اسلام آباد میں ایمرجنسی سروس ریسکیو1122جلد شروع کی جائے گی،وفاقی وزیرداخلہ

 
0
132

اسلام آباد 04 نومبر 2021 (ٹی این ایس): وفاقی وزیر داخلہ پاکستان شیخ رشید احمد نے پاکستان ریسکیو ٹیم کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ یہ پاکستان کے لیے بڑے اعزاز کی بات ہے کہ پاکستان ریسکیو ٹیم جنوبی ایشیا کی پہلی ٹیم بن گئی ہے جس نے اقوام متحدہ کی انسراگ سے سرٹیفکیشن حاصل کی ہے۔

شیخ رشید نے اسلام آباد میں ایمرجنسی سروسز کے قیام کیلئے ڈاکٹررضوان نصیر کو مفاہمتی یادداشت پر دستخط کرنے کیلئے دعوت دی۔انہوں نے اسلام آباد میں پنجاب کی طرز پر ایمرجنسی سروسز شروع کرنے کیلئے 20ایمبولیسز دینے کااعلان کیا۔انہوں نے سروسزاکیڈمی میں ریسکیورز کی تربیت کیلئے بنائے گئے سیمولیٹرز کو بھی بہت سراہا اورانہوں نے خواہش کی کہ اسی طرز پر ایمرجنسی مینجمنٹ کا مربوط نظام جس میں فائر،ایمبولینس،ریسکیو اور موٹربائیک ایمبولینس سروس اسلام آباد میں بھی قائم ہو۔

وہ گزشتہ روزایمرجنسی سروسز اکیڈمی میں پاکستان ریسکیو ٹیم کے اقوام متحدہ انسراگ سرٹیفکیشن کی دوسری سالگرہ کی تقریب سے خطاب کر رہے تھےاور اس سنگ میل کی کامیابی پر ڈاکٹر رضوان نصیر اور ان کی ٹیم کی کاوشوں کو سراہا۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ ہنگامی اصلاحات کا سفر جو وزارت داخلہ سے ڈاکٹر رضوان نصیر کے ذریعے شروع کیا گیاتھا اب یہ ریسکیو سروسز اور ایمرجنسی سروسز اکیڈمی کی شکل میں عوام کے لیے دستیاب ہے۔ ریسکیو 1122 نے اپنے قیام سے اب تک ایک کروڈسے زائد ایمرجنسی متاثرین کو ریسکیو کیا ہے علاوہ ازیں ایمرجنسی سروسز اکیڈمی قائم کی گئی جہاں اب تک پنجاب، خیبرپختونخواہ، گلگت بلتستان، بلوچستان اور سندھ کے 20000 سے زائد ایمرجنسی پروفیشنلز کو خصوصی تربیت فراہم کی ہے۔

شیخ رشید نے ڈیزاسٹر رسپانس کے لیے اقوام متحدہ کے انٹرنیشنل سرچ اینڈ ریسکیو ایڈوائزری گروپ (INSARAG) کے معیارات کے مطابق پنجاب کے ہر ضلع میں 36 لائٹ سرچ اینڈ ریسکیو ٹیموں (USARTs) کے قیام پرپاکستان ریسکیو ٹیم کے ٹیم لیڈر اور ڈپٹی ٹیم لیڈر کو مبارکباد دی۔۔ اس موقع پر ڈائریکٹرجنرل پنجاب ایمرجنسی سروس ڈیپارٹمنٹ ڈاکٹر رضوان نصیر، ڈویژنل ایمرجنسی افسران،ضلعی ایمرجنسی افسران، ہیڈ کوارٹرز کے ریسکیو افسران، اکیڈمی کے انسٹرکٹرز، پاکستان ریسکیو ٹیم کے ممبران، ریسکیورز، میڈیا پرسنز اور ریسکیو کیڈٹس کی بڑی تعداد بھی موجود تھی۔

اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے وزیر داخلہ نے کہا کہ پاکستان ریسکیو ٹیم کا ہر کارکن تعریف کا مستحق ہے کیونکہ ہنگامی تیاریوں اور رسپانس کے لیے بین الاقوامی معیارات پر پورا اترنے کے لیے ہر ایک کا اپنا کردار ہے۔ انہوں نے کہا کہ ریسکیو اکیڈمی نے 10 نیشنل ریسکیو چیلنجز، چار قومی رضاکار چیلنجز اور ایک سارک ریسکیو چیلنجز کا انعقاد کیا ہے تاکہ علاقائی اور قومی سطح پر بڑی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے استعداد کار میں اضافہ کیا جا سکے۔

ہم نے 2005 کے زلزلے میں اس بے بسی کا مشاہدہ کیا جب بیرون ممالک سے اربن سرچ اینڈ ریسکیو ٹیمیں طلب کی گئیں۔آج وزیر اعظم پاکستان عمران خان کی قیادت میں پاکستان ریسکیوٹیم کسی بھی آفت اور سانحات کا مقابلہ کرنے کے لیے تیارہے جو اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔

قبل ازیں کمانڈر پاکستان ریسکیو ٹیم ڈاکٹر رضوان نصیر نے 2005 کے تباہ کن زلزلے کے بعد ڈزاسٹر ریسپانس ٹیم کے قیام کیلئے شروع ہونے والے سفر پر روشنی ڈالی۔ یہ سرٹیفکیشن اقوام متحدہ کے انٹرنیشنل سرچ اینڈ ریسکیو ایڈوائزری گروپ (INSARAG)سیکرٹریٹ کے مینٹور کی زیر نگرانی کئی سالوں کا عمل تھا۔ بہترین بین الاقوامی طریقہ کار کے مطابق ڈزاسٹر ایمرجنسی رسپانس ٹیم کی تربیت،نگرانی اور اس کے بعد اقوام متحدہ کے انٹرنیشنل سرچ اینڈ ریسکیو ایڈوائزری گروپ(INSARAG)مبصرین کی وقتا فوقتا جانچ پڑتال کے بعد جنیواسوئٹزرلینڈ میں واقع اقوام متحدہ کے انٹرنیشنل سرچ اینڈ ریسکیو ایڈوائزری گروپ سیکرٹریٹ سے آسٹریا، انگلینڈ، جرمنی، سوئٹزرلینڈ، مراکش، اردن سے بین الاقوامی کلاسیفائرز کی ایک ٹیم نے 28 سے 31 اکتوبر 2019 تک پاکستان ریسکیو ٹیم کی آخری 36 گھنٹے طویل ایکسرسائز کی ایوالیوایشن کیلئے 28 سے 31 اکتوبر 2019 کو لاہور آئی اور آخرکاراقوام متحدہ OCHAانسراگ سیکرٹریٹ جنیوا سوئٹزرلینڈ سے مسٹر ونسٹن چینگ نے باضابطہ طور پر اعلان کیا کہ ”پاکستان ریسکیوٹیم اقوام متحدہ کی سرٹیفائیڈاربن سرچ اینڈریسکیو ٹیم کے طور پردنیا کی صف اول کی ٹیموں میں شامل ہوچکی ہے۔’

‘کمانڈر پاکستان ریسکیو ٹیم ڈاکٹررضوان نصیر نے 36 سرچ اینڈ ریسکیو ٹیموں کیلئے پلان تیار کرنے پرٹیم لیڈرپاکستان ریسکیو ٹیم ڈاکٹر فرحان خالد اور ڈپٹی ٹیم لیڈر محمد احسن کی کاوشوں کو سراہا اور ٹیم کے تمام ممبران کو اسناد پیش کیں۔ انہوں نے اقوام متحدہ کے اوچا پاکستان، اقوام متحدہ انسراگ سیکرٹریٹ،مینٹورز، کلاسیفائرز اور قومی اداروں کی امداد کا بھی شکریہ ادا کیا جن کی معاونت کی وجہ سے انٹرنیشنل سرٹیفیکیشن ممکن ہو سکی۔