کشمیر کی آواز کون؟

 
0
367

25 جولائی 2018 کو ہونے والے جنرل انتخابات میں منتخب ہونے والی پی ٹی آئی 25 جولائی 2021 میں ہونے والے کشمیر الیکشن میں بھی کامیاب ہو پائے گی یا تاریخ اپنے آپ کو دہرائے گی اور اب حکومت کی طرف سے سلیکٹڈ کے نعرے لگائے جائیں گے ؟
کشمیر الیکشن اس لئے بھی بہت اہم ہیں کہ اس کے جو بھی نتائج  ہوں گے، آنے والے عام انتخابات میں ان کے گہرے اثرات مرتب ہونگے۔
مریم نواز کی الیکشن کمپین دیکھ کر کشمیر الیکشن انتخابات سے پہلے ہی ن لیگ کی جانب جھکتا نظر آ رہا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ مریم نواز میاں نواز شریف سے زیادہ ‘کراؤڈ پلر’ ثابت ہو رہی ہیں یہی وجہ ہے کہ مریم نواز کے مقابلے میں باقی اپوزیشن جماعتیں’ حتٰی کہ حکمران جماعت بھی بے بس نظر آ رہی ہے 
حالانکہ تاریخ کی ورق گردانی کی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ انہی مریم نواز شریف صاحبہ کے والد نواز شریف نے کشمیریوں پر ظلم کروانے والے نریندر مودی کو بغیر ویزے کے اپنے گھر بلایا تھا۔لیکن کیا وجہ ہے کہ لوگ ان تمام ماضی کے واقعات کو بھول کر مریم نواز کے ساتھ نکل رہے ہیں کیا اس کی وجہ تحریک انصاف کی کارکردگی ہے ؟
پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی کسی حد تک کشمیر کے جیالوں کو جگایا مگر بعد ازاں وہ امریکہ روانہ ہوگئے اور اب ان کی کشمیر کمپین بھی موثر نہیں لگ رہی۔
جیالوں کی قیادت کے لیے آصفہ بھٹو زرداری کشمیر پہنچ گئی ہیں اور مختلف مقامات پر ایک موثر خطاب کر چکی ہیں لیکن دیکھنا یہ ہوگا کہ آصفہ بھٹو زرداری کس حد تک کامیاب ہو سکتی ہیں
حیرت کی بات ہے کہ حکمران جماعت کشمیر کمپین کے حوالے سے  اب تک صرف دو یا تین جلسے کر پائی ہے اور وہ بھی کچھ زیادہ موثر ثابت نہیں ہوئے۔ ویسے بھی حکمران جماعت کی دلچسپی بھی اس طرح نظر نہیں آرہی جس طرح ماضی کے انتخابات میں دیکھنے کو ملتی تھی۔ کیا حکمران جماعت ضمنی انتخابات سے مایوس ہو چکی ہے کیونکہ آج سے پہلے جس جماعت کی حکومت ہوتی تھی ضمنی انتخابات میں وہی جماعت کامیاب ہوتی تھی یہ واحد جماعت ہے کہ جو ضمنی انتخابات میں بری طرح ناکام ہوئی ہے
شاید تحریک انصاف والے یہ سوچتے ہوں کہ اب بیچیں بھی تو کیا بیچیں؟ کہیں بھی تو کیا کہیں ؟ لارے لگائیں بھی تو کس چیز کے لگائیں ؟ وعدے کریں بھی تو کس بنا پر ؟
ان کے پاس بیچنے کو جو کچھ تھا وہ 2018 کے انتخابات سے پہلے مہنگائی کارڈ ، کرپٹ کارڈ ، چور ڈاکو کارڈ اور نہ جانے کون کون سے کارڈ بیچ کر جیسے تیسے کر کے اقتدار سنبھال لیا مگر اقتدار سنبھالنے کے بعد عام آدمی کی امیدوں کو چکنا چور کیا۔ ہاں ! کشمیر کارڈ بیچ سکتے تھے لیکن انہی کے دور حکومت میں پانچ اگست 2019ء کو بھارت نے اپنے آئین کی دفعہ 370 اور 35 اے ختم کر کے جموں و کشمیر کے ریاستی تشخص کو ختم کر دیا تھا۔ جس پر کشمیریوں کو بہت غصہ ہے
اسی دوران ہمیں یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ تحریک انصاف کشمیر نے انتخابات کے لیے تحریک انصاف کا منشور شائع کیا جو کہ ان کا حق اور سیاسی حوالے سے ایک اچھی بات ہے  اس کتابی شکل میں شائع ہونے والے منشور پر تحریک انصاف کی طرف سے تین نعرے واضح لکھے گئے ۔ وہ تین نعرے ہیں “انصاف خوشحالی اور آزادی” لیکن کیا کشمیر کا ووٹر اب ان نعروں پر یقین کر پائے گا ؟
کیوں کہ حکمران جماعت اگر انصاف کی بات کرے تو سانحہ ساہیوال  یاد آجاتا ہے
خوشحالی کی بات کریں تو مہنگائی سے غریبوں کی نکلتی ہوئی چیخیں سنائی دیتی ہیں
آزادی کی بات کریں تو میڈیا سمیت بہت سے اداروں پر قدغنیں لگتی دکھائی دیتی ہیں
اور یہ وہی نعرے ہیں جو لگاکر وفاق میں حکومت بنائی گئی اور بعد ازاں “انصاف، خوشحالی اور آزادی” صرف نعروں کی حد تک ہی محدود رہے۔
تحریک انصاف کی الیکشن کمپین کی رہی سہی کسر وفاقی وزیر برائے امور کشمیر علی امین گنڈا پور کی تقاریر نے نکال دی۔ انہوں نے جنت نظیر کشمیر میں کھڑے ہوکر جس طرح کے بدبودار الفاظ اپوزیشن جماعتوں کے لیے کہے ہیں یقیناً تحریک انصاف کے غیرت مند ووٹر پر ان کا اثر ضرور پڑا ہوگا۔ اور شاید یہی وجہ تھی کہ بعد میں آزاد کشمیر الیکشن کمیشن نے وفاقی وزیر برائے امور کشمیر علی امین گنڈاپور کو آزاد کشمیر کی حدود سے چلے جانےکا حکم دے دیا جو کہ ان کی کھلی مداخلت کا ثبوت ہے ۔
کل عمران خان صاحب خصوصی طور پر کشمیر میں جلسے میں خطاب کے لئے پہنچے اور ایک بڑے اجتماع سے خطاب کیا۔
اب امید کی جا سکتی ہے کہ عمران خان خود کشمیر پہنچے ہیں اور کیونکہ پی ٹی آئی کا ورکر خالصتاً عمران خان کا ورکر  ہے عمران خان صاحب کو چاہیے کہ وہ آزاد کشمیر کی انتخابی مہم میں خود دلچسپی لیں۔ یہ واحد طریقہ ہے کہ جس سے پی ٹی آئی کی انتخابی مہم میں جان آ سکتی ہے
تصویر کا ایک رخ یہ بھی ہو سکتا ہے حکمران جماعت غیر سیاسی قوتوں پر نظر جمائے بیٹھی ہے یا ان کی جانب سے ان کو جیت کا اشارہ مل چکا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ آج تک کشمیر میں جتنی بھی حکومتیں آئیں ہیں ان میں غیر سیاسی قوتوں کا کہیں نہ کہیں عمل دخل ضرور رہا ہے۔
لیکن گزشتہ تین برس میں اسٹبلشمنٹ کو سیاست میں مداخلت کے الزام میں اس طرح زبان زد عام کرایا گیا ہے کہ جس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ اور ممکن ہے کہ اس بار غیر سیاسی قوتیں مداخلت نہ کریں۔
اب دیکھنا یہ ہوگا کہ کشمیر کی تقریبا 32 لاکھ ووٹوں کی اکثریت کس کے حق میں جائے گی ۔

تحریر۔ سید انیس رضا