انتخابات کی کال دے کر 90 دن کے لیے ملک کو بے یارو مددگار چھوڑ دیا جاتا ہے، چیف جسٹس

 
0
122

اسلام آباد 07 اپریل 2022 (ٹی این ایس): سپریم کورٹ میں وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد مسترد ہونے پر ازخود نوٹس کی سماعت جاری ہے۔تفصیلات کے مطابق صدرمملکت عارف علوی کے وکیل بیرسٹرعلی ظفر نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ آئین کا تحفظ بھی آئین کے مطابق ہی ہوسکتا ہے۔ پارلیمان ناکام ہوجائے تو معاملہ عوام کے پاس ہی جاتا ہے۔ آئین کے تحفظ کیلئے اس کے ہر آرٹیکل کو مدنظر رکھنا ہوتا ہے۔جسٹس جمال خان مندو خیل نے کہا کہ کیا وزیراعظم پوری قوم کے نمائندے نہیں ہیں؟وکیل صدر نے جواب دیا کہ وزیراعظم بلاشبہ عوام کے نمائندے ہیں۔

جسٹس مظہرعالم نے کہا کہ کیا پارلیمنٹ میں آئین کی خلاف ورزی ہوتی رہے اسے تحفظ ہوگا؟ کیا عدالت آئین کی محافظ نہیں ہے؟جسٹس جمال خان مندو خیل نے کہا کہ پارلیمنٹ کارروائی سے کوئی متاثر ہو تو دادرسی کیسے ہوگی؟ کیا دادرسی نہ ہو تو عدالت خاموش بیٹھی رہے؟چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اگر زیادتی کسی ایک ممبر کے بجائے پورے ایوان سے ہو تو کیا ہوگا؟بیرسٹرعلی ظفر نے کہا کہ اگرججز کے آپس میں اختلاف ہوں تو کیا پارلیمنٹ مداخلت کر سکتی ہے؟ جیسے پارلیمنٹ مداخلت نہیں کرسکتی ویسے عدلیہ بھی نہیں کرسکتی۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ کیا وفاقی حکومت کی تشکیل کا عمل پارلیمان کا اندرونی معاملہ ہے؟صدر مملکت کے وکیل نے جواب دیا کہ حکومت کی تشکیل اور اسمبلی کی تحلیل کا عدالت جائزہ لے سکتی ہے۔چیف جسٹس عمرعطابندیال نے کہا کہ عدم اعتماد پر اگر ووٹنگ ہوجاتی تو معلوم ہوتا کہ وزیراعظم کون ہوگا؟علی ظفر نے کہا کہ وزیراعظم کے الیکشن اور عدم اعتماد دونوں کا جائزہ عدالت نہیں لے سکتی۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ علی ظفر صاحب آپ نے جس فیصلہ کا حوالہ دیا ہے وہ حلف سے متعلق ہے۔ یہاں معاملہ حلف لینے کا نہیں رولنگ کا ہے۔ کہیں تولائین کھیچنا پڑے گی۔