وزیراعظم ، میر شکیل الرحمٰن اور عمران خان

 
0
563

عمران خان صاحب! آپ سے گزارش ہے کہ اپنے وزیر اعظم کو سمجھائیں کہ ملک و قوم کو “چوہدری کورونا” ایسی عالمی وباء کا سامنا ہے ذاتی رنج، رنجش اور غصے سے بالاتر ہو کر اس وبا کامقابلہ کریں- جہاں دیگر مقدمات میں رہائیاں کی جارہی ہیں وہاں میر شکیل الرحمن کو بھی رہا کر دیں۔ بہت مسئلہ ہے تو اپنی انکوائری جاری رکھیں۔ میر شکیل الرحمن بھاگ نہیں سکتے اور نہ ہی زیر تفتیش “مال مقدمہ” کہیں مُنتقل ہو سکتا ہے۔ پراپرٹی یہیں رہے گی۔ لہذاعمران خان صاحب! اس قومی بحران میں اپنے وزیراعظم کو سمجھائیں کہ وہ بیعت اور انتقام کی “رَٹ رُٹ اور رِٹ رُٹ” کی گردان یاد کرے اور نہ یاد کرائے۔ زبردستی بیعت کروانے والوں نے کربلا برپا کیا تھا لیکن بیعت نہ کی گئی اور رٹ قائم کرنے کے چکر میں لاکھوں مربع میل کا حکمران “مسلط خلیفہ” یوم الدین تک کے لیے تاریخ کا بدترین کردار بن کر رہ گیا۔

آج کتنے لوگ اُن عُلماء کا نام جانتے ہیں جنہوں نے امام عالی مقام حسین علیہ السلام کے خلاف فتوٰی دیا تھا چند روزہ زندگی بڑھا کر اپنی ابدی زندگی خراب کرنے والے دربارِ یزید کے یہ وظیفہ خوار وہ عُلما تھے جن کا تعلق بھی قرونِ اولی سے تھاجبکہ یزید کو امام حسین کے خلاف کارروائی کا جواز فراہم کرنے والے اکثر عُلماء وہ تھے جنہوں نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے سامنےزانوئےتَلَمُّذ تہہ
کیا
تھا آج اُن علماء کا نام کوئی نہیں جانتا لیکن یزید کا نام سب کو آتا ہے اور سبھی یزید سے نفرت کرتے ہیں اِتنی نفرت کہ کوئی مسلمان یہ نام رکھنا پسند نہیں کرتا۔ مسلمانوں کی تاریخ کا یہ بدنام ترین نام ہے۔
عمل نے نام کو بھی بدنام کر دیا حالانکہ قتل تو شمر نے کیا تھا پھر بھی زیادہ بدنامی اور نفرت
یزید کے حصے میں آئی۔
لہذا جب جب نا انصافی ہو گی اور جہاں جہاں ناانصافی ہو گی تو ذمہ دار حُکمران ہوگا۔ جنرل جنگ نہیں لڑتے وہ تو لشکر ترتیب دیتے ہیں میمنہ میسرہ، یمین و یسار ، ہراول اور عقب کے دستے کب، کہاں اور کیسے لڑانے کا فیصلہ کرتے ہیں فوجیں لڑتی ہیں سپاہی مرتے اور کٹتے ہیں لیکن فتح اور شکست جنرل کے کھاتے میں آتی ھے دُنیا اور تاریخ نے یہ دستور کیوں طے کیا کیونکہ میدان جنگ میں کھڑا کوئی سپہ سالار ہو یا مُلک و قوم کے فیصلے کرنے والا کوئی حُکمران ۔ اُس کا ایک صحیح اور غلط فیصلہ جنگ اور قوموں کی تقدیر بدل دیتا ہے اس لیے گزارش ہے کہ میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری کا فیصلہ جس نے بھی کیا ہو لیکن یہ ساری بدنامی وزیراعظم کے کھاتے میں جا رہی ہے لہذا عمران خان صاحب! آپ سے گزارش ہے کہ اپنے وزیراعظم کو سمجھائیں کہ وہ یزید کی ڈگر پر نہ چلے۔ اس میں تاریخ کی نفرت اور بدنامی کے سوا کچھ نہیں۔

جو نیب میر شکیل کے خلاف کارروائی کر رھا ہے اُس کا خمیر ہی بدنیتی اور بددیانتی پر کھڑا کیا گیا تھا بینظیر کی جمہوری حکومت کو رُخصت کرنے والے احسان فراموش فاروق لغاری نے نگران حکومت سے یہ ادارہ بنوایا تھا حالانکہ نگران حکومتوں کے پاس ادارے بنانے کا اختیار ہی نہیں ہوتا نگران تو “ڈے ٹو ڈے آفیئرز” چلانے کے لیے بنائے جاتے ہیں تاکہ ملک کا نظام تعطل کا شکار نہ ہو۔ لیکن اُس نگران حکومت نے “احتساب سیل” کے نام سے ایک غیر آئینی اور غیر قانونی ادارہ قائم کیا جس کو نواز شریف نے اپنے مبینہ فرںٹ مین سیف الرحٰمن کے حوالے کر دیا اور اس “ سیل” کو اپنے سیاسی حریفوں سے انتقام لینے کے لیے بھرپور استعمال کیا اب تو اُس انتقام کا ساتھ دینے والے جج کی آڈیو بھی منظر عام پر آ چُکی ہے اور جسٹس عبدالقیوم کا کیرئیر بھی اسی الزام کے ہاتھوں ختم ھوا ۔ احتساب سیل کے اُسی انتقامی ڈھانچے پر نیب کی بنیاد رکھی گئ۔ لیکن قوم کو عمران خان سے تو ایسے انتقام اور “ہتھکنڈوں” کی اُمید نہ تھی۔ دھرنے کے دوران جذبات میں آکر جنگ، جیو اور میرشکیل کو اگرچہ للکارا بھی گیا پھر بھی قوم کو آپ
سے اُمید تھی کہ آپ نیلسن مینڈیلا کی طرح سب بُھول جائیں گے اور ایک قومی یکجہتی قائم کرکے ملک کو آگے لے جائیں گے لیکن بدقسمتی سے آپ کا ذہن بھی اُن “اوچھے” ہتھکنڈوں میں اُلجھا دیا گیا جو ماضی میں ناکام اور بدنام ہو چُکے ہیں۔ لہذا عمران خان صاحب! آپ سے گزارش ہے کہ اپنے وزیراعظم سے کہہ کر نیب کا انتقامی استعمال بند کروائیں۔
ظُلم کے بطن سے ظُلم ہی جنم لیتا ہے اور ہر انتقام کا بھی انتقام لیا جاتا ہے ناانصافی کی بُنیاد پر کیے گئے فیصلے اپنے ہی گلے کا طوق بن جاتے ہیں اِس دُنیا میں بھی ذلت مقدر بنتی ہے اور آخرت کا میزان تو پُورا پُورا تول دے گا اس لیے ظُلم اور انتقام کا سلسلہ اب تھمنا چاہیئے ۔ بِلاضرورت “سرتاپا” انکوائریوں کا سلسلہ ختم کیا جائے۔ ماضی میں یہ سارے حربے آزمائے جا چُکے ہیں لیکن پھر بھی نواز شریف وزیراعظم بن گیا زرداری کو “مردِ حُر اور پاکستان کا نیلسن مینڈیلا” کہا گیا اور صدارت کے منصب پر بٹھایا گیا نیب زدہ گیلانی نے بڑے ہی طمطراق کے ساتھ وزیراعظم کی شیروانی پہنی۔ اگر نیب کے کیس ٹھیک تھے تو یہ کال کوٹھڑیوں کے ایندھن ملک و قوم کے سیاہ و سفید کا فیصلہ کرنے والے “سنگھاسن” پر کیسے بیٹھ گئے ۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ نیب میں بیٹھے لوگ نالائق ہیں اور زیر اثر بھی۔ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے اسی لیے کیس ثابت بھی نہیں ہو پاتے ۔ اِس مُلک میں کیا نہیں ہوا ۔ مادر مِلت کو طاقت کے زور پر “غدار” کہا گیا اور گوجرانوالے کے ایک پالشیے نے تو ایک “جانور” کے گلے میں سلیٹ لٹکا رکھی تھی جس پر فاطمہ جناح لکھا تھا اُس “ماں کے نافرمان” نے فاطمہ نام کی نسبت کا بھی خیال نہ کیا اور نہ اس بات کہ مادر ملت تو بانئِ پاکستان حضرت قائداعظم رحمۃاللہ علیہ کی وہ بہن ہیں جس نے اپنی زندگی حصول پاکستان کی نذر کردی لیکن اس سب کے باوجود مادر ملت کا دن منایا جاتا ہے اور اُس طاقت والے ایوب خان کی قبر پر کوئی فاتحہ بھی نہیں پڑھتا۔ سمجھ نہیں آتی کہ ایسا کیوں ہوتا ہے طاقت آتے ہی انسان اندھا کیوں ہو جاتا ہے ۔ وہ دوسروں کے مقام و مرتبہ کی پرواہ بھی نہیں کرتا۔ بُھول جاتا ہے کہ اُس کے سامنے میرشکیل الرحمٰن نہیں بلکہ اسی سالہ جدوجہد کی تاریخ کھڑی ہے جس نے انگریز سے مقابلہ کرتے ہوئے بُزدلی نہیں دکھائی میر خلیل الرحمٰن نے روزنامہ جنگ کو تحریک پاکستان کے لی وقف کر دیا تھا جس کی پاداش میں انہیں انگریز کی قید میں بھی رہنا پڑا لیکن وہ پھر بھی “لے کی رہیں گے پاکستان اور بٹ کے رہے گا ہندوستان” لکھتے رہے پاکستان بننے کے بعد بھی روزنامہ جنگ اور “میر فیملی” نے بہت نشیب و فراز دیکھے لیکن جنگ نے اپنا سفر جاری رکھا۔ اپنے دوسرے دور حکومت میں نواز شریف نے میرشکیل الرحمٰن کو اپنی بیعت کا کہا اور انکار پر روزنامہ جنگ کو انتقام کا نشانہ بنایا لیکن میر صاحب ڈٹے رہے اور سُرخرو ٹھہرے ۔ اب بھی جب چوبیس دسمبر کو روزنامہ جنگ کے اشتہاروں پر شب خون مارا گیا تو جنگ نے ہار نہیں مانی اور میرشکیل نے ہر انکوائری پر حاضری کو یقینی بنایا۔ بے گناہ گرفتاری یوسف علیہ السلام کی سنت ہے باپ ہندوؤں کے دیس میں پاکستان کی آزادی کے نعرے لگاتا رھا اور بیٹا “مدینے” میں قید ہو کر جمہور، جمہوریت اور آزادئِ صحافت کا علم سربلند کر رھا ہے۔ لہذا عمران خان صاحب! آپ سے گزارش ہے کہ اپنے وزریراعظم کو سمجھائیں وہ میر شکیل الرحمٰن، جنگ اور جیو سے تو لڑ سکتا ہے لیکن “میر فیملی” کی اسی سالہ جدوجہد اور تاریخ سے مقابلہ نہیں کر سکتا اور نہ ہی آزادئِ صحافت کے نعروں کو روک سکتا ہے۔ اُس شرمندگی سے بچیں جس کا اظہار نواز شریف کو کرنا پڑا تھا یہ کہتے ہوئے کہ “میر صاحب! میں شرمندہ ہوں مجھے جنگ اور آپ کے ساتھ یہ سلوک نہیں کرنا چاہیئے تھا” لیکن نواز شریف کو حیرت کا جھٹکا تو اُس وقت لگا جب میر شکیل نے کہا میں “ماضی سے سبق سیکھتا ہوں ماضی کی پرستش نہیں کرتا میں وہ سب بُھول گیا ہوں آپ بھی بُھول جائیں” اور پھر سب نے دیکھا کہ جنرل پرویز مُشرف کی رُخصتی میں جنگ اور جیو نے نوازشریف کا کُھل کر ساتھ دیا اور جمہوریت کا ساتھ نبھایا۔
لہذا عمران خان صاحب ! آپ سے گزارش ہے کہ اپنے وزیراعظم کو یاد دلائیں کہ وہ احسان فراموشی نہ کرے ۔ جب آپکو کوئی پوچھتا نہیں تھا تب بھی جنگ کے صفحات اور جیو کے پرائم پروگرام اُس کو بھرپور کوریج دیتے تھے حالانکہ مشرف کا بہت پریشر تھا۔لیکن میر شکیل الرحمن نے آزادی صحافت پر سمجھوتہ نہیں کیا ۔ لہذا عمران خان صاحب! آپ سے گزارش ہے اپنے وزیراعظم کو سمجھائیں کہ جب یکجہتی کہ ضرورت ہو ملک و قوم کو بحران درپیش ہو عوام الناس کو رہنمائی کی ضرورت ہو تو آزادی صحافت کے سب سے بڑے علمبردار کو قید میں رکھنا قومی مفاد میں نہیں ہوتا۔