وزیرخارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کا فلسطین پر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے خصوصی (ہنگامی) اجلاس سے خطاب

 
0
120

نیویارک 20 مئی 2021 (ٹی این ایس): جناب صدر، عزت مآب حاضرین، خواتین وحضرات

1۔ قوموں کی زندگی میں ایسے مرحلے آتے ہیں جب ان کے فیصلے آنے والی نسلیں یاد رکھتی ہیں۔

2۔ آج ایک ایسا ہی موقع اور مرحلہ ہمیں درپیش ہے۔

3۔ آج ہم جوکرتے ہیں یا نہیں کرتے، سب تاریخ میں لکھا جائے گا۔

4۔ اسرائیل اپنے غرور اور تکبراور قانونی کارروائی سے استثنی کی بناءفلسطین کے محصور اور مقید لوگوں پر لامتناہی حملوں کا سلسلہ شروع کئے ہوئے ہے۔

5۔ آج اس وقت جب ہم یہاں اظہار خیال کررہے ہیں، فلسطین میں بچوں اور خواتین کو شہید کیاجارہا ہے اور اس کی وجہ بننے والوں کو کوئی پوچھنے والا نہیں۔

6۔ اسرائیلی حملوں میں ایک ہفتے کے دوران 250 سے زائد فلسطینی شہید جبکہ ہزاروں زخمی ہوچکے ہیں۔ ان میں سے ایک تہائی تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔

7۔ غزہ کے ہر گھر میں اس وقت صف ماتم بچھی ہے اور ہر طرف موت کا سایہ ہے۔ اسرائیلی فضائی حملے ابوحاطب کے خاندان کے ہر فرد کی موت کے ذمہ دارہیں۔ اس خاندان کے شہداءمیں دو خواتین اور آٹھ بچے شامل ہیں۔

8۔ ایک لمحے کے لئے اس صورتحال کاتصور کیجئے۔
9۔ غزہ اور فلسطین کے دیگر علاقوں میں ہر گھنٹے میں ایسے بہیمانہ سانحات رونما ہورہے ہیں اور ایسے ہزاروں واقعات ہوچکے ہیں۔

10۔ اب تک 10 ہزار فلسطینی غزہ سے اپنا گھر بار چھوڑ کر نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوچکے ہیں۔ پینے کے پانی، خوراک، حفظان صحت اور صحت کی سہولیات تک انہیں محدود نوعیت کی رسائی میسر ہے۔ ہسپتال اور فراہمی آب کے علاوہ نکاسی کی خدمات کا تمام تر انحصار بجلی کی فراہمی پر ہے اور اس ضمن میں ایندھن تقریبا ختم ہوچکا ہے۔

11۔ غزہ ہر لحاظ سے اس وقت اندھیرے میں ڈوبا ہوا ہے ۔ واحد روشنی ان دھماکوں سے ہورہی ہے جو اسرائیل ان پربموں کی صورت برسارہا ہے۔

12۔ یہ ہے فلسطین جہاں اسرائیل پوری دنیا کی آنکھوں کے سامنے بے گناہ فلسطینیوں کو شہید و دہشت زدہ اور میڈیا کی زبان بندی کرنے کے لئے فضائی حملوں میں عمارات کو زمین بوس کررہا ہے۔

13۔ اس ظلم سے اب جان چھڑانے کا وقت آگیا ہے۔

14 فلسطینی عوام کی آواز کو دبایا نہیں جاسکتا اور نہ ہی انہیں خاموش کرایا جاسکتا ہے۔ ہم اسلامی دنیا کے نمائندے یہاں ان کے حق کی بات کرنے آئے ہیں، آج ہم ان کے لئے بول رہے ہیں۔

جناب صدر

15۔ یہ خوفناک امر ہے کہ سلامتی کونسل عالمی امن وسلامتی کے قیام کی اپنی بنیادی ذمہ داری انجام دینے کے قابل نہیں۔ سلامتی کونسل جنگ بند کرنے کا مطالبہ کرنے میں بھی ناکام رہی ہے۔ کونسل کو اس کے کام سے روکنے والوں پر بھاری ذمہ د اری عائد ہوتی ہے۔

16۔ ان حالات میں جنرل اسمبلی کو اپنا فرض ادا کرنا ہوگا۔ اس نازک مرحلے پر ہمیں فلسطینی عوام کو مایوس نہیں کرنا۔

جناب صدر
17۔ ہماری پہلی ترجیح یہ ہونی چاہئے کہ اسرائیل اپنی جارحیت روکے۔ مجھے امید ہے کہ اس اہم گھڑی سلامتی کونسل اسرائیل کواپنے حملے روکنے کے لئے کہے گی۔ اگر سلامتی کونسل یہ کام نہیں کرتی تو جنرل اسمبلی کو پوری عالمی برادری کی جانب سے یہ مطالبہ کرنا چاہئے۔

جناب صدر !

18۔ ہمیں واضح پیغام دینا ہے۔ محصور اور مقید فلسطینیوں کا اسرائیلی جنگی مشین کے مقابلے میں کوئی اخلاقی یا فوجی مقابلہ یا موازنہ نہیں۔ دونوں میں کوئی برابری نہیں۔ فلسطین کے پاس نہ کوئی بری فوج ہے، نہ بحریہ ہے اور نہ ہی کوئی فضائیہ ہے۔ دوسری جانب اسرائیل ہے جو دنیا کی طاقور ترین فوجی قوت کا حامل ہے۔ یہ جنگ قابض فوج اورمقبوضہ عوام کے درمیان ہے۔ یہ غیرقانونی قبضے اور استصواب رائے کی جائز جدوجہد کے درمیان لڑائی ہے۔

19۔ اس تناظر میں یہ امر قابل ذکر ہے کہ نومبر 1970 میں جنرل اسمبلی کی قرارداد 2649 میں اسی ایوان نے ”نوآبادیاتی اور غیرملکی جبروتسلط میں رہنے والے عوام کے استصواب رائے کے حق اور اس کی بحالی کی جدوجہد میں ہر دستیاب ذریعہ بروئے کار لانے کے جائزہونے کو تسلیم کیا“ اور اس کی تائید کی ہے

20۔ دوم، ہمیں ہرممکنہ طورپر تمام انسانی امداد غزہ اور دیگر مقبوضہ علاقوں کی تباہ حال فلسطینی آبادی کے لئے فوری روانہ کرنی چاہئے۔

مزیدبرآں جنرل سیکریٹری ’یو۔این۔آر۔ڈبلیو۔اے‘ (UNRWA) ہنگامی امداد کی اپیل کریں تاکہ فلسطینیوں کے لئے خوراک اور دیگر اشیائے ضروریہ کی فراہمی ممکن ہوسکے۔ غزہ اور دیگر مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں طبی ٹیموں، ادویات اور دیگر سامان بھجوانے کی ضرورت ہے۔ ہم غزہ تک راستے کی فراہمی کے مصر کے اقدام کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ اسرائیل غزہ کے تمام راستے کھولے تاکہ عالمی امداد کی فوری اور بروقت فراہمی ممکن ہوسکے۔

21۔ سوم، جنرل اسمبلی کو فلسطینیوں کے تحفظ کے لئے ٹھوس اقدامات کرنے چاہئیں۔ ہمیں ایک عالمی محافظ فوج تعینات کرنی چاہئے جیساکہ جنرل اسمبلی کی قرارداد ’ای۔ایس۔10 / 20 اور 18 مئی 2018 کو اسلامی سربراہی کانفرنس نے مطالبہ کیا تھا۔

22۔ اگر سلامتی کونسل محافظ فوج بھجوانے سے اتفاق نہیں کرتی تو اس تجویز سے ”اتفاق کرنے والوں کا اتحاد‘ قائم کیاجاسکتا ہے جو کم ازکم حملوں اور کارروائیوں کی سویلین مبصرین کے ذریعے نگرانی کرے اور فلسطینیوں کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کی فراہمی کی سرپرستی کرے۔
23۔ چہارم، جنرل اسمبلی کو اسرائیلی زورزبردستی اورجبر کے ذریعے یروشلم کے ضلع الجراح سمیت فلسطینیوں سے ان کے گھروں کو خالی کرانے اور جاری یہودی آباد کاری کے غیرقانونی اقدامات، رمضان المبارک کے دوران مسلمانوں کے قبلہ اول الحرم الشریف اور مسجد اقصی میں فلسطینی نمازیوں پر حملوں، اسرائیل کی غزہ پر بمباری، بلاامتیاز اورحشیانہ حملوں کی مذمت کرنی چاہئے۔

26۔ پنجم، ہمیں فلسطینی علاقوں پر اسرائیلی قبضہ سے واگزار کروانے ، غیرقانونی آبادکاری کو مسمارکرنے اور مقبوضہ علاقوں میں اسرائیلی حکومت کی نافذ کردہ نسلی امتیاز وتعصب کو ختم کرنے کے لئے ٹھوس اقدامات کی بحالی کرنا ہوگی۔ جنرل اسمبلی نومبر1967 کی قرارداد 242 پر غیرمشروط عمل درآمد یقینی بنایا جائے جس میں ”جنگ کے ذریعے علاقے کو اپنے قبضے میں لینا ناقابل قبول“ قرار دیتے ہوئے اسرائیل سے مطالبہ کیا گیاکہ 1967 کی جنگ میں قبضہ کردہ علاقوں سے اپنی مسلح افواج کا انخلاءکرے۔ لہذا یہ امر نہایت ناگزیرہے کہ القدس الشریف دارالحکومت کی حامل ایک قابل عمل، خودمختار اور متحد وجود رکھنے والی فلسطینی ریاست کے قیام کے لئے سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی کی قراردادوں پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے۔ پاکستان (فلسطینی) صدر محمود عباس کے اس مطالبے کی حمایت کرتا ہے کہ (مسئلہ کے) پرامن حل کے لئے عالمی کانفرنس بلائی جائے۔