پینشنرز کو گروپ انشورنس اور بینولینٹ فنڈ کی ادایگی کا مسلہ۔

 
0
11185

تحریر سید ساجد علی شاہ

  حکومت نے گروپ انشورنس فنڈز کے نام سے 4اپریل 1969ء کو حاضر سروس سرکاری اداروں کے ملازمین کی بہبود کے لیے ایک ادارہ قائم کیا جسے بہبود فنڈز کا نام دیا گیا اس فنڈ کو وجود میں لانے کا بنیادی مقصد سرکاری اداروں کے ملازمین اور حکومت کے منظور شدہ خود مختار اداروں کے ملازمین کو بینوو لیٹ گرانٹ، گروپ انشورنس سمیت دیگر مالی فوائد فراہم کرنا تھا اس فنڈ کے ذریعے ہر سرکاری ملازم کی تنخواہ میں سے 8سے 11فیصد رقم ہر ماہ باقاعدگی سے کٹوتی کر لی جاتی ہے جس میں سرکاری ملازم کی سروس کے ساتھ ساتھ بتدریج اضافہ بھی ہوتا رہتا ہےحکومت بینولینٹ گرانٹ اس کے علاوہ ہے جو طبی وجوہات کی بنیاد پر ریٹائر ہونے والے ملازم کو تاحیات ماہانہ فراہم کی جاتی ہے جس کی مالیت اندازا ایک ہزار دو سو اسی روپے سے لے کر چار ہزار روپے تک ہے جبکہ حاضر سروس ملازمین کے لیے میرج گرانٹ کے علاوہ تعلیمی وظائف کی مراعات بھی موجود ہیں بظاہر تو بینولینٹ فنڈ سرکاری ملازمین اور ان کے پسمائندگان کو فوائد پہنچانے کے لیے عمل میں لایا گیا تھا اور اس کے قیام کے اولین مقاصد یہ تھے کہ جو لوگ ساری زندگی ملازمت کرتے ہیں وہ دوران سروس تو کوئی رقم جمع نہیں کرپاتے اور مشکل سے وہ اپنی تنخواہ سے اپنا اور اپنے اہل و عیال کا پیٹ پال سکتے ہیں اور جب وہ ریٹائرمنٹ کو پہنچتے ہیں تب تک ان کے بالوں میں سفیدی کی چمک اور جسم لاغر ہوچکا ہوتا ہے اور وہ اس قابل نہیں ہوتے کہ کوئی نوکری یا کاروبار کر سکیں اسی سلسلے میں ایف ای بی اینڈ جی آئی ایف جیسا ادارہ قائم کیاگیا اور باقاعدہ اس کے لیے ایک ایکٹ بھی بنایا گیا جب اس فنڈ کی رقم اربوں میں جمع ہونے لگی تو اس رقم میں  مزید اضافہ کرنے کے لیے اس کے تحت ایک بورڈ آف ٹرسٹی وجود میں لایا گیا تاکہ قانونی طور پر وہ بینولینٹ فنڈ سے مختلف منصوبوں پر سرمایہ کاری کرکے اس کےذریعے حاصل ہونے والے منافع کو بھی متعلقہ ملازمین اور ان کے خاندان کی بہبود پر خرچ کر سکے لیکن حکومت کی صفوں میں شامل پالیسی سازوں کی ناکام پالیسیوں کی بدولت چوپٹ راج کی انتہا دیکھیے کہ سرمایہ کاری سے حاصل ہونے والا منافع تو دور کی بات سرکاری ملازمین کو ان کی اصل کٹوتی شدہ رقم سے بھی محروم کر دیا گیا ہے اور ملازمین کے احتجاج کے باوجود انہیں ان کی جائز رقم ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ادا نہیں کی جا رہی ہے  

 اب ہو جائے بات مجھے ملنے والے ایک خط کی جس کا سیاق و سباق پیش خدمت ہے یہ خط مجھے میرے دوست کے والد محترم نے لودھراں سے ارسال کیا ہے متن پیش خدمت ہے

 “ہم 13مارچ 2015 کو سپریم کورٹ اور سیکرٹری فنانس حکومت پنجاب کے اپنے نوٹیفیکیشن پر عملدرآمد نہ کرنے سے تنگ آکر 75 سال سے زائد عمر کے ضعیف اور مظلوم پنشنرز لاہور ہائی کورٹ کے دروازے پر دستک دینے پر مجبور ہوگئے توہین عدالت کا یہ کیس اس وقت کے چیف جسٹس جناب سید منصور علی شاہ نے سماعت کیا اور پنجاب کے چیف سیکرٹری اور سیکرٹری فنانس پیش ہوئے اور انہوں نے تمام پنشنرز کو ادائیگی کا شیڈول پیش کیا پینشنرز جو 1991ء سے پہلے ریٹائرڈ ہوئے ان کو ادائیگی ماہ فروری2015ء اور جو پینشنرز 1991ء سے 1994تک ریٹائر ہوئے ان کی ادائیگی ماہ مارچ 2015ء اور جو پینشنرز 1994ء سے2001ء تک ریٹائر ہوئے ان کی ادائیگی ماہ اپریل و مئی 2015ء اور جو پنشنرز 2001ء سے اپ ڈیٹ تک ریٹائر ہوئے ہیں ان کی ادائیگی ماہ جون 2015ء،یہ شیڈول عدالت عالیہ میں پیش کرنے کے بعد مورخہ 30جنوری 2015ء کو جو  نوٹیفیکیش جاری کیاگیا اس میں بھی عمر رسیدہ پنشنرز کے ساتھ وہی روایتی ہاتھ ہوگیا یہ نوٹیفیکیشن  بے معنی اور تاریخی حربہ ثابت ہوا، ہم سیدھے سادھے اور لاچار لوگ حیران و پریشان ہیں کہ اتنے عظیم اور پروقار عہدوں پر فائز افسران نے کس ڈھٹائی کے ساتھ  معزز عدالت کو اندھیرے میں رکھا  ہم سفید بالوں والے سفید پوش لوگ وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار سے فریاد کناں ہیں کہ ہماری بوسیدہ ہڈیوں پر اپنی عظمت کے بلند و بالا ریاستی مینار نہ کھڑے کریں بلکہ  عدالت عظمی کے فیصلہ کے مطابق ہمیں ڈبل پنشن کی ادائیگی یقینی بنائیں اور آپ ہماری اس آواز کو اعلی حکام تک پہنچائیں  ” آج سے کچھ عرصہ قبل تک پنشن کا کمیوٹڈ پورشن 10سال بعد بحال ہوجاتا تھا مگر سابقہ دور حکومت میں اسے بڑھا کر 15سال کر دیاگیا بدقسمتی سے اس فیصلے پر ہمارے کسی سیاسی رہنما اور نہ ہی کسی سیاسی منتخب نمائندہ نے آواز بلند کی، 2009ء میں لاہور ہائیکیورٹ نے پنشنرز کے کمیوٹڈ پورشن کو ریٹائرمنٹ کے 15 سال بعد تمام اضافہ جات کے ساتھ ادا کرنے کا حکم دیا اور اس سلسلے میں لاہور ہائی کورٹ کے ڈویژن بنیچ ، پنجاب سروس ٹربیونل، وفاقی سروسز ٹربیونل اور بعدازاں سپریم کورٹ آف پاکستان نے واضح حکم بھی جاری کیا اس ساری کارروائی میں پنجاب گورنمنٹ پنشنرز فرنٹ نے بذریعہ خط و کتابت اور میڈیا سے مسلسل رابط رکھا اور بلآخر 11مارچ 2013ء کو جنرل نوٹیفیکیشن جاری ہوگیا اور جس پر عملدرآمد یکم جولائی 2013سے ہوا، صوبائی محتسب پنجاب کی جانب سے مورخہ 22اپریل 2013ء کو محکمہ خزانہ پنجاب کو ہدایت دی گئی کہ وہ اپنی چھٹی مورخہ 15اکتوبر 2012ء کا فائدہ ان تمام پنشنرز کودے جو 75سال کی عمر پوری کرچکے ہیں ملک میں پنشرز کو سئنیر شہری کا لقب تو دیا جاتا ہے لیکن  حکومتی سطح پر انہیں کوئی سہولیات فراہم نہیں کی جاتیں، پینشرز ایک ایسا مظلوم، لاچار اور بے زبان طبقہ ہے کہ جو کچھ مل جائے تو تب بھی شکر ادا کرتا ہے اور اگر نہ ملے تو تب بھی صبر کا دامن تھامے رکھتا ہے ملکی ترقی میں اپنی عمر کا بڑا حصہ دینے کے باوجود کوئی بھی ان کی خدمات کا اعتراف کرنے کو تیار نہیں، اپنی تمام تر طاقت، قوت، صلاحیتیں اور سروس وہ ساٹھ سال کی عمر تک اپنی ملازمت پر نچھاور کر دیتا ہے اور جوانی و شباب کا دور ملازمت کی نظر کرکے ہڈیوں کا ڈھانچہ اور سفید بالوں کے ساتھ ریٹائرڈ ہو کر خالی خول گھر جا بیھٹتا ہے اس کے بعد اس کی زندگی بونس پر چلتی ہے اور گھر میں اکیلا رہنے سے صحت مزید ڈھلنے لگتی ہے اور وہ روز بروز مختلف جان لیواء بیماریوں میں مبتلا رہنے لگتا ہے ہاتھوں میں رعشہ اور ٹانگوں میں لڑکھڑاہٹ پیدا ہو جاتی ہے چلنا پھرنا بھی بس میں نہیں رہتا دماغی سوچ اور صلاحیتیں جواب دے جاتی ہیں اور وہ شخص جس نے سرکاری محکمے میں اپنی زندگی کی ساٹھ برس کی بہاریں نچھاور کی ہوتی ہیں وہ ہر کام کاج کا محتاج ہو کر رہے جاتا ہے، اکیلا گھر میں پڑا کڑھتا رہتا ہے جس کی وجہ سے مالی اور معاشی پریشانیاں اسے ہر طرف سے گھیر لیتی ہیں اور اس سفید بالوں اور سفید باریش داڑھی والے بزرگ نما انسان کی گزر اوقات صرف پنشن کا سہارا ہوتی ہے اور ہر ماہ بنکوں کے باہر دھکے کھانے کے بعد ملنے والی پنشن سے “مہنگائی” کا مقابلہ کرنے کے لیے مختلف پلان بناتا ہے بلوچستان حکومت بھی اپنے ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کو جو حیات ہیں ان کو باقاعدگی سے گروپ انشورنس کی ادائیگی کر رہی ہے جبکہ وفاقی حکومت اور دیگر صوبے اس گروپ انشورنس فنڈ کی ادائیگی میں لیت و لعل سے کام لے رہے ہیں پاکستان مسلم لیگ ن کے دور اقتدار میں یہ کیس قومی اسمبلی کی زینت بناء مگر وہاں بھی چند مفاد پرست وزراء نے عمر رسیدہ مظلوم پنشنرز کے حق پر ڈاکہ ڈالتے ہوئے اس بل کو پاس نہ ہونے دیا بلکہ اسے روکنے کیلیےء سیسہ پلائی ہوئ دیوار بن کر کھڑے ہوگئے بزرگ عمر رسیدہ پنشنرز کیس کی سماعت کرتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ نے 16اپریل 2015ء تک چیف سیکرٹری پنجاب کو بھری عدالت میں گروپ انشورنس کی رقم ادائیگی کا شیڈول پیش کرنے کا حکم دیا تھا لیکن اس پر آج تک عملدرآمد نہیں ہوسکا گروپ انشورنس ایکٹ 1969ء میں وقت کے ساتھ ساتھ ترامیم ہوتی رہی ہیں تاکہ افسران کو فیض پہنچایا جاسکے مگر وقت نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اس ملک میں قوانین میں ترامیم عوامی فلاح و بہبود کے برعکس ایک خاص طبقے کو فائدہ پہنچانے کے لیے ہی کی جاتی ہیںحکومت پنجاب کےمستقل ملازمین کی بہبود کے لیے ہر گریڈ کے سرکاری ملازم کو گروپ انشورنس کا ممبر بنایا جاتا ہے اور ہر ماہ باقاعدگی سے اس کی تنخواہ سے مقرر کردہ ریٹس کے مطابق رقم کاٹ لی جاتی ہے ایک محتاط اندازے کے مطابق 1969ء سے اب تک تقریبا ایک کھرب روپے کے لگ بھگ اس مد میں سرکاری خزانے میں جمع ہیں جس کا زندہ ریٹائرڈ ملازمین کو کوئی بھی فائدہ نہ ہے ملک میں قانون دوقسم کے کیوں رائج ہیں صوبہ بلوچستان میں گروپ انشورنس کے قوانین صوبہ پنجاب کے قوانین سے کیوں مختلف ہیں؟ صوبہ بلوچستان کی حکومت نے 1969ء کے گروپ انشورنس کے قوانین میں 2007ء میں ترمیم کر دی گئی تھی لیکن صوبہ پنجاب میں تاحال اس قانون پر عملدرآمد نہ ہوسکا ہے  کیا صوبہ پنجاب اسلامی جمہوریہ پاکستان کا حصہ نہیں ہے؟کیا 1973ء کا آئین۔صرف صوبہ بلوچستان کے ریٹائرڈ سرکاری ملازمین پر لاگو ہوتا ہے؟کیا آئین۔کا آرئٹیکل 99انسان کے بنیادی حقوق کی بات کرتا ہے تو ملک کے تمام صوبوں پر اس کا اطلاق کیوں نہیں ہوتا؟ ریاست مدینے کے سلوگن کے تحت برسراقتدار  میں آنے والی تحریک انصاف کی حکومت کو چاہیے کہ ان بزرگ پینشنرز پر رحم کرتے ہوئے انہیں مزید پریشانیوں میں نہ الجھنیں بلکہ ان کے جائز حقوق گروپ انشورنس کی مد میں ملنے والی رقم کا حکم صادر فرمائیں تاکہ زندہ ریٹائرڈ ملازمین مہنگائی کے اس پرآشوب دور میں گزارہ کرسکیں