کیا کالجوں اور یونیورسٹیوں میں عمران خان کا خطاب کرنا غیرقانونی ہے؟

 
0
174
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے حال ہی میں مختلف کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلبا و طالبات سے سے ویڈیو خطاب کیے ہیں۔
انصاف سٹوڈنٹس فیڈریشن (آئی ایس ایف) جو پاکستان تحریک انصاف کا طلبہ ونگ ہے، کی طرف سے دیے جانے والے اعداد و شمار کے مطابق عمران خان نے ایک ہی دن میں صرف صوبہ پنجاب میں 26 یونیورسٹیوں اور 43 کالجوں کے طلبہ سے خطاب کیا ہے۔
تمام چھوٹے اور بڑے شہروں میں سرکاری اور پرائیوٹ تعلیمی اداروں میں بظاہر اس سیاسی سرگرمی پر ہر طرح کا ردعمل سامنے آیا ہے۔
تعلیمی ماہرین ہوں یا طلبا یونینوں کی بحالی کے لیے سرگرم تنظمیں، سب ہی اس عمل پر احتجاج کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔
طلبا یونینوں کی بحالی کے لیے سرگرم تنظیم پروگریسو سٹوڈنٹس کلیکٹو کے صدر قیصر جاوید نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’جس طریقے سے ایک سیاسی جماعت کو تعلیمی اداروں میں صرف ایک ہی ایجنڈا آگے بڑھانے کی اجازت دی جا رہی ہے یہ کسی صورت قابل قبول نہیں ہے۔ اس طرح کی فضا سب کو ملنی چاہیے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’چونکہ پنجاب میں عمران خان کی جماعت کی حکومت ہے اس لیے سرکاری تعلیمی اداروں میں ان کے لیے تقاریر کا باقاعدہ بندوبست کیا جاتا ہے۔ جبکہ کسی دوسرے نظریے سے وابستہ طلبہ کارکنان پر ان تعلیمی اداروں میں سیاسی سرگرمیوں پر مقدمات درج کیے جاتے ہیں اور انہیں اداروں سے نکالا بھی جاتا ہے۔‘
معروف ماہر تعلیم ڈاکٹر مظہر عباس کا کہنا تھا کہ ’جس طریقے سے یہ سیاسی سرگرمی کی جا رہی ہے یہ تو کسی نصاب میں نہیں ہے۔ پوری دنیا میں سیاستدان کالجوں، یونیورسٹیوں اور سکولوں میں آتے ہیں۔ وہ طلبا کے سامنے بیٹھ کر اپنا منشور بیان کرتے ہیں اور سب کو بلا تفریق بلایا جاتا ہے، بلکہ طلبہ ان سے سوال و جواب کرتے ہیں۔ یہ جو ہو رہا ہے یہ ایک مخصوص ایجنڈا ہے۔ اور صرف اس وجہ سے وقوع پذیر ہو رہا ہے کہ حکومت ان (پی ٹی آئی) کی ہے۔‘
تعلیمی اداروں میں ہونے والی حالیہ سیاسی سرگرمیوں پر بات کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے سٹوڈنٹ ونگ آئی ایس ایف پنجاب کے صدر حیدر مجید نے کہا کہ چیئرمین تحریک انصاف کے لیکچرز پورے ملک میں کروائے گئے ہیں۔
’ان کا موضوع تھا ’طلبا کا ملک کی بہتری میں کردار۔‘ اس کا مقصد طلبا میں شعور بیدار کرنا ہے۔ سرکاری اور نجی دونوں طرح کے تعلیمی اداروں میں ایونٹ منعقد کیے گئے ہیں۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ تعلیمی اداروں میں تو سیاسی سرگرمیوں پر پابندی ہے تو ایک سیاسی تنظیم نے کیسے اس کو ممکن بنایا؟  تو ان کا کہنا تھا کہ ’بنیادی طور پر ہم نے ان اجتماعات کے لیے آئی ایس ایف کا نام استعمال نہیں کیا بلکہ جیسے تعلیمی اداروں میں مختلف سوسائٹیاں بنی ہوتی ہیں ان کے ذریعے یہ بندوبست کروائے۔ کسی بھی طرح کا کوئی سرکاری وسیلہ استعمال نہیں کیا۔‘