ذہنی دباؤ یا ڈپریشن

 
0
269

تحریر : زارا واجد، اسلام آباد

عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں بیماریوں اور معذوریوں کی ایک بڑی وجہ ڈپریشن ہے دنیا بھر میں ہر تیسرا شخص مجموعی طور پر تیس کروڑ سے زائد افراد اس مرض کا شکار ہیں پاکستان میں بھی صورتحال کچھ مختلف نہیں ماہرینِ کا کہنا ہے کہ پاکستان کی 34 فیصد آبادی ڈپریشن کا شکار ہے دوسری جانب ملک میں ڈپریشن کا علاج کرنے والے ماہرین نفسیات کی تعداد انتہائی کم ہے اور ہر 20 لاکھ کی آبادی کو صرف 400 ماہرین میسر ہیں
ذہن پر دباؤ یا ڈپریشن کی عمومی وجوہات میں کام کی زیادتی یا کسی شے اور مقصد کے حصول میں ناکامی ہے تاہم۔بعض اوقات اس کی کوئی خاص وجہ نہیں ہوتی یہ کسی بھی عمر کے فرد کو ہو سکتا ہے ماہرین کے مطابق آپ اگر عادات و مزاج میں تبدیلیاں دیکھیں تو یہ ڈپریشن کی علامت ہیں
حیرت انگیز حقیقت یہ ہے کہ ڈپریشن میں صرف اداسی ہی نہیں ہو سکتی اگر آپ بلاوجہ چڑ چڑا رہے ہیں بات بات پر غصہ کر رہے ہیں اور معمولی باتوں پر لوگوں سے جھگڑا کر رہے ہیں تو یہ ڈپریشن کی علامت ہے ضروری نہیں ڈپریشن کا شکار شخص ہر وقت سوتا رہے بے خوابی بھی ڈپریشن کی علامت ہے اگر رات بھر بے سکون نیند سوتے ہیں اور صبح اٹھ کر خود کو تازہ دم محسوس نہیں کرتے ہیں تو یہ بھی ڈپریشن کی طرف اشارہ ہے
یہاں یہ بھی سمجھنا ضروری ہے کہ ڈپریشن کے مریض کی غذائی عادات تبدیل ہو جاتی ہیں اگر آپ غیر معمولی طور پر زیادہ کھانے لگے ہیں یا کھانے سے آپ کی دلچسپی ختم ہو گئی ہے اور بھوک بلکل بھی نہیں لگتی تب آپکو فورا ڈاکٹر سے رجوع کرنے کی ضرورت ہے اگر آپ کو کسی کام میں توجہ مرکوز کرنے میں دشواری پیش آ رہی ہے یا آپ اپنے کام کے دوران بے شمار غلطیاں کر رہے ہیں تو یہ بھی ڈپریشن کی علامت ہے ایک اور علامت چھوٹے چھوٹے فیصلے کرنے میں مشکل پیش آنا بھی ہے جیسے کافی یا چائے پی جائے، یا آئسکریم یا کونسا فلیور کھایا جائے
یہ بھی یاد رکھنے کی بات ہے کہ ڈپریشن کے شکار بعض افراد ڈاکٹر کے پاس تکلیف کی شکایت لے کر جاتے ہیں لیکن وہ بتا نہیں پاتے کہ نہیں کس جگہ تکلیف یا درد ہو رہا ہے یہ درد کی وہ قسم ہے جو عام طور پہ شناخت نہیں کی جا سکتی جیسے پیٹ میں درد، کمر میں درد، سر میں درد یہ تکلیف بھی ڈپریشن کی علامت ہے
ان علامات کے علاوہ ڈپریشن کے شکار افراد اداسی ،نا امیدی ،خالی الذہنی ،مایوسی، مختلف کاموں میں غیر دلچسپی، جسمانی طور پر تھکن یا کمزوری کا احساس ہونا، وزن میں اچانک کمی اور اضافہ، چیزوں کی طرف متوجہ مرکوز کرنے میں مشکل پیش آنا اور خود کو نقصان پہنچانے یا خودکشی کے بارے میں سوچنے کی طرف راغب ہو سکتے ہیں
طبی و نفسیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈپریشن گو کہ ایک عام لیکن خطرناک مرض ہے یہ آپ کی جسمانی و نفسیاتی صحت کو متاثر کرتا ہے اور آپ کے سونے جاگنے ،کھانے پینے حتی کہ سوچنے تک پر اثر انداز ہوتا ہے
ڈپریشن کا شکار ہونے کی صورت میں ماہرینِ نفسیات کے پاس جانے سے قبل آپ مختلف طریقوں سے اپنے ڈپریشن کا علاج کر سکتے ہیں
روزانہ چند منٹ کا مراقبہ آپ کے ذہنی اور جسمانی تناو کو ختم کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے یہ دماغ کی کسی چیز پر یکسو ہونے کی صلاحیت میں بھی اضافہ کرتا ہے
بھاگنا یا دوڑ لگانادماغ میں ان کیمیکلز کی مقدار میں اضافہ کرتا ہے جو دماغ کو خوشی کا سگنل دیتے ہیں ریسرچ کے مطابق جو لوگ باقاعدگی سے بھاگتے ہیں وہ ان افراد سے زیادہ مطمئن پائے گئے جو بھاگتے نہیں ہیں
تیراکی سے آپ کا جسم حرکت کی حالت میں رہتا ہے یوں سر سے پاؤں تک خون کی گردش میں اضافہ ہوتا ہے تیراکی ذہنی دباؤ کم کرنے کا بہترین ذریعہ ہے جب آپ ڈپریشن کا شکار ہوں کوئی مزاحیہ فلم دیکھیں یا کوئی مزاحیہ کتاب پڑھیں ایسے دوستوں سے ملیں جن کا حس مزاح اچھا ہو ہنسنے سے دماغ کے مضر کیمیکلز میں کمی واقع ہوتی ہے اور آپ فوری طور پر بہتر محسوس کرتے ہیں
ذہنی تناؤ کم کرنے کا ایک طریقہ لذیز کھانا بھی ہے آپ کی پسند کا بہترین کھانا آپ کے موڈ پر خوشگوار اثرات چھوڑتا ہے
بعض دفعہ ہمارے آس پاس پھیلی اور بکھری چیزیں بھی دماغ کو دباؤ کا شکار کرتی ہیں چیزوں کو ان کے ٹھکانے پہ واپس رکھا جائے اور آس پاس کے ماحول کو سمٹا ہوا اور صاف ستھرا کر لیا جائے تو ذہنی تناؤ میں کافی حد تک کمی ہو سکتی ہے
چہرے ،بھوؤں اور آنکھوں کا ہلکا سا مساج کرنا بھی ذہنی دباؤ کو کم کرنے کا سبب بنے گا ذہنی دباؤ کے وقت اس گزرے ہوئے وقت کو یاد کریں جس میں آپ ہنسے اور زندگی سےلطف اندوز ہوئے زندگی کی محرومیوں پر غور کرنے سے ذہنی دباؤ اور ناخوشی میں اضافہ ہوتا ہے اپنے سے حیثیت کہ لوگوں کو دیکھیں اور جو آپ کے پاس ہے اس پر شکر ادا کریں شکر گزاری کی عادت دماغ کو مطمئن اور خوش کرتی ہے
ماہرین متفق ہیں کہ ڈپریشن اور ذہنی تناؤ کا شکار افراد کے ساتھ محبت اور شفقت کا برتاؤ کیا جائے ان کے ساتھ سخت رویہ رکھنا اور ان کی حالت کو نظر انداز کرنا یا معمولی سمجھنا ان کے مرض کو بڑھانے کے مترادف ہو گا
ذہنی تناؤ کے شکار افراد کی جانب سے برے رویے اور خراب الفاظ کی امید بھی رکھنی چاہیئے اور ان کی حالت کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے نظر انداز کرنا چاہیئے لیکن خیال رہے یہ رویہ متشدد صورت اختیار نہ کرے
مریض کے خیالات و جذبات کو سنتے ہوئے آہستہ آہستہ چھوٹی چھوٹی چیزوں کی طرف اس کا دھیان مبذول کروایا جائے جیسے کسی لذیز کھانے، کسی دلچسپ ٹی وی پروگرام، خاندان میں آنے والی کسی تقریب کی تیاری،شاپنگ ،کسی اہم شخصیت سے ملاقات یا کہیں گھومنے کے پروگرام کے بارے میں گفتگو کی جائے
وہ مریض جو ڈپریشن کا شکار ہیں ان کے ساتھ لفظوں کے چناؤ کا بھی خاص خیال رکھا جائے ایسے موقع پر مریض بے حد حساس ہوتا ہے اور وہ معمولی سی بات کو بہت محسوس کرتا ہے لہذا خیال رکھیں کہ آپکا کوئی لفظ مرض کو برتری کی جانب گامزن نہ کر دے
یاد رکھیں ڈپریشن اور ذہنی دباؤ کا شکار شخص اکیلے اس مرض سے چھٹکارا حاصل نہیں کر سکتا اور اس کے لیے اسے اپنے قریبی دوستوں اور عزیزوں کا تعاون لازمی چاہیئے
حالیہ عرصے میں خودکشی کے باعث اموات کی وجوہات زیر غور ہیں جن میں ڈپریشن ایک اہم وجہ ہے خودکشی کرنے والے تین افراد میں سے دو ابتدائی طور پر سنگین ڈپریشن سے دوچار ہوتے ماضی میں خودکشی پر ہی توجہ دی جاتی تھی تاہم اب چیزیں تبدیل ہو رہی ہیں اور خودکشی کی ڈپریشن جیسی وجوہات پر بھی غور کیا جا رہا ہے
ڈپریشن کے حوالے سے دس غلط فہمیاں درج ذیل ہیں جن سے ہمیں اس بیماری کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے
ڈپریشن اور اداسی ایک ہی چیز کے دو نام ہیں یہ بات حقیقت ہے اداسی کا شدید احساس ڈپریشن کی علامات میں شامل ہو سکتی ہیں تاہم یہ دونوں چیزیں ایک نہیں اداسی وقتی طور پر ہوتی ہے تاہم ڈپریشن دائمی حالت ہے اور اسکی سنگین صورتحال خود بخود ختم نہیں ہوتی
یہ دماغی کمزوری کی نشانی ہے یہ اس بیماری کے بارے میں بات نہ کرنے کی بہت بڑی وجہ ہے ڈپریشن کوئی چوائس نہیں ہے یہ ایک پیچیدہ بیماری ہے جو انسان کو حیاتیاتی ،نفسیاتی اور سماجی طور پر متاثر کرتی ہے
ڈپریشن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ کوئی حقیقی بیماری نہیں مگر ڈپریشن واقعی ایک بیماری ہےاور اسکو اسی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے مایو کلینک کے مطابق ڈپریشن میں مبتلا شخص میں دماغی تبدیلیاں رونما ہو جاتی ہیں ان علامات کو مدنظر رکھتے ہوئے ڈاکٹر اسکی شدت کا اندازہ لگاتے ہیں
کہا جاتا ہے کہ ڈپریشن صرف دماغ کو متاثر کرتا ہےمگر ڈپریشن کے باعث تھکاوٹ ،نیند کی کمی،بھوک میں کمی،پٹھوں میں درد اور سینے میں درد بھی ہو سکتا ہے ڈپریشن کو صرف دماغی سمجھنے سے ہم کبھی کبھار اسکی سنجیدگی کو نظر انداز کر جاتے ہیں
کیا مردوں کو ڈپریشن نہیں ہوتا؟؟ خواتین میں ڈپریشن ہونے کے امکانات مردوں کے مقابلے میں دوگنا ہوتے ہیں تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ مرد اس بیماری میں مبتلا ہو ہی نہیں سکتے اسکا مطلب یہ نہیں کہ مرد اس بیماری کا ذکر نہیں کر سکتے اور چپ چاپ اس کو سہتے رہیں مرد اکثر اپنے خیالات کا اظہار خواتین کے مقابلے میں مختلف انداز میں کرتے ہیں اور ڈپریشن بھی اسی کڑی کا حصہ ہے اسی وجہ سے معاشرہ اکثر مردوں میں ڈپریشن کی علامات کو نظر انداز کر سکتا ہے جو کہ خطرناک ثابت ہو سکتا ہے مرد اکثر اس کے علاج میں خواتین سے زیادہ ہچکچاتے ہیں اور اس وجہ سے ان کی بیماری مزید پیچیدہ ہو جاتی ہے اگر آپ کے والدین ڈپریشن میں مبتلا رہے تو آپکو بھی یہ بیماری ہو گی جنیاتی طور پر کچھ انسانوں میں ڈپریشن میں مبتلا ہونے کے زیادہ امکانات ہوتے ہیں تاہم جنیات اس حوالے سے صرف 10 سے 15 فیصد ہی کردار ادا کر سکتے ہیں جدید ترین مطالعات میں تجویز پیش کی گئی ہے کوئی بھی شخص چاہے اس کے خاندان میں ڈپریشن کی ہسٹری رہی ہو یا نہیں، کو اس کی علامات محسوس ہوں تو اسے فوری طور پر ماہرین سے رجوع کرنا چاہیے
اینٹی ڈپریسنٹس ایسی صورتحال میں عام طور پر دی جانے والی ادویات ہوتی ہیں تاہم یہ واحد آپشن نہیں ہے ۔زیادہ تو لوگ ڈپریشن سے نمٹنے کے لیے سائیکو تھراپی اور مختلف قسم کے طریقے آزماتے ہیں۔ڈاکٹرز کے مطابق سب سے بہتر طریقہ تھراپی اور دواؤں کا مجموعہ ہے ادویات لینے والے افراد صبر کا مظاہرہ کریں کیونکہ اکثر چھ ہفتوں تک اس کے فوائد سامنے نہیں آتےبعض اوقات مختلف طریقہ علاج آزما کر دیکھا جا سکتا ہے کہ آپ کے لیے کونسا طریقہ موزوں ہے
آپ کو زندگی بھر ادویات کی ضرورت پڑے گی یہ ضروری نہیں اور اس کا انحصار مریض کی حالت پر ہوتا ہے کچھ لوگوں کو تھوڑے عرصے میں بھی فائدہ ہو جاتا ہےاور انہیں مزید دوا کی ضرورت نہیں پڑتی جبکہ دیگر کو لمبے عرصے تک ادویات لینا پڑتی ہیں۔۔۔
ہمیں ڈپریشن کے حامل افراد کے لیے بہترین حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے تا کہ انہیں خوشگوار زندگی گزارنے کی جانب مائل کیا جا سکے اور ڈپریشن جیسی خطرناک مرض سے چھٹکارا دلوایا جا سکے۔۔۔