اسلامی بینکنگ اور ہماری روایات

 
0
207

تحریر: ارشد داود
اسلام میں عمل کے اعتبار سے سب سے بد ترین گناہ سودی لین دین ہے جسے قران مجید میں الله اور اس کے رسول سے جنگ کے مترادف قرار دیا گیا ہے یہی وجہ ہے کے مملکت خداداد پاکستان میں سود کے خاتمے کے لیے آغاز سے ہی کوششیں جاری ہیں جسکا اظہار قائد اعظم نے 1948 میں سٹیٹ بینک کی بلڈنگ کے افتتاح کرتے ہوۓ کہا تھا کہ ہمیں مساوات اور معا شرتی انصأف کے حقیقی اسلامی تصور پر مبنی ایک معاشی نظام دنیا کے سامنے پیش کرنا ہو گا.1956 اور 1962 کے آہین میں ربا کے خاتمہ کی شق شامل کی گٸ اور 1973 کے آہین میں دستور پاکستان کی دفعہ بی38 میں یہ طے کیا گیا کے سود کو جلد از جلد ختم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے. مکمل اسلامی بینکنگ کی ابتدا مصر سے ١٩٦٠ میں شروع ہوٸ ابتک تقریبا ١٢ ممالک میں اسلامی بینکنگ نظام راہج ہے اور ہمارے ملک پاکستان میں اسلامی بینکنگ کا کاروبار دیگر ممالک کی نسبت تناسب کے لحاظ سے سب سے کم ہے . یہ ملک جو الله اور رسول کے نام پر وجود میں آیا تھا اسلامی نظام حکومت ہونے کے باوجود ہم اسلامی بینکنگ میں بہت پیچھے ہیں حالانکہ ہماری اسلامی روایات اور عوامی رجحان اسلام کی طرف بہت زیادہ ہیں لیکن اس کے باوجود ملک میں اسلامی بینکنگ کو وہ پذیرائی نہیں مل سکی جسکی ضرورت ہے. ملک میں موجودہ اور سابقہ حکومتوں نے بھی اسلامی بینکنگ کی طرف کوٸ خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے. ملک میں اسلامی بینکنگ انڈسٹری کو مزید وسعت دینے کے ضروری ہے ہم ملک میں ایسے اقدام کریں جس کا مقصد نچلی سطح پر لوگوں میں شعور پیدا کرنا اور انکو اسلامی روایات کے مطابق آگاہی فراہم کرنا اور اسلامی بینکنگ کے قوانین میں ملکی ضروریات کے مطابق مختلف مکتبہ فکر کے علماء کرام کی رہنمائی سے ترمیم کی جاسکتی ہے.لوگوں کو اسلامی بینکنگ کے بارے میں آگاہی دینے کے لیے سب سے آسان اور پر اثر ذریعہ ہماری مساجد ہیں . مساجد کے ذریعے علما کرام اسلامی بینکنگ کے فوائد اور اسکے بارے میں آگاہی نہیایت آسانی سے دے سکتے ہیں جو عام آدی کے لیے زیادہ پر اثر ہو سکتی ہیں اور اس کے ساتھ تعلیمی اداروں اور میڈیا کے ذریعے آگاہی پروگرام مرتب کر کے ھم ملک میں اسلامی بینکنگ کو فروغ دے سکتے ہیں ان پروگراموں کے ذریعے ملک کی بینکنگ انڈسٹری بہت ترقی کر سکتی ہے یہ کام حکومت کی سرپرستی کے بغیر ممکن نہیں