سکالرز معاشرے میں فکری انقلاب کے لئے رہنمائی کریں،وزیراعظم عمران خان کا اکادمی ادبیات پاکستان میں ’’ایوان اعزاز‘‘ کے افتتاح کے موقع پر تقریب سے خطاب

 
0
122

اسلام آباد 04 نومبر 2021 (ٹی این ایس): وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ نوجوان نسل کی درست سمت رہنمائی کی ضرورت ہے، بدعنوانی سے معاشرتی بگاڑ پیدا ہوتا ہے، سکالرز قوم کی رہنمائی کرتے ہیں، آج کے پاکستان میں سکالرز کی بہت ضرورت ہے، آج نوجوان نسل پر سوشل میڈیا کی یلغار ہے، رحمۃ للعالمین اتھارٹی کے قیام کا مقصد نوجوانوں کو رول ماڈل فراہم کرنا ہے، سکالرز معاشرے میں فکری انقلاب کے لئے رہنمائی کریں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعرات کو اکادمی ادبیات پاکستان میں ”ایوان اعزاز” کے افتتاح کے موقع پر تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

وزیراعظم نے کہا کہ مسلمانوں کی تاریخ کے سنہرے دور میں عالم اور دانشوروں کا بہت بڑا رتبہ تھا، البیرونی اور ابن بطوطہ جیسے دانشور اس دور میں تھے اور ان کی ہر جگہ عزت کی جاتی تھی، جب کوئی تہذیب ترقی کر رہی ہوتی ہے تو دانشور اس وقت کے لوگوں کا رول ماڈل بن جاتے ہیں اور وہ قوم کا قبلہ درست اور سمت کا تعین کرتے ہیں، دانشوروں کی اہمیت کم ہونے سے تہذیبیں زوال پذیر ہو جاتی ہیں، مغرب میں ہم نے دانشوروں کی وجہ سے عروج و زوال کا مشاہدہ کیا ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ انہوں نے غیر ملکیوں کیلئے ٹریول بکس لکھی ہیں کیونکہ لوگوں کو اس وقت پاکستان کے بارے میں اتنی معلومات نہیں تھیں کہ یہ کتنا خوبصورت ہے، علامہ اقبال کی شاعری نے دنیا بھر کے مسلمان کو متاثر کیا اور الجیریا کے ایک جنگجو کے بقول اس نے علامہ اقبال کے ایک شعر سے متاثر ہو کر اسلام قبول کیا۔

انہوں نے کہا کہ آج کے پاکستان میں سکالرز کی بہت ضرورت ہے، افسوس ہوتا ہے کہ لوگوں کو اسلامی تاریخ کا زیادہ علم نہیں ہے، صرف جنگوں کی وجہ سے دنیا کی تاریخ میں اتنا بڑا انقلاب نہیں آیا اور اس انقلاب کی دنیا کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی، 622ء میں حضور اکرم ۖ ﷺ ہجرت کرکے مدینہ پہنچے، 625ء میں غزوہ بدر ہوا اور اس وقت 636ء میں روم اور 637ء میں فارس کی سلطنتوں کا خاتمہ ہوا، تلوار سے نہیں بلند کردار اور اخلاق کی وجہ سے اسلام پھیلا، اسلامی فکری انقلاب کی بنیاد اعلیٰ اخلاقی اقدار پر مبنی تھی۔

وزیراعظم نے کہا کہ طاقت علم سے آتی ہے، ہمیں اپنی نوجوان نسل کو آگاہی دینا ضروری ہے کیونکہ سوشل میڈیا اور میڈیا پر اس وقت جو یلغار ہے وہ اسلامی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں تھی، آج موبائل فون پر مثبت اور منفی دونوں طرح کا مواد موجود ہے، دانشوروں اور فلم سازوں پر بڑی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ نوجوانوں کو صحیح راستے پر ڈالنے کیلئے اپنا کردار ادا کریں کیونکہ میڈیا کو بند نہیں کیا جا سکتا اور سوشل میڈیا ایک حقیقت ہے لیکن ہم اپنے بچوں کی تربیت کر سکتے ہیں اور بتا سکتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر موجود مواد کو کس طرح استعمال کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دانشور رائے عامہ کو ہموار کرتے ہیں، ملکی نظریے کا تحفظ کرتے ہیں اور اچھے برے کی تمیز سکھاتے ہیں، اس وقت ہمارا سب سے بڑا بحران اخلاقی گراوٹ ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ مجھے کہا جاتا ہے کہ کرپشن کے معاملہ پر آپ کیوں ان دو خاندانوں پر تنقید کرتے ہیں حالانکہ جب مکہ میں انقلاب آیا تو اس انقلاب کی بنیاد اخلاقیات پر تھی، جن قوموں میں اخلاقیات اور اچھے برے کی تمیز ختم ہو جاتی ہیں اور برائی کو قبول کر لیتی ہیں تو وہ قومیں مٹ جاتی ہیں، اگر برے کو برا نہیں کہتے تو اس کا مطلب ہے کہ اس سے قوم کا زوال شروع ہو جاتا ہے، برطانیہ اور ہمارے اخلاقیات میں زمین آسمان کا فرق ہے، برطانیہ کی پارلیمنٹ میں اس طرح پیسے کیوں نہیں چلتے جس طرح ہمارے سینٹ میں لوگ بکتے ہیں، برطانیہ میں تو ہارس ٹریڈنگ کا تصور ہی نہیں ہے کیونکہ ان کا اخلاقی معیار ہم سے بہت اوپر ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ مسلمان تاجروں کے بلند کردار کی وجہ سے ملائیشیا اور انڈونیشیا میں اسلام پھیلا۔ وزیراعظم نے کہا کہ اﷲ تعالیٰ نے پاکستان کو نعمتیں عطاء کی ہیں، ہمیں فکری انقلاب لانا ہو گا اور اخلاقی معیار کو بہتر بنانا ہو گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہمیں دو طرح کے چیلنجوں کا سامنا ہے ایک چیلنج تو یہ ہے کہ ہم کرپشن کو قبول کر بیٹھے ہیں، مجھے کہا جاتا ہے کہ آپ اپوزیشن لیڈر سے ہاتھ نہیں ملاتے، جس پر اربوں روپے کی کرپشن کے مقدمات ہوں، اس سے ہاتھ ملانے کا مطلب معاشرے میں یہ چیز تسلیم کرانا ہو گا کہ کرپشن کوئی بری چیز نہیں ہے، برطانیہ میں اگر کسی پر یہ الزام لگ جائے کہ اس نے عوام کا پیسہ چوری کیا ہے تو کوئی اینکر اس کو اپنے پروگرام میں نہیں بلاتا اور جب تک وہ اپنے آپ کو اس الزام سے بری نہیں کرا لیتا پارلیمنٹ میں بھی داخل نہیں ہو سکتا، وہاں پر یہ تصور بھی نہیں ہے کہ اربوں روپے کی کرپشن کا الزام ہو اور اسمبلی میں جا کر کوئی دو، دو گھنٹوں کی تقریریں کرے۔

وزیراعظم نے کہا کہ رحمۃ للعالمین اتھارٹی کے قیام کا مقصد نوجوان نسل کو رول ماڈل فراہم کرنا ہے، نبی اکرم ﷺ ۖ کی سیرت مبارکہ ہمارے لئے رول ماڈل ہے، دنیا کی عظیم ترین شخصیات میں حضور اکرم ﷺ ۖ سرفہرست ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ حکومت دانشوروں کے ساتھ پورا تعاون کرے گی، استاد، عالم اور دانشوروں کا اسلامی معاشرے میں بلند مقام ہے، معاشرے کیلئے فکری انقلاب لانے میں انہیں اپنا کردار ادا کرنا ہو گا، پاکستان میں جنسی جرائم میں اضافہ لمحہ فکریہ ہے اور یہ سب سے زیادہ بڑھ رہے ہیں۔

یہ ہمارے لئے بہت شرمناک بات ہے، موبائل فون کی اچھائیاں ایک طرف لیکن دوسری طرف اس کے منفی اثرات بھی مرتب ہو رہے ہیں، بچوں اور خواتین کے ساتھ زیادتیاں ہمارے معاشرے کیلئے ایک بہت بڑا چیلنج ہیں، فلموں کا مواد ہالی وڈ سے بالی وڈ اور پھر بالی وڈ سے پاکستان میں منتقل ہو جاتا ہے، اس سے جو کلچر ہمارے ملک میں پھیل رہا ہے اس کے منفی اثرات کا ہم اندازہ ہی نہیں کر پا رہے۔

ہندوستان میں فلموں کی وجہ سے خاندانی نظام کس طرح متاثر ہوا ہے اور طلاق کی شرح میں کتنا اضافہ ہوا ہے یہ سب دیکھ سکتے ہیں، اگر اس طرح کا کلچر ہم بھی اپنائیں گے تو اس کے اثرات ہمارے اوپر بھی آئیں گے، دانشوروں کا کام ہے کہ وہ معاشرے کی رہنمائی کریں اور انہیں متبادل نظام زندگی کے بارے میں آگاہی دیں اور معاشرے درست سمت کا تعین کریں، مدینہ کی ریاست میں علم اور قانون کی حکمرانی پر بہت زور دیا گیا اور وہاں پر فلاحی ریاست قائم کی گئی، اس طرح کی فلاحی ریاست کا تصور اب ہمیں مغربی ممالک میں نظر آتا ہے، یہودی دنیا میں آج اس وجہ سے سب سے آگے ہیں کہ انہوں نے تعلیم پر بہت زیادہ توجہ دی ہے لیکن انہوں نے جو نظام زندگی اپنایا ہوا ہے اس کی وجہ سے ان کے خاندانی نظام تباہ ہو کر رہ گئے ہیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ حکومت دانشوروں اور ادیبوں کی پوری مدد اور ان سے تعاون کرے گی لیکن ان سے توقع کرتے ہیں کہ وہ معاشرے بالخصوص نوجوانوں کی درست سمت میں رہنمائی کریں گے۔