آئین اور وفاقی پارلیمانی نظام میں کسی قسم کی مداخلت اور رد و بدل کو قبول نہیں کریں گے: احسن اقبال

 
0
203

اسلام آباد 22 جنوری 2022 (ٹی این ایس): ملک میں صدارتی نظام کی افواہوں پر پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سیکریٹری جنرل احسن اقبال نے کہا ہے کہ ہم پاکستان کے آئین، وفاقی پارلیمانی نظام میں کسی قسم کی مداخلت اور رد و بدل کو قبول نہیں کریں گے اور ہر شہری اپنے اس آئین اور وفاقی پارلیمانی نظام کے دفاع کے لیے سیسہ پلائی دیوار بنے گا۔

قومی اسمبلی کے اجلاس میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے احسن اقبال نے کہا کہ یہ مطالعہ پاکستان کا لیکچر نہیں بلکہ ہم پاکستان کی روح کے بارے میں بات کررہے ہیں کہ پاکستان کے وفاق کے بارے میں کون لوگ اس طرح کی خبریں چلاتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو، بینظیر بھٹو کے دورِ حکومتوں کا جواب دینے کے لیے پیپلز پارٹی، نواز شریف کے ادوار حکومت کا جواب دینے کے لیے ہم یہاں موجود ہیں لیکن یہ قوم فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان کے برسوں کا حساب کس سے مانگے۔

بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ قوم یحیٰی خان کے 4 سال، ضیاالحق کے 11 برسوں اور مشرف کے 9 برسوں کا جواب کس سے پوچھے۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ پاکستان کا پارلیمانی نظام ہے جو سیاسی جماعتوں اور قیادت کو عوام کا جوابدہ ٹھہراتا ہے، جبکہ صدارتی نظام ایک ڈکٹیٹیر پیدا کرتا ہے اور کسی بھی لحاظ سے موزوں نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ چھوٹے صوبوں کے احساس محرومی کے پیشِ نظر، عوام میں آئین کے حوالے سے تحفظات پیدا کرنا ملک کے مفاد کے خلاف ہے، اس لیے اس مسئلے پر ایک بحث کرائی جائے اس معاملے کو یکسر ختم ہوجانا چاہیے۔

احسن اقبال نے کہا کہ پاکستان کو تجربہ گاہ نہیں بنایا جاسکتا کہ جب کسی کا دل کیا ایک نئے نظام کا فارمولا پیش کردیا، دیگر اقوام نے سیاسی استحکام اور پالیسیوں کے تسلسل سے ترقی کی اور ہم نے ان تجربوں کی وجہ سے پاکستان کی اس صلاحیت کو ضائع کیا۔

انہوں نے کہا کہ وقت آگیا ہے کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ، سیاستدان اور بیوروکریسی ملک کر فیصلہ کرے کہ ملک کے لیے ایک ہی راستہ آئین کی سربلندی اور اس کے تحت اپنے کردار کو ادا کرنے کا ہے۔

رہنما مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ آج ملک جس بحران میں ہے کوئی لیڈر ایسا نہیں نہ ہی کوئی پارٹی ایسی ہے جو تنِ تنہا ملک کو اس سے نکال سکے، پاکستان کو جامع حکومت اور ایسی جمہوریت کی ضرورت ہے کہ حکومت اپوزیشن ایک گاڑی کے 2 پہیے بن کر نظام کو چلائیں۔

انہوں نے کہا کہ ایسا نظام کے جس میں وزیراعظم اپوزیشن سے بات نہیں کرسکتا، دشمن کی فوجیں سرحد پر ہوں اور وہ آرمی چیف کے ساتھ کمیٹی روم تک نہیں آئے یہ پارلیمانی طرزِ عمل نہیں ہے اسے چھوڑ کر ایسا طرزِ عمل اپنانے کی ضرورت ہے جو آئین کی روح کے مطابق ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا حوصلہ دے۔