میں کس کے ہاتھ اپنا لہو تلاش کروں

 
0
435

تحریر: ملک رضوان چوہان

بھٹو کی لیڈرشپ کو زمانہ مانتا ہے اور اگر ذوالفقار علی بھٹو شہید کے بعد کوئی پاکستان میں لیڈر آیا تو محترمہ بے نظیر بھٹو کو یہ اعزاز حاصل ہے صدیوں بعد اگر کوئی لیڈر پیدا ہوتا ہے تو اس کو ذوالفقار علی بھٹو شہید اور محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کہا جاتا ہے آج پورے پاکستان میں برسی منائی جائے گی سیاسی تقریریں ہونگی اور مسلمہ کے گیت گائے جائیں گے کاش محترمہ کی زندگی میں اس کی قدر کر لی جاتی جمہوریت کو جمہوریت کا رنگ دینے والا ذوالفقار علی بھٹو تھا لیکن اصل جمہوریت کی مالک محترمہ بے نظیر بھٹو کو کہا جانا چاہیے جب پرویز مشرف نے میاں محمد نواز شریف کو جلا وطن کیا تو جمہوریت کے ٹوٹے ٹوٹے ہو گئے تھے اور آمریت سر پہ چڑھ کر بولنے لگی تھی اور کوئی کبھی کسی عقل کے خانے میں یہ نہیں سوچ سکتا تھا کہ آپ جمہوریت دوبارہ ایک بار پھر زندہ ہوگئی کیونکہ لوگوں کو ضیاء کا دور یاد تھا اگر اس شخص نے ١١ سال لگا دیے لیکن قدرت کی طرف سے ایک حادثہ جس نے جنرل ضیاء کو خالق حقیقی سے جا ملایا لیکن جنرل ضیاء کے بعد بھی جمہوریت طاقت نہ پکڑ سکی اور جمہوریت ایک دھندلے آئینے کی طرح آگے پیچھے پھرتی تو نظر آئی لیکن آمریت نے جمہوریت کو مکمل زندہ نہ ہونے دیا یہ محترمہ بی بی رانی شہید کا ہی کارنامہ تھا کہ جب پرویز مشرف نے محترمہ بی بی رانی کو پاکستان میں آنے کا موقع دیا تو محترمہ کی دوراندیشی نے پرویز مشرف جیسے اکھڑ اور جمہوریت دشمن انسان کو اس ڈگر پر کھڑا کرنے پر مجبور کر دیا پھر اس نے میاں محمد نواز شریف کو پاکستان آنے کی اجازت دے دی یہ محترمہ بی بی رانی کا ظرف تھا کہ اس نے کہا کہ جمہوریت کس چیز کا نام نہیں کے ایک سیاسی پارٹی کو قید کر لیا جائے اور دوسری پارٹی آزاد ہو کر الیکشن لڑے اور برسراقتدار آئے میں یہ چاہتی ہوں کہ میاں نواز شریف کو پاکستان بلایا جائے اور پاکستان مسلم لیگ ن کے مقابلے میں مکمل الیکشن لڑے اور ایک مقابلے کے بعد اگر میں جیت جاؤں تو میرا اقتدار حق بنتا ہے اور جب میاں محمد نواز شریف کی جلاوطنی کے بعد پاکستان تشریف لائے تو نواز لیگ کے جیالوں میں ایک ہلچل مچ گئی لیکن یہ بھی کہنا غلط نہیں ہوگا نواز کے جیالوں میں محترمہ کی عزت اور بڑھ گئی اور بی بی شہید ان کی لیڈر نہیں تھی لیکن وہ لیڈر ماننے پر تیار ہوئے اور اگر آج بھی میاں نواز شریف کے کسی جیالے سے پوچھا جائے یا کسی سیاستدان سے پوچھا جائے تو وہ ضرور یہ کہے گا کہ اگر اس صدی کی کوئی بڑی لیڈر تھیں تو وہ محترمہ بے نظیر بھٹو تھیں محمد نواز شریف کا پاکستان میں آنا اور محترمہ کے مقابلے میں ایک بار پھر اپنی پارٹی کو تیار کرنا عوام کو نظر آیا کہ اب دوبارہ پاکستانی قوم جمہوریت کی طرف بڑھ رہی ہے لیکن اچانک فضا سوگوار ہوئی 22 کروڑ عوام کی آنکھیں نم ہوئیں اور پورے پاکستان میں صف ماتم بچھ گیا اچانک جب ہیڈ لائن یہ یہ خبر تہلکہ مچانے لگیں کہ آج ذوالفقار علی بھٹو شہید کی لخت جگر دنیا سے رخصت ہو گئی ہے آج پاکستانی سیاست یتیم ہو کر رہ گئی ہے اور جمہوریت کو ایک نیا باب دینے والا دنیا سے رخصت ہوگیا ہے آج اس صدی کی عظیم لیڈر نے پاکستانی عوام کو تنہا چھوڑ کر خالق حقیقی سے جا ملنے کا وعدہ پورا کر لیا ہے تو اس وقت پاکستانی قوم کے بخت ہار گئے تھے کیونکہ جمہوریت یک طرفہ نہیں ہوتی کوئی ایک جمہوریت کو نہیں چلا سکتا میاں محمد نواز شریف کے نہ جانے والے زیادہ تھے اور سب کو معلوم تھا کہ میاں محمد نواز شریف کے بس کی بات نہیں یہاں پر جمہوریت کے قاتل زیادہ ہے تو آخر کار پاکستان سے میاں محمد نواز شریف کو بھی جانا پڑ گیا لیکن اصل حقائق یہ ہیں کہ محترمہ سیاست میں ایک ایسا خلا چھوڑ گی جس کو پر کرنے کے لئے شاید صدیاں لگ جائیں آج پاکستانی قوم ایک لیڈر کو ترس رہی ہے آج پاکستانی قوم سچی جمہوریت کو ترس رہی ہے لیکن یہ خلا تب پورا ہوگا جب کوئی ایک ذوالفقار علی بھٹو پیدا ہوگا اور پھر ایک بے نظیر کا جنم ہوگا لیکن صدیوں بعد ایک ایسی لیڈر پیدا ہوتی ہے اور اب کی بار اس قوم کو اس لیڈر کو سمجھنا ہوگا پر رکھنا ہوگا اگر خدا نے ایسا موقع پھر دیا اور اس قوم سے پھر کوئی غلطی ہوئی تو دوبارہ ایسا موقع نہیں ملے گا لیکن آج اس صدی کی بڑی لیڈر کو میں خراج تحسین پیش کرتا ہوں اور اس کے روٹھ کر چلے جانے کی گھڑیاں ہمیں ہمیشہ یاد رہیں گی اور آنے والی نسلوں کو بھی بتائیں گے کہ اس صدی کی بہترین لیڈر کو ہمیشہ یاد رکھیں گٸے: