سیاست کے لیے عدالتوں کو متنازعہ نہ بنائیں،

 
0
316

تحریر: تنویر اعوان
عدالتوں کو متنازعہ بنایا گیا تو عام شہری کا ملک و ملت سے ہی اعتماد اُٹھ جائے گا۔ اگرچہ ملک میں قائم ہمارا عدالتی نظام “کھچوے” کی رفتار سے انصاف فراہم کرتا ہے لیکن پھر بھی عوام کے لیے اُمید کا ایک مرکز ہے جس کے سہارے عام لوگ “پولیس سٹیٹ” میں رہ کر مافیا اور پولیس گٹھ جوڑ کا مقابلہ کر رہے ہیں عام آدمی کی اس “اُمید” کو بھی اگر ختم کر دیا گیا تو تباہی ہو جائیگی اور پیچھے صرف کھنڈرات رہ جائیں گے۔
بیرسٹر عقیل ملک اور نواز لیگ کی رہنما مریم نواز کی ملاقات پر بڑی لے دے ہو رہی ہے اور اس ملاقات کو لیکر پنجاب ہائیکورٹ کے چیف جسٹس قاسم خان کو نشانہ بنایا جا رہا ہے حالانکہ یہ ایک معمول کی ملاقات ہے بیرسٹر عقیل ملک کے چچا عمر فاروق ملک نواز لیگ کے اہم رہنما ہیں اور چند دن قبل ہی اُن کی شادی چیف جسٹس قاسم خان کی صاحبزادی سے ہوئی ہے مُجھے فخر ہے اور میں داد دیتا ہوں کہ چیف جسٹس صاحب رشتے داری کرتے ہوئے بالکل بھی نہیں گبھرائے کہ اُن کے ہونے والے داماد کے خاندان تعلق اُس سیاسی پارٹی سے ہے جس کا آج کل بُرا وقت چل رہا ہے اُنہوں نے بالکل پرواہ نہیں کی کہ اُن کے سپریم کورٹ میں جج بننے پر اس رشتے داری کا منفی اثر پڑ سکتا ہے یا اُن کی شخصیت کو بے لگام سوشل میڈیا نشانہ بنا سکتا ہے۔ چیف جسٹس نے رشتے داری کو صرف رشتے داری سمجھا۔
رشتے داری ہی اگر “مشکوک” فیصلوں کی بنیاد ہے اور ملک سے “ وفاداری” کا فیصلہ اس تناظر میں ہو گا تو عمران خان کے دست راست اسد عُمر کا بھائی زبیر ن لیگ کا اہم راہنما ہے۔ ؟ چیئرمین “سی ڈی اے”نواز شریف کے دست راست سعید مہدی کا بیٹا ہے اور پاکستان کا چیف الیکشن کمشنر سعید مہدی کا داماد ہے اور کس نے تعینات کیا ہے ؟ عمران خان کی گورنمنٹ نے لگایا ہے دونوں کو۔۔ اتنی اہم پوسٹوں پر۔؟ تو پھر ان سب کو کس تناظر میں دیکھا جائیگا ؟
عقیل ملک کون ہے ٹیکسلا کے سدا بہار MPA اور راولپنڈی ڈویژن کے اہم سیاستدان عمر فاروق ملک کا بھتیجا ہے اور اُس کی چچی محترمہ بھی دو مرتبہ صوبائی اسمبلی کی ممبر رہ چُکی ہے اور اُس کے چچا عُمر فاروق نواز لیگ کے سینئر رہنما ہیں اور ن لیگ پر دورِ ستم میں بھی اپنی پارٹی اور لیڈر کے ساتھ ڈٹ کر کھڑے ہیں۔ بہادر اور وفادار لوگ جس پارٹی میں بھی ہوں اُن کی قدر کی جانی چاہیئے۔ ایک بات اور واضح کر دوں کہ ہمارے مُلک کے چوٹی کے سیاستدان، بیوروکریٹس ، جرنیل اور بزنس فیمیلز کی آپس میں بُہت “ گُوڑی” رشتے داریاں ہیں
لہذا عدالتوں اور چیف جسٹس پر کیچڑ اُچھالنا بند کیا جائے۔۔۔ ایک فیصلہ حق میں آیا تھا تو بابا جی خادم حسین رضوی نے جسٹس شوکت صدیقی کے نعرے لگوائے تھے اور جب اُسی جسٹس صدیقی نے دوسرا فیصلہ خلاف دیا تو بابا جی خادم رضوی نے جج صاحب کو زندیق، لعنتی اور نجانے کیا کیا کہہ کر مخاطب کیا تھا ۔
لہذا عدالتوں کو مُتنازعہ نہ بنائیں جیسی بھی ہیں جتنی بھی دیر لگتی ہے انصاف میں۔پھر بھی رشورت خور اور حرام خور پولیس کے خلاف ایک اُمید بنی رہتی ہے۔ عوام کی اُمید کے اس آخری مرکز “عدالت” کو بخش دیں اور عدالتوں میں بیٹھے جج انسان ہی ہیں جج کا فیصلہ غلط ہو سکتا ہے لیکن اس فیصلے کو دوسری بڑی عدالت کالعدم قرار دیتے ہوئے پہلا فیصلہ دینے والے جج کو سزا نہیں دے سکتی کیونکہ جج اپنی دانست میں بہترین فیصلہ کرتا ہے۔ جج کی نیت پر شک شروع ہو گیا تو سارا ملکی نظام دھڑام سے گر جائیگا۔