ہم اقلیت نہیں ہیں ملکی نصف ابادی محب وطن ہیں شعیہ سنی نے مل پرپاکستان بنایا اورملک کو بچانے والے بھی ہم ہیں ، سیّدہ صندلین رضوی

 
0
210

ہم تو اپنی مجلسوں میں الااعلان یہ بات کہتے ہیں آئیں ہمارے ساتھ مل کر بیٹھیں اور کیوں اس لیئے ہماری مجالس میں ذکر رسول ﷺ ہوتا ہے ، خطیبہ اہلبیت ؑ
کربلا کادرس امن اتحاد بھائی چارے کاہے

اسلام آباد 14 اگست 2021 (مظہر شاہ) سیّدہ صندلین رضوی خطیبہ اہلبیت ؑ نے میڈیا کو محرم الحرام کہ حوالے سے بیان دیتے ہوئے کہا کہ
یہ مملکت خدا داد پاکستان جو ہے جسے اسلام کہ نام پر بنایا گیا ہے اسلام کہ نام پر حاصل کیا گیا ہے اور اس کو بناتے ہوئے قائد اعظم کا یہی فرمان تھا کہ یہاں سب کو مذہبی آزادی حاصل ہو گی ہر اقلیت کو بھی پوری آزادی حاصل ہو گی اپنے مذہبی رسومات پر جو جس طرح چاہے عمل کر سکے گا ,
ہم اقلیت نہیں ہیں ہم شیعہ مسلمان ہیں ہم اکثریت میں ہیں اس ملک کہ بنانے والے بھی ہم ہیں ہمیشہ اس ملک کو بچانے والے بھی ہم ہیں اُنھوں نے مزید کہا کہ
اس ملک کی بنیادوں میں جو سب سے پہلا خون ہے وہ شیعہ مسلمانوں کا ہے تو سب سے پہلا چیک قائد اعظم کو دیا گیا تھاراجہ صاحب محمود آبانے جو چیک دیا تھا اس زمانے اس وقت پچہتر لاکھ روپے کا تو راجہ صاحب محمود آباد کا ایک شیعہ تھے آج جو ہماری مخالفت کرتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو اس وقت قائد اعظم کی مخالفت کرتے تھے اور پاکستان کی مخالفت کرتے تھے
کہتے تھے کہ پاکستان نہیں بننا چاہیئے اور اب جب بن گیا ہے پاکستان تو یہ لوگ گھس کر بیٹھ گئے ہیں خطیبہ اہلبیت صندلین رضوی کا مزید کہنا تھا
ہم تو اپنی مجلسوں میں الااعلان یہ بات کہتے ہیں آئیں ہمارے ساتھ مل کر بیٹھیں اور کیوں اس لیئے ہماری مجالس میں ذکر رسول ﷺ ہوتا ہے اُنھوں نے کہا کہ
جو مجلس شروع ہی خدا کہ کلام کی کسی آیت سے جو ذکر شروع ہوتا ہے پھر ذکر خدا و رسول ﷺ ہوتا ہے ذکر آل رسول ﷺ ہوتا ہے ہمارے لیئے قرآن سے بڑھ کر کیا معیار یا کیا کسوٹی ہو سکتی ہے کدھر لکھا ہے قرآن میں کسی غیر مسلم کو دیکھو تو اٹھ کر حملہ کر دو یا غیر مسلم کی عبادت گاہ دیکھو تو تباہ و برباد کر دو تکفیریت پھیلاو¿
یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے پوری دنیا میں اسلام کو بھی بدنام کر کہ رکھا ہوا ہے پاکستان کو بھی بدنام کر کہ رکھا ہوا ہے پاکستان کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہے ہیں اور نشانے پر صرف ہم آ جاتے ہیں ہماری عبادت جو ان کو ناگوار گزرتی ہے تو بات یہ ہے یہ ہماری جو عبادت ہے ناں مجلس حسین علیہ السلام یہ وہ عبادت ہے جس فرش پر بیٹھ کر ہم یزیدیت کو بے نقاب کرتے ہیں تو یقیناً تکلیف تو ہو گی اسے ہو گی جو یزیدیت کہ ساتھ ہوگا کیونکہ کربلا کہ بعد یا حسینت ہے یا یزیدیت ہے تو ہمیں ہماری حکومت سے یہی اپیل ہے وزیر اعظم صاحب سے اپیل ہے متعلقہ اداروں سے یہ وہ لوگ ہیں قتل ہمارا ہو رہا ہے اس ملک کی جڑیں کھوکھلی ہو رہی ہیں دنیا میں پاکستان بدنام ہو رہا ہے اسلام بدنام ہو رہا ہے ان لوگوں کی وجہ سے اسلام جیسا مذہب جس مذہب کہ نام کا مطلب ہی سلامتی ہے جس مذہب میں یہ حکم ہے جب دوسروں کو دیکھو تو کہنا کیا ہے اسلام علیکم کہنا ہے دوسروں کو دیکھ کر ہی اس کو سلامتی کی دعا دینی ہے سلامتی والے مذہب سے دنیا میں اسلام دہشت گردی کا قرار پایا جا رہا ہے اور یہ سب اسی وجہ سے ہے تکبیر پڑھ کر گلے کاٹنا ہماری عبادت گاہوں پر حملے کرنا اگر کہیں ماتم ہو رہا ہے یا جلوس نکلا ہوا ہے نوحہ خوانی ہو رہی ہے عزاداری ہو رہی ہے کسی کو کچھ بھی نہیں کہا جا رہا
کسی کو کیا حق پہنچتا ہے کہ آ کر پتھراو¿ شروع کر دے یا حملہ کر دے اور اگر کوئی اس طرح کی دہشت گردی کرتا ہے تو پھر کس کی ذمہ داری ہے اس سب کو روکنا
اور ایسے اقدام لینے کی ضرورت ہے کہ آئندہ اس طرح کہ واقعات درپیش نہ آئیں ہماری اپیل ہے متعلقہ اداروں سے جو رہنما ہیں جو وزیر اعظم ہیں ان لوگوں کو لگام دی جائے ہم تو ہمیشہ یونیٹی کی بات کرتے ہیں ہم نے نہ کبھی تکفیرت کی بات کی ہے نہ کسی کو محفلوں سے دور کیا ہے ہم کہتے ہیں آئیں بیٹھیں ہمارے ساتھ مل کر سنیں مجلس میں شریک ہوں سنیں تو سہی ہم کیا بات کرتے ہیں ہم کیا پڑھتے ہیں ہم کیا کہتے ہیں کوئی ایسی بات قابل اعتراض ہم نہیں کرتے اپنی مجلسوں میں ہم سب کو اپنے ساتھ ملانا چاہتے ہیں ہم اسی بات پر زور دیتے ہیں کہ آئیں ہمارے ساتھ ملیں مل کر چلیں سب چلیں یہ ایک مخصوص فرقہ ہے یہ ایک مخصوص فرقہ ہے جو کسی بھی طرح امن چاہتا ہی نہیں ہے وہ ملک میں مستقل بد امنی کی فضا چاہتا ہے وہ بہانے اس کو ملتے رہتے ہیں وقتاً فوقتاً اور وہ اس طرح واقعات یہ جو کیئے جاتے ہیں پتھراو¿ کر کہ کسی عبادت گاہ کو جلا دیا کسی کہ مندر کو جلا دیا کسی کہ چرچ پر حملہ کر دیا بلا وجہ بے گناہ لوگوں کا خون بہا دیا کہاں اسلام نے کہا ہے کسی بے گناہ کا خون بہانے کی قطعاً اسلام نے اجازت نہیں دی ہے ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے ہماری عزاداری پر امن عزاداری ہوتی ہے ہمارے جو عاشورہ کہ جلوس ہوتے ہیں پر امن جلوس ہوتے ہیں کہیں سے ایک پتہ بھی نہیں توڑا جاتا اور ان پر امن جلوسوں پر جہاں کسی کہ لیئے کچھ برا نہیں کہا جاتا کسی پراعتراض نہیں کیا جاتا کسی کو ہم کچھ بھی نہیں کہتے اپنی عبادت سے کام رکھتے ہیں تو اس طرح اٹھ کر حملے کرنے والوں کو لگام دی جائے صرف لگام کیا ان کا اس طرح سے علاج کیا جائے کہ دوبارہ کسی کو جرات نہ ہو کہ کسی کی عبادت گاہ پر یہ حملہ کریں نہ ہی یہ کسی کی بھی مذہبی عبادت پر حملہ کرنے کی جرات کر سکیں