ملک میں قانون کی نہیں بلکہ اشرافیہ کی حکمرانی ہے، جسٹس اطہرمن اللہ

 
0
170

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہے کہ یہاں قانون کی نہیں بلکہ اشرافیہ کی حکمرانی ہے، آدھی سے زیادہ ہماری زندگی ڈکٹیٹرشپ میں گزری، آئین کی عمل داری اسی وقت ہو سکتی ہے جب مائنڈ سیٹ تبدیل ہو، سیاسی لیڈرشپ آئین کی عمل داری کو مضبوط کر سکتی ہے، سیاسی لیڈرشپ کی ذمے داری ہے کہ کیسز عدالتوں میں لانے کے بجائے پارلیمنٹ میں حل کرے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپنے اعزاز میں فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ جو کچھ میرے بارے میں کہا گیا ہے، اس کا کریڈٹ نہیں لیتا، یہ تمام کریڈٹس اس ہائی کورٹ کے ہر جج کے ہیں، اسلام آباد ہائی کورٹ دوسری ہائی کورٹس کی طرح نہیں ہے، یہ ہائی کورٹ ہے جو فیڈریشن کی نمائندگی کرتی ہے۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کا کہنا تھا کہ بار ملک کی بہترین بار ہے، وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل نے جس واقعے کا حوالہ دیا اس واقعے کے بعد معافی کے تناظر کا معاملہ ہی نہیں کیونکہ سب وکلا کو ہم نے فیملی کی طرح ٹریٹ کیا، سویلین سپرمیسی اور آئین کی سپرمیسی کا سوال ہوا جس کا جواب نفی میں ہے، یہاں کوئی رول آف لا نہیں بلکہ رول آف ایلیٹ ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آدھی سے زیادہ ہماری زندگی ڈکٹیٹرشپ میں گزری، آئین کی عمل داری اسی وقت ہو سکتی ہے جب مائنڈ سیٹ تبدیل ہو، سیاسی لیڈرشپ آئین کی عمل داری کو مضبوط کر سکتی ہے، سیاسی لیڈرشپ کی ذمے داری ہے کہ کیسز عدالتوں میں لانے کے بجائے پارلیمنٹ میں حل کرے، ہماری کارگردگی عوام کے اعتماد سے جانچی جا سکتی ہے، اسلام آباد بار اور اس کے ہر رکن کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ ہائی کورٹ رپورٹرز نے اپنے آپ کو پروفیشنل رپورٹر ثابت کیا ہے۔

قبل ازیں چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ کے اعزاز میں فل کورٹ ریفرنس سے نامزد چیف جسٹس عامر فاروق، اسلام آباد بار کونسل کے وائس چیئرمین قمر سبزواری، اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر شعیب شاہین، ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد بیرسٹر جہانگیر جدون، ایڈیشنل اٹارنی جنرل بیرسٹر منور اقبال دوگل نے بھی خطاب کیا۔

فل کورٹ ریفرنس میں جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب ، جسٹس بابر ستار ، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس ارباب محمد طاہر، جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان، جسٹس ثمن رفعت امتیاز کے علاوہ ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد، اٹارنی جنرل آفس کے افسران اور اسلام آباد بار کونسل و ہائی کورٹ بار کے علاوہ وکلاء کی بڑی تعداد موجود تھی۔