ووٹنگ مشین کے استعمال کے اعلان پر ھنگامہ کیوں؟( اندر کی بات )

 
0
514

کالم نگار: اصغرعلی مبارک
الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے معاملے پر الیکشن کمیشن آف پاکستان اور تحریک انصاف کی حکومت کے وزراء آستین چڑھا کر آمنے سامنے آگئے الیکشن کمیشن کے آفیشل ٹوئٹر سے ووٹنگ مشین فراڈ کی ویڈیو شیئر کرنے کے دوگھنٹے بعد ھٹا دی گئی لیکن جو ھنگامہ ہونا چاہیے تھا وہ ہو گیا اور حکومت نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ذمہ داروں سے وضاحت طلب کر لی ۔ٹوئٹر اکاؤنٹ سے شیئر کی گئی ویڈیو میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال پر تنقید کی گئی اور بعد ازاں کہا گیا کہ یہ غلطی کا نتیجہ تھی ۔اور بیس مئی کے موقف کو آفیشل تصور کیے جانے کا اشارہ دیا گیا لیکن سوال یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کے آفیشل اکاؤنٹ سے متنازعہ ویڈیو کس نے شیئر کرنے کی آفیشل جرات کی ایسے مواد کو تسلسل سے کون شیئر کر رہا ہے اور کیا الیکشن کمیشن کا آفیشل اکاؤنٹ حکومت مخالف افراد کے قبضہ میں ہے حکومت کا موقف ہے کہ ابھی معاملہ پارلیمنٹ میں پیش کیا جانا ھےتوایسے میں مشین کو فراڈ قرار دینا حکومتی مشینری کی توہین ہے جنہوں نے کافی عرصہ کی محنت سے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کی انسٹالیشن مکمل کرکے پارلیمنٹ کے صدر دروازے پر ڈیموسٹریشن پیش کر کے اس کی اہمیت وافادیت کے بارے میں پارلیمنٹیرین کو اعتماد میں لیا ۔راقم الحروف اصغر علی مبارک سابق امیدوار برائے قومی اسمبلی کی حثیت سے اس وقت سے قومی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لے رہا جب بڑی بڑی سیاسی جماعتوں نے جنرل پرویز مشرف کے دور میں الیکشن سے بائیکاٹ کیا اور ان سال 2008 کا وہ الیکشن بھی ہے جس موجودہ حکومت نے الیکشن میں حصہ نہ لیا اور اس الیکشن میں دھاندلی کے الزامات کو لے کر راقم الحروف کوالیکشن ٹربیونل اور سپریم کورٹ کے روبرو پیش ہونے کا موقع ملا ۔ اس کے علاوہ قومی اسمبلی انتخابات سال 2013 میں ایم ایم اے کے ٹکٹ سال 2018 این اے 62 عام انتخابات میں پاکستان عوامی لیگ کے ٹکٹ پر شیخ رشید احمد ,اور ضمنی انتخابات قومی اسمبلی 2018 این اے 60 راولپنڈی میں شیخ رشید کے بھتیجے کے مقابلے میں الیکشن میں حصہ لیا ۔سال 2018 بعد ازاں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت قائم ہونے کے بعد ضمنی انتخابات میں شیخ راشد کی کامیابی کے لئے غیر مشروط اتحاد کیا ,ان انتخابات نے سٹریٹ پالیٹکس کے گر اور انتخابی عمل کے اسرار و رموز سے متعلق خوب آگاہ کیا جس کے نتیجے میں یہ بات واضح کرنا چاہتا ہوں کہ پاکستان میں الیکشن کے نتائج سے دھاندلی کا الزامات اور الیکشن جھرلو سے بچنے کے لیے پاکستان کے تمام انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین ناگزیر ہے ۔قارئین کرام؛ الیکشن میں جیتنے والا کیسے ھارجاتا ھےاس کا عملی مظاہرہ راقم الحروف کو اپنے والد محترم ڈاکٹر مبارک علی کے 2002 کے بلدیاتی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد معلوم ہوا ڈاکٹر مبارک علی مرحوم کوکامیابی کے بعد ری کاونٹنگ کے نام پر لال حویلی کے امیدوار کو کامیاب قرار دلوایا گیا جو لال حویلی میں بعد ازاں شیخ رشید احمد کا سکریٹری بھی بنےمجھے اٹک میں قائم کیے گئے ڈسٹرکٹ وسیشن جج صاحب کے روبرو راولپنڈی انتخابات کے نتائج پر انصاف کے لیے جانا پڑا لیکن آخر میں جیت طاقت کی ہوئی اور پھر ہر الیکشن میں مافیا کے خلاف کھڑا رہنے کا فیصلہ کیا یہ سب کچھ بتانے کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان میں انتخابی عمل کو صاف وشفاف بنانے کے لیے انتخابی نتائج پر امیدواروں کی جانب سے نتائج کو قبول کرنے کے قانون سازی ناگزیر ہے یہ درست ہے کہ پاکستان کا سیاسی نظام اتنا بدبو دار ہو چکا ہے کہ عام آدمی الیکشن میں حصہ لینے کا سوچ بھی نہیں سکتا نسل در نسل ذاتی میراث سمجھ کر سیاست میں حصہ لینے والے اس ملک کے ان داتا بن بیٹھے ہیں اور کرپٹ سسٹم ان کرپٹ سیاستدانوں کو بھی خوب بھاتا ہے جب تک دلیرانہ فیصلے نہیں ہونگے اور الیکشن کمیشن غیر جانبدار نہیں ہو گا پاکستان میں آزاد ۔منصفانہ اور شفاف انتخابات صرف ایک نعرہ ہی ھوسکتا ہے خود الیکشن کمیشن کے آفیشل اکاؤنٹ سے متنازعہ ویڈیو اپلوڈ ھونگی تو ایسے اداروں پر تو انگلیاں اٹھیں گی ۔سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں راقم الحروف کو بھارت کے انتخابات کے دوران الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال کا مشاہدہ کرنے کا اتفاق ہوا ۔جس کے نتیجے میں پاکستان میں اس سسٹم کو رائج کرنے کے لیے آواز بھی اٹھائی جس پر اللہ اللہ کرکے عمل درآمد کرانے کا خواب پورا ہوتا نظر آرہا ہے اورسیز پاکستانیز کو الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال سے ووٹ دینے کا حق حاصل ہو جائے گا اور دھاندلی ۔جھرلو اور الیکشن چوری کرنے کے الزامات بھی عائد نہیں کیے جا سکیں گے مگر شاید پاکستان میں صاف ستھری سیاست چند لوگوں کو پسند نہیں جس پر وہ واویلا مچا رہے ہیں ۔رپورٹ کے مطابق لیکٹرانک ووٹنگ مشین کے حوالے سے صحافی طلعت حسین کے یوٹیوب چینل پر کیے گئے پروگرام کوالیکشن کمیشن آف پاکستان کے ٹوئٹر ہینڈل سے ٹویٹ کر دیا گیا تاہم کچھ دیر بعد ٹویٹ کو ڈیلیٹ کیا گیا۔پروگرام کا ٹائٹل ’ووٹنگ مشین ایک مہنگا فراڈ فارمولا؟‘ تھا جسے ویڈیو شیئر کرتے ہوئے کمیشن کے ہینڈل سے بھی ٹویٹ کیا گیا۔الیکشن کمیشن کی ٹویٹ کے فوراً بعد وفاقی حکومت نے اس پر ردعمل کا اظہار کیا۔ تحریک انصاف کے رہنما اور وزیر مملکت برائے اطلاعات فرخ حبیب نے کہا ہے ’الیکشن کمیشن کے اکاؤنٹ سے کی گئی غیرذمہ دارانہ ٹویٹ پر چیف الیکشن کمشنر کو وضاحت دینی چاہیے۔ الیکشن کمیشن کو قانون کے تحت چلنا ہے۔‘تاہم ڈائریکٹر الیکشن کمیشن الطاف خان نے وضاحت کی کہ ’ٹوئٹر اکاؤنٹ پر ویڈیو غلطی سے شیئر ہو گئی تھی۔ اس معاملے پر الیکشن کمیشن کا وہی موقف ہے جو 20 مئی کو جاری پریس ریلز میں تھا۔‘اس سے قبل الیکشن کمیشن کے اسی ٹوئٹر ہینڈل سے 20 مئی کی ایک پریس ریلیز ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا گیا کہ ’الیکشن کمیشن کا سرکاری موقف یہ ہے کہ ’وزارت سائنس و ٹیکنالوجی نے 31 مئی تک الیکٹرانک ووٹنگ مشین تیار کرنی ہے۔ الیکشن کمیشن نے ہدایت دی ہے کہ وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کو خط لکھا جائے کہ 31 مئی کے بعد اس کا ڈیمو الیکشن کمیشن کو دیں تاکہ اس پر مزید کام کیا جاسکے۔‘واضح رہے کہ سینیٹ الیکشن کو اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے کے لیے حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ میں دائر ریفرنس پر الیکشن کمیشن نے اس کی مخالفت کی تھی۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے مخالفت کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے ایک تقریب کے دوران الیکشن کمیشن پر اس حوالے سے تنقید کی تھی۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے وزیراعظم عمران خان کی تنقید پر ردعمل دیتے ہوئے کہا تھا ’ہم کسی کی خوشنودی کی خاطر آئین اور قانون کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔‘’الیکشن کے رزلٹ کے بعد میڈیا کی وساطت سے جو خیالات ہمارے مشاہدے میں آئے ان کو سن کر دکھ ہوا، خصوصی طور پر وفاقی کابینہ کے چند ارکان اور بالخصوص جناب وزیر اعظم پاکستان نے جو کل اپنے خطاب میں فرمایا’۔سینیٹ الیکشن کے بعد وزیر اعظم نے قوم سے خطاب میں کہا تھا کہ الیکشن کمیشن نے ہمارے ملک میں جمہوریت کو نقصان پہنچایا ہے۔ وزیراعظم نے ای سی پی پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ‘سپریم کورٹ میں آپ نے اوپن بیلٹ کی مخالفت کیوں کی، کیا آئین چوری کی اجازت دیتا ہے، پھر آپ نے قابل شناخت بیلٹ پیپزر کی مخالفت کی اگر ایسا ہو جاتا تو آج جو ہمارے 15، 16 لوگ بکے ہیں ہم ان کا پتا لگا لیتے، یہ پیسے دے کر اوپر آنا کیا جمہوریت ہے، الیکشن کمیشن نے ہمارے ملک میں جمہوریت کو نقصان پہنچایا ہے، آپ کو سپریم کورٹ نے موقع دیا تو کیا 1500 بیلٹ پیپرز پر بار کوڈ نہیں لگایا جاسکتا تھا، آج آپ نے ملک کی جمہوریت کا وقار مجروح کیا ہے’۔اس کے بعد سے حکومت اور الیکشن کمیشن کے تعلقات کشیدہ نظر نظر آرہے ہیں۔ کئی حکومتی شخصیات نے ڈسکہ الیکشن کے حوالے سے بھی الیکشن کمیشن کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ ووٹنگ مشین کے حوالے سے الیکشن کمیشن کی ٹویٹ کے بعد حکومت کے حامی صارفین بھی کمیشن کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیںالیکشن کمیشن کے ٹوئٹر ہینڈل سے الیکٹرک ووٹنگ کو ’فراڈ‘ کہنے کے بعد تحریک انصاف کے رہنما فرخ حبیب نے کہا کہ ’ الیکشن کمیشن کے اکاؤنٹ سے کی گئی غیرذمہ دارانہ ٹویٹ پر چیف الیکشن کمشنر کو وضاحت دینی چاہیے۔ الیکشن کمیشن کو قانون کے تحت چلنا ہے۔‘فرخ ذیشان نے لکھا کہ ’الیکشن کمیشن نے اپنا اصلی رنگ دکھا دیا۔ وہ اب غیر جانبداری کی ایکٹنگ بھی نہیں کر رہے۔ اگلا الیکشن تحریک انصاف اور الیکشن کمیشن کے درمیان ہو گا۔ الیکشن کمیشن نے پہلے جو ٹویٹ کیا جسے بعد میں ڈیلیٹ کر دیا گیا اس ٹویٹ کو ن لیگ میں باقاعدہ شمولیت کا اعلان سمجھا جائے؟‘ایک اور ٹوئٹر صارف نے لکھا ہے کہ ’الیکشن کمیشن لگتا ہے ابھی تک نون لیگ کی ہی ڈکٹیشن پر چل رہا ہے۔ جس طرح وہ الیکٹرانک ووٹنگ کی مخالفت کر رہے ہیں ویسا ہی الیکشن کمیشن کر رہا ہے یہ ٹویٹ بھی چیک کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔‘15 مارچ 2021 کووفاقی حکومت نے الیکشن کمیشن پر شفاف سینیٹ الیکشن کرانے میں ناکامی کا الزام لگاتے ہوئے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا۔اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے تین وفاقی وزرا نے کہا کہ الیکشن کمیشن اپنی ذمہ داری میں ناکام ہو گیا ہے اس لیے آئینی طور پر استعفیٰ دے دے۔شفقت محمود کا مزید کہنا تھا کہ ’وقت آ گیا ہے کہ ہم انتخابات کے اس پرانے سلسلے سے آگے بڑھیں، اور اس سے آگے بڑھنے کا بہترین عمل یہ ہے کہ الیکشن کمیشن ایسا ہو جس پر قوم کو اعتماد ہو۔‘انہوں نے مطالبہ کیا کہ ’صرف چیف الیکشن کمشنر کو ہی نہیں بلکہ الیکشن کمیشن کو بحیثیت مجموعی استعفیٰ دینا چاہیے۔‘’2015 میں جب نواز شریف نے اوپن بیلٹ کا قانون لانے کی بات کی تو اس وقت پی ٹی آئی نے سیاسی اختلافات کے باوجود اس کا خیرمقدم کیا تھا۔‘بقول ان کے ’ہم چاہتے ہیں کہ ملک میں سیاست صاف و شفاف ہو جائے۔‘
انہوں نے 2018 میں ہونے والے سینیٹ الیکشن کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ’ اس وقت بھی منڈی لگی اور تحریک انصاف وہ واحد جماعت تھی جس نے پیسوں کا لین دینے کرنے والے اپنے ارکان کے خلاف ایکشن لیا۔‘’اس وقت حال یہ ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت سینیٹ الیکشن سے مطمئن نہیں ہے۔ جو عمران خان کے موقف کی ہی تائید ہے۔‘
وفاقی وزیر تعلیم نے صورت حال کو الیکشن کمیشن کی ناکامی قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’اس پر کسی کو اعتماد نہیں رہا۔‘انہوں نے اپنی جماعت تحریک انصاف کا خصوصی طور پر ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمیں بطور حکمران پارٹی الیکشن کمیشن پر اعتماد نہیں ہے۔‘خیال رہے کہ چند دن پہلے سینیٹ کے انتحابات میں حکومتی امیدوار کو شکست کے بعد قوم سے خطاب میں وزیراعظم نے الیکشن کمیشن کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ ’سیکرٹ بیلٹ کروا کر الیکشن کمیشن نے جمہوریت کو نقصان پہنچایا ہے، یہ کون سی جمہوریت ہے جہاں پیسے دے کر کوئی بھی سینیٹر بن جاتا ہے۔‘
وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ ’صاف اور شفاف انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری تھی، مجھے یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ میں کیوں کہا کہ خفیہ بلیٹ ہونا چاہیے، کوئی آئین اجازت دیتا ہے رشوت دینے کی؟ کوئی آئین اجازت دیتا ہے چوری کرنے کی؟وزیراعظم کے بیان کے بعد الیکشن کمیشن نے کہا تھا کہ سینیٹ الیکشن کے بعد وزیراعظم اور وزرا کے بیانات سے دکھ ہوا، کسی کی خوشنودی کی خاطر آئین و قانون کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔پانچ مارچ کو اجلاس کے بعد جاری کیے گئے اعلامیے میں الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ ’بغیر کسی دباؤ کے فیصلے کرتے ہیں کہ تاکہ پاکستانی عوام میں جمہوریت کو فروغ ملے۔‘
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ’اگر کسی کو الیکشن کمیشن کے احکامات /فیصلوں پر اعتراض ہے تو وہ آئینی راستہ اختیار کریں اور ہمیں آزادانہ طور پر کام کرنے دیں۔ ہم کسی بھی دباؤ میں نہ آئے ہیں اور نہ ہی انشااللہ آئیں گے۔