب جگہ پر تبادلہ’ کرنے کی درخواست کی اور کہا کہ وہ سی سی پی او کی برطرفی تک صوبائی پولیس چیف کے عہدے پر نہیں رہیں گے۔

سرکاری ذرائع نے بتایا تھا کہ سی سی پی او کے تبصرے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کی وجہ سے آئی جی پی مشتعل ہوئے تھے، وہ اپنے دفتر میں چند پولیس افسران سے گفتگو کے دوران ان کی ریٹائرمنٹ کے بارے میں تھے۔

جیسے ہی یہ بات شعیب دستگیر تک پہنچی تو انہوں نے اسلام آباد کا دورہ کیا تھا اور وزیر اعظم عمران خان سے شکایت کی اور سی سی پی او کے تبادلے کا مطالبہ کیا تھا جسے انہوں نے مسترد کردیا تھا۔

بعد ازاں لاہور واپسی پر آئی جی پی نے سی سی پی او کے تبادلے تک کام کرنے سے انکار کردیا تھا۔

جس کے بعد ان کی تبدیلی کردی گئی تھی اور انعام غنی کو صوبے کی پولیس کا نیا سربراہ بنایا گیا تھا۔