یکساں تعلیمی نصاب ایک قوم ایک سوچ کیلئےناگزیر

 
0
319

کالم: اندر کی بات
کالم نگار: اصغر علی مبارک

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے اقتدار میں آنے سے پہلے عوام سے جو وعدے کیے تھے ان میں ایک وعدہ ملک میں ’یکساں قومی نصاب‘ کا نفاذ بھی شامل تھا کیونکہ وزیر اعظم عمران خان کا ماننا ہے کہ ملک میں رائج موجودہ تعلیمی نظام معاشرے میں ’طبقاتی تقسیم‘ کا بڑا ذریعہ ہے جو بہت سے مسائل کو جنم دے رہا ہے۔پاکستان کے تمام قومی اخبارات کے سرورق پر پانچ دسمبر 2021 کو وزارت وفاقی تعلیم وپیشہ ورانہ تربیت حکومت پکستان کے جاری کردہ اشتہار نظر سے گذرا جس میں “ایک قوم۔۔ایک نصاب؛عنوان سےیکساں قومی نصاب کی بہتری کےلیے ”قلم اٹھائیں۔۔پاکستان کا مستقبل روشن بنائیں کے” اشتہار میں دعوت دی گئی کہ والدین۔اساتذہ۔ عوام۔طالب علم قومی و صوبائی ماہرین تعلیم ” آئیں ہم سب مل کر یکساں قومی نصاب کے معیار کو بہتربنانےکیلئےاپنی تجاویز اور آراء پہلے مرحلے میں 20دسمبر تک جمع کروئیں۔اس مطلب ہے کہ اس کے بعد دوسرا تیسرا اور خداجانے کتنے مرحلہ کے بعد منصوبہ فائلوں کی نظر ہوجائےگا پالیسی ساز جانتے ہیں کہ پاکستان کیسا نظام تعلم ہو تاکہ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کروا ایک مذہب قوم کی طرح دیناکے نقشہ پر زندہ قوم کی مانند فخر سے جی سکیں۔اور پھر سیالکوٹ واقعہ کی طرح کوئی اور واقعہ ملک و قوم کی بدنامی کا باعث نہ بنے۔اسلام کے نام نظریہ کے تحت قائم مملکت پاکستان یکساں تعلیمی نصاب نہ ہونے کی وجہ سے سانحہ مشرقی پاکستان کی صورت میں ایک بڑا حصہ سے محروم و گئی۔وزیراعظم عمران خان نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا-’اپریل 2021 سے ملک بھر کے سرکاری و نجی سکولوں اور دینی مداس میں یکساں قومی نصاب کے نفاذ کا عمل شروع کیا جائے گا۔‘۔حکومت کے اس منصوبے کے حوالے سے ملک کے ماہرین تعلیم سوالات اٹھاتے اور وقت گزرنے کے ساتھ ان میں اضافہ بھی دیکھا جاتارہا ہے۔۔پاکستان کا مستقبل روشن بنائیں کے” اشتہار میں دعوت دی گئی کہ والدین۔اساتذہ۔ عوام۔طالب علم قومی و صوبائی ماہرین تعلیم ” آئیں ہم سب مل کر یکساں قومی نصاب کے معیار کو بہتربنانےکیلئےاپنی تجاویز اور آراء پہلے مرحلے میں 20دسمبر تک جمع کروئیں۔اس مطلب ہے کہ اس کے بعد دوسرا تیسرا اور خداجانے کتنے مرحلہ کے بعد منصوبہ فائلوں کی نظر ہوجائےگا پالیسی ساز جانتے ہیں کہ پاکستان کیسا نظام تعلم ہو تاکہ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کروا ایک مذہب قوم کی طرح دیناکے نقشہ پر زندہ قوم کی مانند فخر سے جی سکیں۔اور پھر سیالکوٹ واقعہ کی طرح کوئی اور واقعہ ملک و قوم کی بدنامی کا باعث نہ بنے۔اسلام کے نام نظریہ کے تحت قائم مملکت پاکستان یکساں تعلیمی نصاب نہ ہونے کی وجہ سے سانحہ مشرقی پاکستان کی صورت میں ایک بڑا حصہ سے محروم ہو گئی۔یکساں قومی نصاب کے حوالے سے وزات تعلیم کے دستاویزات کے مطابق بچوں کی ابتدائی تعلیم کے سال یعنی ’نرسری یا پریپ‘ کلاس میں انھیں جن سات نکات پر تعلیم دی جائے گی اس میں ذاتی یا معاشرتی ترقی، زبان اور خواندگی، بنیادی ریاضی، آس پاس کے ممالک، صحت اور تخلیقی فنون شامل ہیں۔تعلیم سب کیلئے۔۔ ھم سب تعلیم کیلئے۔ہمارا قومی سلوگن ہونا چاہیے مگر افسوس پاکستان تعلیم مشن نہیں منافع بخش کاروبار بن کر رہ گیا ہےیکساں قومی نصاب کے معیار بہتر بنانےکیلئے میری تجویز اور مشورہ ہے کہ قومی تعلیمی پالیسی اور سپورٹس پالیسی کو لازم وملزوم قرار دیا جائےتاکہ آنے والی نسل میں برداشت اور حوصلے کا جذبہ پروان چڑھےکیونکہ کھیلوں میں جیت ہار سے ہی سپورٹس مین اسپرٹ پیدا ہوتی ہے ہم نصابی سرگرمیاں تعلیمی سرگرمیوں کا لازمی حصہ ہونی چاہیں۔تاکہ کردار اور شخصیت سازی پروان چڑھے زندہ قوموں کیلئے یہ بڑا اہم مقصد ہوتاہےصحت مند دماغ کیلئے صحت مند ذہن تب ہی ہو سکتاہے جب طالبعلموں کو پرائمری لیول سے ھنرمندی ۔قابلیت۔دلچسپی اور رحجان پیدا کرنے کیلئے سازگار سمری بصری عملی اور علمی ماحول فراہم کیاجائے کھیل کو جب تک لازم قرارنہیں دیں ھمارا نوجوان پرتشد گرہوں کے ہاتھوں یرغمال بنکر قانون شکنی کامرتکب ہوتارہےگا۔صرف اگر ھم ٹریفک کے اصولوں پر عمل کر لیں آدھے مسائل خود بخود حل ہوجائیں گئے اس کے لیے ضروری ہے قوانین کو قومی زبان میں اجاگرکیا تعلم کابنیادی مقصد قوم کی کردارسازی اور قوانین و اخلاقیات کی پاسداری ہےیکساں تعلیمی نصاب ہی پاکستان کی سالمیت کا ضامن۔۔۔۔ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھا جائے جب مشرقی پاکستان کےطالبعلوں میں اساتذہ کے زریعے زہریلا پروپیگنڈہ کرکے علیحدگی پر اکسایاگیادنیاکےتمام ترقی یافتہ مماللک چین۔جاپان۔فرانس۔روس۔اسپین۔اٹلی۔امریکہ۔جنوبی افریقہ وغیرہ نے اپنی اپنی قومی زبانوں کے نصاب کوفروغ وترقی دے کر کامیابی حاصل کیں, کساں قومی نصاب کے معیار بہتر بنانےکیلئے میری تجویز ہے کہ تمام مکاتب فکر کے علماء کی مشاورت سےمدارس کے نصاب کا ازسرنوجائزہ لیاجائےاور فرقہ وارایت کے خاتمہ۔اتحادبین المسلیمین۔اتحاد بین المذاہب ۔اسلامی دفعات ۔حدود قوانین۔خواتین ۔بچوں۔مزدوروں ۔جانوروں کے حقوق۔۔۔
شہریوں کے حقوق وفرائض۔۔شوشل میڈیا کے منفی استعمال سے روکنے کےاسلام تعلیمات قران و حدیث کی روشنی میں احکامات۔۔۔
والدین۔بچوں۔پڑوسیوں۔تاجروں وغیرہ کے حقوق وفرائض پر مشتمل مضامین۔۔۔
اسلامی تعلیمات کے تحت شہریوں اور ریاست کی زمہ داریاں۔۔۔
صبر۔برداشت۔عدم تشدد۔رواداری۔وطن کے ساتھ محبت ۔۔
زمانہ جنگ وامن ۔آفات۔حادثات میں اخلاقی زمہ داریاں۔۔۔۔۔
رضاکارانہ خدمات۔۔ایک دوسرے کی مدد۔۔۔

وبائی امراض اور وباء سے بچاو کیلئے بحثیت شہری زمہ داریاں..جیسے موضوعات شوشل سائنسز علوم میں لازمی طور پر شامل کرنا چاہیں۔پاکستان میں یکساں نصاب کے حوالے ماضی میں کی جانے والی کوششوں میں سابق صدر جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف کے دورِ حکومت کا منصوبہ قریبی مثال ہے۔ چند ماہرین موجودہ حکومت کے تیار کردہ نصاب تعلیم کے منصوبے کو مشرف دور کے منصوبے کا عکاس قرار دے رہے ہیں۔وفاقی وزیر تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت شفقت محمود نے آئندہ تعلیمی سال سے یکساں قومی نصاب کے ملک بھر میں نفاذ کے پہلے مرحلے یعنی ’نرسری اور پہلی سے پانچویں جماعت‘ کے لیے ایک نصاب رائج کرنے کا اعلان کیا ہے۔دوسرا مرحلہ چھٹی جماعت سے آٹھویں جماعت تک سنہ 2022 جبکہ یکساں قومی نصاب کا تیسرا اور آخری مرحلہ نویں سے بارہویں جماعت کا نصاب ملک میں آئندہ عام انتخابات کے سال یعنی سنہ 2023 میں نافذ کیا جائے گا۔پاکستان کی وفاقی وزارت تعلیم کی جانب سے وضع کردہ وہ بنیادی نکات جن پر یکساں قومی نصاب کو تشکیل دیا جا رہا ہے ان میں قرآن و سنت کی تعلیمات، آئین پاکستان کا تعارف، بانیِ پاکستان محمد علی جناح اور علامہ محمد اقبال کے افکار، قومی پالیسیاں، خواہشات اور قومی معیارات، جنس، رنگ نسل یا مذہب کے حوالے سے روادی اور تعمیری سوچ کی ترویج، تعلیمی نظام کی بہتری کے حوالے سے پاکستان کے بین الاقوامی معاہدوں خصوصاً پائیدار ترقی کے اہداف کا حصول، ملک میں تعلیمی اداروں، اساتذہ اور پیشہ ورانہ تربیت میں اضافے سمیت اس بات کا تعین کیا جا رہا ہے کہ بچے کیا پڑھیں گے، کیا سیکھیں گے اور ان تعلیمات کا بچوں پر کیا اثرات ہوں گے۔پہلی سے پانچویں جماعت کے لازمی مضامین میں اُردو، انگریزی، اسلامیات، جنرل نالج، ریاضی، جنرل سائنس اور معاشرتی علوم شامل ہیں جبکہ اقلیتوں کے لیے پہلی سے بارہویں جماعت تک اسلامیات کے مضمون کی جگہ ’دینی تعلیم‘ کا مضمون متعارف کرایا گیا ہے جس میں تمام مذاہب کا بنیادی تعارف اور تعلیمات موجود ہوں گی۔ ایک اور تبدیلی انگریزی کو مضمون کی بجائے زبان کے طور پر پڑھایا جانا ہےاب تک یکساں قومی نصاب کے حوالے سے قومی ہم آہنگی کے ساتھ کام کیا گیا ہے، جس میں تمام صوبوں، گلگت بلتستان اور پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کی متعلقہ وزارتیں اور ادارے تمام فیصلہ سازی شامل رہے ہیں۔ اور سب یکساں قومی نصاب کے نفاذ پر رضامند ہیں۔وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود کہتے ہیں کہ حکومت نے تمام سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مسلسل مشاورت کے بعد فیصلہ کیا ہے کہ بچوں کی تعلیمی زبان کے انتخاب کا اختیار بھی صوبوں کو دیا جائے، یعنی بچوں کو اردو یا مادری زبان میں تعلیم دینے کا حق صوبوں کو حاصل ہو گا، جبکہ اس ضمن میں دوسرا اہم فیصلہ ایک جیسی کتب کے بارے میں کیا گیا ہے۔حکومت کی جانب سے ایک ماڈل ٹیکسٹ بک بنائی جا رہی ہے، جو صوبوں، نجی سکولوں اور مدارس کو فراہم کی جائے گی، اور انھیں قومی نصاب کے بنیادی نکات پر رہتے ہوئے اس میں اضافے یا تبدیلی کا اختیار بھی حاصل ہو گا۔‘یکساں نصاب کے بارے میں اب تک وزارت تعلیم کی فراہم کردہ معلومات کے مطابق اس کو قومی نصاب کہنا درست نہیں ہے، تاہم اسے تعلیمی پالیسی یا گائیڈ لائنز‘ کہا جا سکتا ہے۔ اور نہ ہی پاکستان جیسے ممالک جہاں مختلف مذاہب، نسلوں، زبانیں بولنے اور مختلف ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے لوگ موجود ہوں، یکساں قومی نصاب رائج کیا جا سکتا ہے۔ یکساں قومی نصاب کا حکومتی منصوبہ، پاکستان تحریک انصاف کے اس سیاسی یا انتخابی نعرے کی تکمیل سے زیادہ کچھ نہیں جو وہ ماضی میں بلند کرتے رہے ہیں کہ وہ اقتدار میں آ کر ملک میں تعلیم کے منقسم نظام کو ایک کریں گے، غریب اور امیر کے لیے ایک جیسی تعلیم کی سہولتیں ہوں گی۔ جو کہ ایک کتاب اور زبان کی پابندی کی بغیر ممکن نہیں، آئندہ بھی بڑے نجی تعلیمی ادارے ان فراہم کردہ سہولتوں سے فائدہ اٹھا کر طبقاتی تقیسم میں خود کو نمایاں رکھیں گے۔یکساں قومی نصاب کا مطلب اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ ملک کے کسی بھی حصے میں رہنے اور سرکاری یا نجی سکول میں پڑھنے والے، حتٰی کہ مدرسے میں زیر تعلیم بچوں کو ایک معیار کی تعلیم حاصل ہو۔ ایک قوم ایک نصاب کے نعرے تلے ہماری حکومت جو نظام وضع کرنے جا رہی ہے، اس سے نہ صرف تعلیم جیسی بنیادی ضرورت کے حوالے سے پیدا کردہ تقسیم ختم ہو گی، بلکہ ہمارے بچے ایک جیسی تعلیم حاصل کرکے ایک جیسی سوچ اپنا سکیں گےیکساں قومی نصاب کی تیاری کے لیے وزیر اعظم عمران خان نے سنہ 2018 میں وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود کی تجویز پر قومی نصاب کونسل کی تشکیل کا اعلان کیا تھا۔ 2019 کے آغاز میں وجود میں آنے والی اس کونسل کی بنیادی تشکیل میں ہر صوبے اور خطے سے تین تین اراکان، صوبائی نصاب بیورو، ٹیکسٹ بک بورڈز اور ہر تعلیمی بورڈ کا ایک ایک رکن شامل تھا۔جس کے بعد اس کونسل نے قومی نصاب کی تیاری اور اس پر عملدرآمد کی راہ متعین کرنے کے لیے ایک ’تکنیکی ماہرین کی کمیٹی برائے نصاب‘ قائم کی۔18ویں آئینی ترمیم کے بعد تعلیم کا شعبہ اور نصاب کی تشکیل کے امور صوبوں کو منتقل ہو چکے ہیں,وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود کے مطابق حکومت کو ملک کے نظام تعلیم کی کمزوری کا بخوبی ادراک ہے، جن کو دور کرنے کے لیے منصوبہ سازی کی گئی ہےوہ کہتے ہیں کہ ’نصاب اور نظام تعلیمی کی بہتری ایک مسلسل عمل ہے، جس میں وقت اور ضروریات کے مطابق استعداد کار، سکولوں میں اضافہ، سکول سے باہر بچوں کو دائرہ تعلیم میں لانا اور اساتذہ کی ٹریننگ جیسے اہم امور شامل ہیں۔’کونسل نے یکساں قومی نصاب پر مؤثر انداز میں عملدرآمد یقینی بنانے کے لیے پانچ دسمبر 2021 کو پاکستان کے تمام قومی اخبارات کے سرورق پر وزارت وفاقی تعلیم وپیشہ ورانہ تربیت حکومت پکستان کے جاری کردہ اشتہار میں “ایک قوم۔۔ایک نصاب؛یکسںاں قومی نصاب کی بہتری کےلیے قلم اٹھائیں۔۔پاکستان کا مستقبل روشن بنائیں کے اشتہار میں دعوت دی گئی کہ والدین۔اساتذہ۔ عوام۔طالب علم قومی و صوبائی ماہرین تعلیم ” آئیں ہم سب مل کر یکساں قومی نصاب کے معیار کو بہتربنانےکیلئےاپنی تجاویز اور آراء پہلے مرحلے میں 20دسمبر تک جمع کروئیں,’ایک سال کے عرصے میں نصاب میں وضع کردہ دائر کار کے مطابق کتابوں کی تیاری کا عمل مکمل ہو جانا ہی ممکن ہوتا نظر نہیں آتا، جبکہ اساتذہ کی ٹریننگ کا عمل اس سے کہیں زیادہ غور اور توجہ طلب کام ہے. اچھا معیاری نصابِ تعلیم ہی معیارِ تعلیم کی بہتری اور بلندی کا ضامن ہوتا ہے۔ یکساں قومی نصاب اوراچھے نصاب سے مراد ایسا نصاب ہے جو قومی اور بین الاقوامی ضرورتوںکو پورا کرے,