“ایک مہینے کا مسلمان”

 
0
243

تحریر: اعجازعلی ساغر اسلام آباد
Twitter: @SAGHAR1214

ابھی رمضان شریف شروع ھونے میں دو دن رہتے تھے بازاروں میں عوام کا جم غفیر تھا لوگ اشیائے خوردنوش خریدنے میں مصروف تھے بلکہ یوں کہوں کہ رمضان شریف سے ڈرے ھوئے تھے اور چیزیں لیکر اسٹاک کررہے تھے ایسی صورتحال ہر سال رمضان شروع ھونے سے پیدا ھوتی ہے ماہ مقدس شروع ھوتے ہی اشیائے خوردو نوش کی قیمتیں آسمان پر پہنچ جاتی ہیں انتظامیہ ہر سال کاروائیاں کرتی ہے مگر اس مہنگائی کے طوفان کو نہیں روک پاتی۔
میں لیٹ نائٹ آفس سے گھر آیا اور کچھ ضرورت کا سامان لینے قریبی مارکیٹ گیا سامان وغیرہ لیکر گھر کیلئے روانہ ھوا تو ایک سوزوکی پک اپ والے نے آواز دی میں نے مڑ کر دیکھا اس نے فروٹ وغیرہ رکھا ھوا تھا اور شاید وہ بھی گھر جانے کے موڈ میں تھا میں اس کے قریب گیا تو اس نے کہا صاحب آج فروٹس وغیرہ لےلو ورنہ رمضان شروع ھوتے ہی اس کے ریٹ ڈبل ھوجائیں گے میں نے سیب کا ریٹ پوچھا تو اس نے 100 روپے کلو بتایا اور ساتھ ہی مجھے باور بھی کروایا کہ اگر یہی سیب آپ پرسوں لینے آئیں گے تو 300 روپے کلو ملے گا میں نے خوف خدا کرو یار اتنا مہنگا کیوں؟ وہ کہنے لگا بھائی ھمیں اگر مہنگا سودا ملے گا تو ہم بھی آگے سے مہنگا بیچیں گے ناں میں نے اثبات میں سر ہلادیا اور گھر آگیا۔
دوسرے دن اتفاقاً یوٹیلٹی اسٹور جانا ھوا وہاں لمبی لائنیں لگی تھیں سستی چینی اور گھی کیلئے میں نے کچھ دیر ان کو بھی آبزرو کرنے کا فیصلہ کیا یوٹیلٹی اسٹورز جن پر غریب اور متوسط طبقے کیلئے حکومت نے سبسڈی دی ہے تاکہ وہ اس بابرکت مہینے میں مارکیٹ کی نسبت کم قیمت ادا کرکے ضرورت کی اشیاء خرید سکیں لیکن یہاں تو معاملہ ہی کچھ اور تھا یوٹیلٹی اسٹورز سے چمکتی دمکتی گاڑیوں والے گاڑیاں بھر کر سامان لیکر جانے لگے اسٹورز کا عملہ ان بڑی گاڑیوں والوں سے تو خندہ پیشانی سے پیش آرہا تھا لیکن جن افراد کیلئے یہ اسٹورز کھولے گئے تھے ان کیساتھ عملے کا رویہ کافی خراب تھا میں نے سوچا کہ ان کی شکایت ایم ڈی سے کرتا ھوں لیکن پھر یہ سوچ کر چپ ھوگیا کہ یہاں تو آوے کا آوا بگڑا ہے میں کس کس کی شکایت کرتا پھروں گا یہ کام انتظامیہ اور گورنمنٹ کا ہے لہذا میں نے ٹویٹ کرکے متعلقہ وفاقی وزیر اور انتظامیہ کو آگاہ کردیا وہ جانیں اور ان کے ملازمین جانیں۔
رمضان شریف شروع ھوتے ہی مسلمانوں نے کمائی کرنے کیلئے ریٹس ڈبل ٹرپل کردیے ہیں لیموں 500 روپے کلو ھوگئے ہیں خربوزے کا ریٹ 80 روپے سے یکدم 150 روپے ھوگیا ہے چکن بھی 315 روپے سے 440 روپے ھوگیا ہے۔ جبکہ دوسری طرف یہودیوں اور غیر مسلموں نے احترام رمضان میں تمام حلال چیزوں کے ریٹس 50 فیصد کم کردیے ہیں ھم بچپن سے دیکھتے آئے ہیں کہ جب بھی رمضان شریف شروع ھوتا ہے کوکا کولا اور پیپسی کے ریٹس کم ھوجاتے ہیں اسی طرح دوسری تمام اشیاء جوکہ غیر مسلموں کی ہیں ان کی قیمتوں میں خاطر خواہ کمی ھوجاتی ہے حقیقت میں مسلمان کون ہے ہم یا وہ؟ ہمارے پاس اب صرف لیبل رہ گیا ہے مسلمان ھونے کا باقی جذبہ ایمانی سے ھم عاری ھوچکے ہیں ہر وہ کام جو غیر مسلموں کے تھے وہ ہم نے اپنا لیے ہیں ھم قرآن صرف پڑھتے ہیں کبھی سمجھنے کی کوشش نہیں کی کہ ﷲ پاک اپنی پاک کتاب میں ھم سے کہہ کیا رہا ہے رشوت ستانی,جھوٹ,چوری,زنا اور سود سمیت ہر برا کام ھم میں پایا جاتا ہے ہم اپنی ہر عبادت کی تشہیر کرتے ہیں یعنی تب تک عبادت کو عبادت ہی نہیں سمجھتے جب تک لوگوں میں اسکی تشہیر نہ کرلیں نماز,روزہ,حج سمیت تمام عبادات کو سیلفی کے بغیر ادھورا سمجھتے ہیں اب تو جنازوں کا احترام بھی ختم ھوگیا ہے وہاں بھی اب سیلفیاں چلتی ہیں ھم الحاج تو بن گئے ہیں مگر انسانیت سے کوسوں دور ہیں میں صرف چھوٹی دی مثال دوں گا تحریک لبیک کے دھرنوں کی کیا اسلام اس کی اجازت دیتا ہے کیا لوگوں کی املاک کو نقصان پہنچا کر اور بیگناہ افراد کو مار کر کونسے اسلام کی تشہیر کررہے ہیں آپ مغربی دنیا کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اسلام کے ماننے والے متشدد ذہنیت کے مالک ہیں مغرب والے ھم داڑھی والا دہشت گرد کہتے ہیں آپ کے تشدد سے جو پولیس والے جاں بحق ھوئے کیا وہ مسلمان نہیں تھے کیا وہ روز محشر نبی کریم حضرت محمد مصطفیٰ صلیٰ ﷲ علیہ و آلہ وسلم سے شکایت نہیں کریں گے۔ ھمارا قانون اور انصاف کا نظام امیر کیلئے الگ جبکہ غریب کیلئے الگ ہے جبکہ کافر ملکوں میں امیر اور غریب کیلئے یکساں قانون ہے کچھ دن پہلے دنیا کے عدالتی نظام کے حوالے سے رپورٹ منظرعام پر آئی جس میں تمام کافر جج پہلے نمبروں پر تھے جبکہ جنتی ججوں کا آخری نمبر تھا۔ ھم صرف نام کے مسلمان رہ گئے ہیں رمضان شریف آتے ہی روزوں اور خصوصی عبادات کا اہتمام کرتے ہیں جبکہ ھمارے اندر کا کافر بھی ھمارے ساتھ ھوتا ہےصرف ایک مہینے میں ھم دکھاوا کرتے نظر آتے ہیں کہ بھئی ھم بڑے پارسا اور ﷲ والے ہیں آخر ھم کس کو دھوکہ دے رہے ہیں خود کو یا ﷲ کو۔
یہ باتیں بظاہر بہت کڑوی ہیں اور ھوسکتا ہے کہ میرے لیے بھی کوئی نہ کوئی فتویٰ تیار ھو لیکن مجھے سوائے ﷲ کے کسی کا ڈر نہیں ہے میں منافق بن کر زندگی نہیں گزار سکتا کیونکہ منافق کا درجہ کافر سے بھی نیچے ہے۔ آپ دنیا کے کسی بھی یورپی ملک چلے جائیں وہاں انسان تو انسان جانور کی جان کی بھی قدر ہے وہاں انسانوں کے حقوق کا تحفظ کیا جاتا ہے اور ایسی مثال قائم کی جاتی ہے کہ اپنے تو اپنے غیر بھی متاثر ھوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔اسلام ایک مکمل دین ہے اگر ھم اسلام کے اصولوں کے عین مطابق زندگی گزاریں تو دنیا بھی سنور جائے اور آخرت بھی ھمیں تو ایسا بننا چاہیئے کہ لوگ جب ھمیں دیکھیں تو وہ یہ کہنے پر مجبور ھوجائیں کہ جس نبی صلیٰ ﷲ علیہ و آلہ وسلم کا امتی اتنا اچھا ہے وہ نبی کیسا ھوگا۔ ھم اسلام سے بہت دور آچکے ہیں تبھی غیر ھم پر غالب آگئےہیں آج پوری دنیا میں مسلمانوں کی کیا حالت ہے دجالی قوتوں نے ھمیں چاروں طرف سے گھیر لیا ہے ھم سے عبادات چھین لی ہے ہم لوگ آپس میں ہی لڑتے رہ گئے ہیں اور ایک دوسرے کو ہی کافر ثابت کرنے پر تلے ھوئے ہیں جبکہ ھمارا دشمن ھمیں آپس میں لڑوا کر اور الگ الگ کرکے مار رہا ہے شام,عراق,افغانستان,ایران اور کویت جیسے ممالک ھمارے لیے مثال ہیں جب تک ھم آپسی لڑائیاں ختم نہیں کرتے تب تک ھمیں ایسے ہی مار پڑتی رہے گی اور ھم ایکدوسرے کو کافر کافر کرکے ماریں گے جبکہ ھمارا دشمن ھمیں مسلمان سمجھ کر مارے گا۔
ابھی بھی وقت ہے خدارا اکٹھے ھوجاؤ تمہارا اتحاد تمہارے دشمن کی تباہی ہے خدارا حضرت محمد مصطفیٰ صلیٰ ﷲ علیہ و آلہ وسلم کے دین کی طرف لوٹ آئیں تاکہ تمہاری دنیا اور آخرت دونوں سنور سکیں ھم جسطرح رمضان شریف میں غریب غرباء کا خیال رکھتے ہیں اگر ھم سارا سال خدا کے دیے ھوئے رزق سے ان کا حصہ نکالتے رہیں اور ان کی ضروریات کا خیال رکھیں تو کبھی بھی ھمیں پریکٹیکل لائف میں کوئی تکلیف نہ ھو۔
ھم اکثر سنتے ہیں کہ باہر کے ممالک میں جب کسی پر غربت آجاتی ہے یا اسکے مالی حالات خراب ہیں تو وہ اپنے گھر کے باہر دروازے پر کالا کوٹ لٹکا دیتا ہے اس کالے کوٹ کو غربت کی علامت سمجھا جاتا ہے لہذا وہاں کی کمیونٹی بغیر شرمندہ کیے اسکی ہیلپ کرتے ہیں اس طرح اس معاشرے سے غربت کا خاتمہ ھوتا ہے اگر ھم بھی کافروں کا یہی اچھا کام اپنا لیں تو کسی کو شرمندہ کیے بغیر ھم بھی اپنے ملک سے غربت کا خاتمہ کرسکتے ہیں تبھی کہتے ہیں کہ اگر دائیں ہاتھ سے کسی کی مدد کرو تو بائیں ہاتھ کو بھی پتہ نہ لگے۔
ھم اپنی روح کی تسکین کو چھوڑ کر چھوٹے چھوٹے کاموں سے رب کو راضی کرسکتے ہیں اگر ھم سے ﷲ اور اس کا رسول صلیٰ ﷲ علیہ وآلہ وسلم راضی ھوگئے ھم تو دنیا و آخرت دونوں سنوار گئے۔