گینگ وار کو کس نے بنایا ہے ، یہ سب جانتے ہیں ، خواجہ اظہار الحسن

 
0
318

کراچی جولائی24(ٹی این ایس) سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خواجہ اظہار الحسن نے کہا کہ کراچی کے حلقہ پی ایس ۔ 114کے ضمنی انتخابات میں گینگ وار پر دھاندلی کا الزام لگایا جا رہا ہے اور گینگ وار کو کس نے بنایا ہے ، یہ سب جانتے ہیں ۔ ہم 2018 ء کے انتخابات میں سارا قرض سود سمیت اتار دیں گے ۔ وہ پیر کو سندھ اسمبلی کے اجلاس میں پیپلز پارٹی کے نو منتخب رکن سعید غنی کی حلف برداری کے بعد خطاب کر رہے تھے ۔انہوں نے کہا کہ ہمارے دو سینئر ارکان نے نو منتخب رکن کو مبارک باد دے کر اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کیا ۔ شاید وہ ہماری اعلیٰ ظرفی غلط تھی ۔ سعید غنی نے اپنی تقریر میں ایم کیو ایم پر جو بھی الزامات لگائے ہیں ، وہ غلط ہیں ۔ اگر عبدالرؤف صدیقی کسی حلقے سے کامیاب رکن کو چار سال تک رلا سکتا ہے تو آپ کا بھی ہم پانچ مہینے تک پیچھا کریں گے ۔ معاملہ ابھی الیکشن ٹریبونل میں ہے ۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ سعید غنی کی سندھ اسمبلی میں ہونے والی تقریر کا نوٹس لے ۔ خواجہ اظہار الحسن نے کہا کہ حلقہ 114 میں جن یوسز سے ایم کیو ایم کے چیئرمین کامیاب ہوئے تھے ، وہاں پر پانی بند کر دیا گیا ۔ اگر میئر کراچی اور ڈی ایم سیز کے لوگ ساتھ نہ ہوتے تو پانی کے لیے لوگوں کو ترسایا جاتا ۔ انہوں نے کہا کہ یہاں پر گینگ وار کی بات ہوئی ۔ گینگ وار کو کس نے بنایا تھا ۔ کیا پیپلز پارٹی کے دور میں شناختی کارڈ دیکھ کر لوگوں کو نہیں مارا گیا ۔ ان کے صوبائی وزیر داخلہ نے ہزاروں لائسنس جاری نہیں کیے اور خود اعتراف کیا کہ ہم نے یہ کھیلنے کے لیے جاری نہیں کیے ہیں ۔ خواجہ اظہار الحسن نے کہا کہ جو لوگ کراچی کی بات کرتے ہیں ، انہیں لاڑکانہ کو دیکھنا چاہئے ، جہاں کے 88 فیصد لوگ گٹر کا پانی پینے پر مجبور ہیں ۔ یہ وہ حلقہ ہے ، جہاں سے بے نظیر بھٹو کامیاب ہوتی رہی ہیں ۔ لیاری آپ کا مرکز رہا ہے اور ہمیشہ آپ کے لیڈر الیکشن لڑتے رہے ہیں ۔ 2018 ء میں پیپلز پارٹی کا کوئی کارکن الیکشن لڑنے کی جرات کرے ۔ انہوں نے سعید غنی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہم 2018 ء کے انتخابات میں آپ کو سو د سمیت قرض لوٹا دیں گے ۔ جو لوگ ہماری پالیسیوں پر تنقید کرتے ہیں ، میں ان سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ آج بھی پیپلز پارٹی ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی پالیسی پر گامزن ہے ۔ ہم بھی بہت کچھ کہہ سکتے ہیں ۔ تاریخ بھری پڑی ہے لیکن ہم یہ نہیں چاہتے کہ سندھ کی دو اکائیوں کے مابین مفاہمتی پالیسی کو نقصان پہنچے ۔