سندھ کے تیسرے بڑے سرکاری اسپتال عباسی شہید کا میڈیکولیگل سیکشن چندے پر چلنے کا انکشاف

 
0
116

اسلام آباد 18 فروری 2022 (ٹی این ایس): سندھ کے تیسرے بڑے سرکاری اسپتال عباسی شہید کا میڈیکولیگل سیکشن چندے پر چلنے کا انکشاف ہوا ہے، ایڈیشنل پولیس سرجن کی جیب پر 4 ہزار کا بوجھ پڑا ہوا ہے۔

سندھ کے تیسرے بڑے سرکاری اسپتال کا اہم یونٹ تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا، ایڈیشنل پولیس سرجن کا کہنا ہے کہ عباسی شہید اسپتال کے میڈیکولیگل سیکشن کی تباہ حالی کے ذمہ دار کے ایم سی اور سندھ حکومت ہیں۔

اے پی ایس شاہد نظام نے بتایا کہ تمام متعلقہ حکام کو بہت سارے خطوط لکھے گئے لیکن جواب تک نہیں دیا جاتا، دو سال سے متعلقہ یونٹ کو کاربن کاپی تک فراہم نہیں کی گئی۔

انھوں نے انکشاف کیا کہ ایم ایل سیکشن میں مشین موجود ہے لیکن ایکسرے نہیں ہے، کمرہ موجود ہے لیکن اسٹیشنری موجود نہیں ہے، میں اور دیگر ایم ایل اوز چندہ کر کے میڈیکل بک منگواتے ہیں، میری جانب سے 4 ہزار باقی ایم ایل او 2 ہزار چندہ دیتے ہیں، اور ایک میڈیکل بک 3 دن چلتی ہے۔

ایڈیشنل پولیس سرجن کا کہنا تھا کہ ہمیں کاربن کاپی تک سرکاری نہیں ملتی، 2 سال سے میڈیکولیگل ڈپارٹمنٹ میں ایکسرے نہیں کیے جا رہے، ایکسرے مشین موجود ہے لیکن فلمیں فراہم نہیں کی جاتیں، مریضوں کو ایکسرے باہر سے کروا کر لانے کا کہا جاتا ہے، کرمنل افراد جعلی ایکسرے بنا کر جعلی مقدمات درج کروا دیتے ہیں۔

انھوں نے بتایا پوسٹ مارٹم کے لیے انسانی اعضا کو محفوظ کرنا پڑتا ہے، اعضا محفوظ بنانے کا کیمیکل 2 ہزار کا آتا ہے، فارمیلین کیمیکل اور برنی تک اپنے پیسوں سے منگواتے ہیں۔

شاہد نظام کا کہنا تھا کہ صبح عدالتوں کے چکر اور ڈیوٹی ٹائم سے زیادہ وقت دیتے ہیں، کراچی میں 90 سیٹیں مرد ایم ایل او 20 خواتین ایم ایل او کی ہیں، لیکن کراچی میں ٹوٹل 20 مرد اور 5 خواتین ایم ایل او تعینات ہیں، 2 ایم ایل او جناح اور 2 عباسی اور ایک سول اسپتال میں کام کرتے ہیں۔

اے پی ایس نے بتایا کہ 2 سال میں 6 سینئر ریٹائرڈ ہوئے لیکن متبادل نہیں ملا، نئے ایم ایل او نہ آئے تو سسٹم تباہ ہو جائے گا۔

انھوں نے خبردار کیا کہ کراچی کے 6 میڈیکولیگل سینٹر کئی سالوں سے بند ہیں، غیر فعال مراکز میں کورنگی، سعود آباد، لیاری، قطر، نیو کراچی اور لیاقت آباد سینٹرز شامل ہیں، جب کہ ان تمام سینٹرز میں ایم ایل اوز کی سیٹیں منظور کی جا چکی ہیں۔

شاہد نظام نے مزید بتایا کہ مردہ خانے میں 3 کی جگہ 1 اٹینڈنٹ ہے جو 24 گھنٹے ڈیوٹی دیتا ہے، لیڈی ایم ایل او کے ساتھ فی میل نرس بھی نہیں دی گئی، یہ صورت حال دیکھ کر میرے بچوں سمیت خاندان میں کوئی ڈاکٹر بننے کو تیار نہیں، افسوس کی بات یہ ہے کہ سسٹم ایسے ہی چل رہا ہے ایسے ہی چلتا رہے گا۔