“اگلا چیئرمین سینیٹ کون سنجرانی یا گیلانی..؟”

 
0
269

تحریر: اعجازعلی ساغر اسلام آباد
Twitter:@SAGHAR1214

سینیٹ الیکشن کے بعد اب اگلا معرکہ چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے چناؤ کا ہے جس میں عددی اعتبار سے اپوزیشن یعنی پی ڈی ایم کو اکثریت حاصل ہے سینیٹ الیکشن میں اپ سیٹ شکست نے تحریک انصاف اور خاص کر عمران خان کو بہت کمزور کردیا اور انہیں ایوان سے اعتماد کا ووٹ لینا پڑگیا اور انہوں نے 178 ووٹ لیکر اپوزیشن کا حساب بظاہر برابر کردیا۔ یہ اپوزیشن کی طرف سے اسلام آباد کی سینیٹ کی جنرل سیٹ جیتنے کا سیاسی جواب تھا اب اسکے بعد اگلا جوڑ توڑ چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کیلئے ھونا تھا۔ سینیٹ الیکشن میں اپوزیشن اتحاد کی جیت نے ان کے اس بیانیے کو دفن کردیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ الیکشن میں خلائی مخلوق مداخلت کرتی ہے اور من مرضی کے امیدواروں کو جتواتی ہے اس جیت کے بعد مسلم لیگ ن اور خاص کر میاں نوازشریف اور مریم نواز کا وہ بیانیہ دم توڑ گیا کہ فوج سیاست میں مداخلت کرتی ہے اور اپوزیشن کے رہنماؤں کو ٹیلی فون کرکے دھمکایا جاتا ہے کہ اپنی وفاداریاں بدل لو۔ اپوزیشن نے پچھلے کچھ ماہ سے حساس اداروں کو نشانے پہ لیا ھوا تھا تاکہ ان کو دباؤ میں لاکر اور طیش ان سے کوئی غیر آئینی کام کروایا جائے اور پھر انہیں کھل کر بدنام کیا جائے۔ بھارت اسرائیل امریکہ اور افغانستان نے اس حوالے پیسہ پانی کی طرح بہایا تاکہ پاکستان اور پاک فوج کو کمزور کیا جاسکے اور بھارت نے اس حوالے سے پوری کمپئین چلائی جس کا نیٹ ورک پچھلے دنوں پکڑا گیا ہے جس کا مقصد پاکستان اور پاک فوج کے بارے میں منفی اور جھوٹی خبریں چلوا کر اسے بدنام کرنا تھا۔ مودی اور سجن جندال جیسے لوگ وقت کے وزیراعظم میاں نوازشریف کے ذاتی دوست تھے جبکہ پاکستان کے ازلی دشمن,مولانا فضل الرحمن پاکستان میں تعینات امریکی سفیر کو کہتے ہیں کہ آپ مجھے وزیراعظم بنائیں پاکستان میں آپ کے ہر حکم پہ لبیک کہا جائے گا,محمود اچکزئی,محسن داوڑ,علی وزیر,اخترمینگل,اسفندیار ولی یہ وہ نام ہیں جوکہ دشمن عناصر کے مبینہ طور پر آلہ کار ہیں اور ان کے پیرول پہ ہیں اور یہی لوگ اپوزیشن کے سرکردہ ہیں۔ ایم کیو ایم جوکہ حکومتی اتحادی ہے اس کا کردار بھی مشکوک رہا ہےمگر ایم کیو ایم ٹوٹنے کے بعد کافی زیادہ چھانٹی ھوچکی ہے۔
اب ایک طرف تحریک انصاف اور اسکے اتحادی ہیں جس میں جی ڈی اے اور مسلم لیگ ق جیسی ریاست دوست سیاسی جماعتیں شامل ہیں جو نہ صرف ملکی سلامتی کے اداروں کا احترام کرتی ہیں بلکہ ان کیخلاف ہر طرح کی ہرزہ سرائی کیخلاف آواز بلند کرتی ہیں جبکہ دوسری طرف پوری پی ڈی ایم ریاست اور ریاستی اداروں کیخلاف زہر اگل رہی ہے آصف علی زرداری جن کو پاکستان میں مفاہمت کا بادشاہ کہا جاتا ہے ان کے بیٹے بلاول بھٹو زرداری اور ان کی جماعت پیپلزپارٹی کیطرف سے اداروں کیخلاف ہرزہ سرائی مسلسل جاری ہے اور اداروں کو نیوٹرل رہنے کا کہا جارہا ہے اور انہیں ایک طرح سے ڈرایا جارہا ہے جس طرح کی سیاست اس وقت پاکستان میں ھورہی ہے ایسی سیاست کی مثال شاید ہی کہیں ہمیں ملے۔ ہم اپنے ہی گھر کے چوکیدار کو خود راستے سے ہٹا کر چوروں اور ڈاکوؤں کو موقع دے رہے ہیں کہ وہ آکر ھمارا گھر لوٹ جائے۔
حکومت کی طرف سے چیئرمین سینیٹ کیلئے صادق سنجرانی جبکہ اپوزیشن نے متفقہ امیدوار یوسف رضا گیلانی کو بنایا ہے ان دونوں کے درمیان کانٹے دار مقابلہ ہے بظاہر یوسف رضا گیلانی کی جیت واضح نظر آرہی ہے یعنی گیلانی کی جیت اپوزیشن کی 11 جماعتوں کی جیت ھوگی اور بقول مریم نواز صاحبہ کے کہ ھمارا مقابلہ عمران خان سے نہیں بلکہ خلائی مخلوق سے ہے گیلانی کی بطور چیئرمین سینیٹ جیت تحریک انصاف کیلئے سیاسی موت ثابت ھوگی اور عمران خان کو اقتدار چھوڑنا پڑے گا۔
صدر مملکت کے کسی بھی بیرونی دورے یا چھٹی کی صورت میں چیئرمین سینیٹ قائمقام صدر کے فرائض سرانجام دیتا ہے اور افواج پاکستان صدر پاکستان کی تابع ھوتی ہیں اس صورت میں وہ اپوزیشن افواج پاکستان اور ریاست کیلئے کتنی خطرناک ثابت ھوگی اس کا انداز عام آدمی نہیں کرسکتا لہذا نادیدہ قوتیں کسی صورت بھی نہیں چاہیں گی کہ کوئی ایسا شخص ان کا سپریم کمانڈر بنے جس کا دامن داغ دار ھو یا جس سے اس ملک کی بقاء کو خطرہ ھو لہذا یوسف رضا گیلانی کی جیت کے امکانات بہت کم ہیں 12 مارچ حساب کتاب کا دن ھوگا جس میں پچھلے حساب برابر کیے جائیں گے حکومت اور اپوزیشن اپنی طرف سے پورا زور لگائے گی اپوزیشن کا بیانیہ دم توڑے گا یا پھر حکومت کو ایک اور سیاسی شکست کا سامنا ھوگا صادق سنجرانی چیئرمین سینیٹ بنیں گے یا سید یوسف رضا گیلانی اس کا فیصلہ 12 مارچ کو ھوجائے گا..!!