امریکہ کو اپنی طاقت سے غزہ پر اسرائیلی حملے اور خون بہا روکنا ہوگا، صدر بائیڈن پر ڈیموکریٹس کا شدید دباؤ

 
0
208

 سید علی رضا: نیو یارک
Rsyed1877@gmail.com

                                 
      گزشتہ ایک ہفتے سے زائد عرصے سے بدترین اسرائیلی بمباری سے اس وقت غزہ فلسطین میں سینکڑوں کی تعداد میں معصوم بچے ، عورتیں اور مردوں نے جام شہادت نوش کیا ہے۔  

اس تکلیف اور رنج کا احساس جہاں میرے سمیت تمام امت مسلمہ کے ہر فرد کو بہت شدت سے ہوا ہے اور ان کی راتوں کی نینریں اڑی ہوئی ہیں ، بالکل اسی طرح ان شہیدوں کے خون نے امریکی ایوانوں کے درودیوار کو بھی ہلا کر رکھ دیا ہے ۔   

امریکی ایوانوں میں صدر بائیڈن کی اس ساری صورتحال کی خاموشی پر امریکی ڈیموکریٹس سینیٹرز کھل کر سامنے آگئے ہیں اور انہیں اپنی ہی پارٹی سے اختلاف کا سامنا ہو رہا ہے۔ 

“میں سمجھتا ہوں کہ صدر بائیڈن کا  اسرائیلی وزیراعظم بینجامن نیتن یاہو کو یہ کہہ دینا کافی نہیں کہ آپ جنگ بندی کریں ، اور اگر وہ اس بات پر یقین نہیں رکھتے تو یہ امریکہ جیسی سپر پاور کے لیئے ایک چیلنج سے کم نہیں اور ہمیں اپنی طاقت سے اسرائیل کو ہر صورت روکنا ہوگا ، غزہ میں معصوم بچوں اور عورتوں کا ناحق خون ہرگز قبول نہیں کریں گے ” ، سینیٹر کرس مرفی، عہدیدار براۓ سینیٹ سب کمیٹی، خارجہ امور

چوٹی کے ڈیموکریٹس کی جانب سے دباؤ مہم ، اسرائیل کی جانب پارٹی کے ردعمل کا تاثر دیتی ہے ، جس نے کئی دہائیوں کے بعد کیپیٹل ہل پر تیزی سے ہلچل مچا دی ہے، جبکہ فلسطینی مقاصد کی حمایت کو ایک سیاسی تیسری ریل کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔

 بہت سارے قانون سازوں نے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے ساتھ صبر کا دامن ہاتھ سے کھو دیا ہے ، ان کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت نے ان فلسطینیوں کے خلاف اقدامات اٹھائے ہیں جو تنازعات کے حل دو ریاستوں سے کم حاصل نہیں کرسکتے ہیں۔ 
بائیڈن مسابقتی ترجیحات کے درمیان پھنس گئے ہیں جب انہیں اپنی پارٹی کی طرف سے بڑھتے ہوئے غم و غصے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ 

 جبکہ دوسری جانب اسرائیلی وزیراعظم کا بیان بائیڈن کے لیئے سفارتی سطح پر پرشان کن ہے۔ “جنگ بندی کے لئے امریکہ کی زیرقیادت ایک دباؤ کو خطے میں امریکہ کے دیرینہ اتحادی کے لئے ایک سرزنش کے طور پر دیکھا جائے گا۔”  “نیتن یاھو، ” انہوں نے مزید کہا کہ دہشت گرد گروہ کے حالیہ راکٹ حملوں کا انتقام لینے کے لئیے غزہ میں خاص طور پر اس کی زیر زمین سرنگوں میں حماس کے خلاف اپنے ملک کی فوجی مہم جاری رکھوں گا۔”

 اس طرح دیکھا جاۓ تو اب تک امریکہ نے نیتن یاھو کے فضائی حملوں کا دفاع کیا ہے ، یہاں تک کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کو ویٹو کرتے ہوئے جنگ بندی کا مطالبہ بھی نہیں کیا۔

“مجھے شدید تشویش ہے کیونکہ میں کھلی آنکھوں سے تماشائی بن کر دونوں جانب معصوم بچوں کا خون بہا نہیں دیکھ سکتا ، اب ہمیں اس جنگ کو ہر صورت روکنا ہوگا ، لیکن فلسطین والے بہت بڑی تعداد میں مارے جا ریے ہیں ، جبکہ اسرائیل نے اپنے آرٹ آئرن ڈوم ڈیفنس سسٹم سے حماس کے راکٹ حملوں سے خود کو کو بہت حد تک محفوظ کیا ہے۔”

“سینیٹر ٹم کین”

امریکہ مشرق وسطی میں اسرائیل کو اپنا سب سے اہم حلیف سمجھتا ہے ، اور وہ اسرائیل کو ہر سال 3 بلین ڈالر سے زیادہ کی سیکیورٹی امداد بھیجتا ہے۔

 ناقدین نے بائیڈن کو اس تنازعے سے نمٹنے کے حوالے سے تنقید کا نشانہ بنایا ہے ، بہت سے لوگوں نے کہا ہے کہ ان کی انتظامیہ نے اسرائیل فلسطین کے معاملات کو ترجیح نہیں دی ہے اور فوجی تصادم بننے سے قبل مداخلت کے متعدد مواقع  کھو دئیے ہیں ۔

 پچھلے صدور ، بل کلنٹن سے لے کر بارک اوباما تک ، اسرائیل اور فلسطینیوں کے مابین امن معاہدے کی دلیل کے لئے اعلی سطحی سفیروں کو مقرر کیا تھا۔ 

 سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے داماد اور اعلی مشیر جیرڈ کشنر کو یہ ہدایت کی کہ وہ کوشش کریں ، جو انھیں امید تھی کہ یہ ایک پیش رفت اور پر امن تجویز ہوگی۔

لیکن ان کوششوں میں سبھی ناکام ہوچکے ہیں ، اور کچھ کا خیال ہے کہ بائیڈن کسی ایسے تنازعہ پر قیمتی خارجہ پالیسی کا سرمایہ خرچ نہیں کرنا چاہتے تھے جس میں انتہائی مہذب سفارت کاروں کو بھی مایوسی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

 “بائیں بازو کے رسالے یہودی کرنٹ کے بڑے ایڈیٹر ، پیٹر بیینارٹ ، نے پچھلے ہفتے ایک مضمون میں صدر بائیڈن کے لئیے لکھا ،” وہ ،   سب سے بڑھ کر ، اسرائیل کے ساتھ لڑائی نہیں لڑنا چاہتے ہیں جو ان کو اپنے گھر میں سیاسی طور پر مہنگا ثابت ہوسکتا ہے۔ ”

 اگرچہ ڈیموکریٹس نے یکساں طور پر اسرائیل کے حماس کی جارحیت کے خلاف دفاع کے حق کی حمایت کی ہے ، پھر بھی ان میں سے بہت سے لوگوں نے نیتن یاہو حکومت کو اپنی آبادکاری کی سرگرمیوں کے لئے سراسر غلط قرار دیا ہے۔  

انھیں مشرقی یروشلم کے پڑوسی علاقے شیخ جرح سے فلسطینیوں کی بے دخلی کرنے سمیت ، تشدد کے حالیہ پھیلنے کا پیش خیمہ سمجھا جاتا ہے۔

 سرکردہ ڈیموکریٹس نے ان اقدامات کو انسانی حقوق کی پامالی قرار دیا ہے اور بائیڈن سے نیتن یاہو کے زیرقیادت فضائی حملوں کے خلاف بولنے کا مطالبہ کیا ہے۔ 

 حالیہ تنازعہ اسرائیلی قانون سازوں کی طرف سے مخلوط حکومت تشکیل دینے کے لئے اندرونی جدوجہد کے دوران سامنے آیا ہے ، جس سے یہ قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں کہ نیتن یاہو ملک پر اپنا کنٹرول برقرار رکھنے کے لئے تازہ ترین تنازعہ کو استعمال کررہے ہیں۔

 دیگر نے اسرائیل کے لئے سالانہ امریکی امداد کا جائزہ لینے کا مطالبہ کیا ہے ، یہ ایک سخت اقدام ہوگا لیکن ابھی تک کیپیٹل ہل پر بہت کم حمایت حاصل ہے۔

  ذراۂع کے مطابق ، ڈیموکریٹس وائٹ ہاؤس پر عوامی دباؤ ڈالنے کے بجائے کچھ زیادہ بھی کرسکتے ہیں۔  ہاؤس فارن افیئرز کمیٹی کے ڈیموکریٹس نے پیر کی شب ملاقات کی ، اور انہوں نے اسرائیل کو اسلحہ کی فروخت میں تاخیر کے لئے سوچنے کا فیصلہ کیا جسے رواں ماہ کے شروع میں حتمی شکل دی گئی تھی۔ 

 بائیڈن انتظامیہ نے ڈیموکریٹس کو مزید اس وقت غصہ دلایا جب اس نے اس فروخت کو منظوری دے دی ، لیکن اس بات کا زیادہ امکان نہیں ہے کہ کانگریس اس وقت اسرائیل کی موجودہ فروخت کو روکنے کے لئے کسی نامناسب قرار داد کے ذریعے اسلحہ کی منتقلی روکنے کے لئے اپنے اختیار کا استعمال کرے گی۔

 سینئیر جون آسف (ڈی-گا) نے کہا ، “تشدد میں اضاف ، اسرائیل اور فلسطینی علاقوں میں عام شہریوں کی مسلسل موت ، جنگ بندی کے لئے مذاکرات کا مطالبہ کرتا ہے۔” 

 ان کے ساتھی ڈیموکریٹس نے کہا کے اب تک دو درجن سے زیادہ بچے “ ، اسرائیل اور فلسطینی علاقوں میں مر چکے ہیں۔  … ہماری اولین ترجیح قتل عام اور خون بہا کو روکنا ہوگا۔”