پمز ہسپتال میں بچہ تبدیل کرنے کا انکشاف ، ماں 10 ماہ سے لخت جگر کی بازیابی کی منتظر

 
0
933
لخط جگر کی تلاش میں 10 ماہ سے ٹھوکریں کھانے والی شاہدہ بی بی

اسلام آباد جولائی 27(ٹی این ایس)پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائینسسز ( پمز) ہسپتال میں ایک ماں کو کسی  دوسرے کا بچہ سونپنے  کا انکشاف ہوا ہے تمام حقائق میڈیا سے چھپانے کے لئے ہسپتال کی انتظامیہ نے بے حسی اور ایک بھیانک جرم کے ارتقاب کو چھپانے کے لئے ممتا کی  ماری ماں کو کئی ماہ سے در در کی ٹھوکریں کھانے پرمجبور کر رکھا ہے  ، چیف جسٹس آف پاکستان سے اپیل کرتے ہوئے راولپنڈی کی شاہدہ بی بی  نے (ٹی این ایس ) کو بتایا کہ گزشتہ سال 27اکتوبر2016 کو وہ ڈیلوری کے لیے پمز ہسپتال داخل ہوئیں

 

اور اسی رات 8بجکر 15 منٹ پر میرے ہاں ایک بیٹا کی پیدائیش ہوئی ، تاہم مجھے بچہ دیکھنے نی دیا گیا اور ایک رسید جس پر تحریر تھا (بے بی آف شاہدہ) اور لگ بھگ 5 گھنٹے بعد مجھے بتایا گیا کہ آپ کا بچہ فوت ہو گیا ہے اس کی ڈیڈباڈی(میت) وصول کرلیں ،میرے شوہرغلام نبی جو کہ  پیشے کے حوالے سے وکیل ہیں بچے کی میت لینے گئے تو انہوں نے جونہی اپنا تعارف کرایا کہ میرا نام غلام نبی  اور میں ایک وکیل ہوں تو یکسر ڈاکڑ نے کہا کہ ہم سے غلطی ہو گئی ہے آپ کا بچہ ذندہ اور نرسری میں  ہے ، آپ کا صبح بچہ دیکھا دیا جائیگا، شاہدہ بی بی   نے( ٹی این ایس ) سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اگلی صبح میں اپنا بچہ دیکھنے گئی تو مجھے ایک ایسا بچہ دیکھایا گیا جس کے بازو پر زخم کا نشان تھا

فوت ہونے والے بچے کی فائل فوٹو

اور جس کے بارے میں پوچھنے پر ڈاکڑوں نے مختلف بیان دیئے کبھی کہنا تھا کہ بچے کو نمونیہ کو گیا ہے کبھی کچھ اور کبھی کچھ تاہم میرے بچے کو کسی اور بچے سے تبدیل کرکے مجھے جو بچہ دیا گیا وہ بعدازاں فوت ہو گیا اور ایک مسلمان اور ایک ماں ہونے کے ناطے ہم نے اس معصوم بچے کو سپرد لحد کر دیا ، اس دوران ہم نے چار مرتبہ ڈاکڑوں کو اس بچہ اور ہمارا  ڈی این اے ٹیسٹ کرانے کی درخواست کی  جسے منظور نہ کیا گیا اور ہر بار ٹال دیا گیا ، شاہدہ بی بی نے (ٹی این ایس) کو بتایا کہ میرے بچے کی پیدائیش سے قبل میں نے کئی مرتبہ الٹراساونڈ  بھی کرائے۔

شاہدہ بی بی کی الٹرا ساونڈ رپورٹ

میرے بچے کا وزن اور صحت سب کا ریکارڈ موجود ہے جبکہ جو بچہ ہمیں دیا گیا اس کا وزن اور حالت بہت ہی ذیادہ مختلف تھی ، دوسری اہم بات کے جو بچہ ہمیں دیا گیا وہ عمر میں کچھ دن کا تھا اور اس کا مکمل آپریشن بھی ہو چکا تھا جس کی والدہ کا نام (شہلہ بی بی)تھا جس کا ریکارڈ  ہسپتال والوں نے بچے کے ساتھ تبدیل کیا ، شاہدہ بی بی نے (ٹی این ایس) کو بتایا کہ  تین رکنی تحقیقاتی کمیٹی جس میں ڈاکٹر طارق اقبال، ڈاکٹر اعجاز اور ڈاکٹر انجم جاوید  شامل ہیں بنا دی تاہم انہوں نے انسانیت سے گرے ہوئے جرم کا ارتکاب کیا اور اصل حقائق پر پردے ڈالے اور خود بھی اس جرم کے ارتکاب کیا ، ، شاہدہ بی بی نے (ٹی این ایس) کے تواسط سےچیف جسٹس آف پاکستان سے اپیل کی ہے کہ پمز ہسپتال کی انتظامیہ کے خلاف تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے میرا لخط جگر بازیاب کرانے میں ایک ماں کی مدد فرمائیں