ملک قیوم وہ جج جو ایک آڈیو ٹیپ کے تنازعے کا شکار ہوئے

 
0
81
پاکستان کی وکلا کمیونٹی میں ایک بڑا نام جسٹس ریٹائرڈ ملک قیوم جمعے کو لاہور میں انتقال کر گئے۔ ان کی عمر 78 برس تھی۔
ملک قیوم پاکستان کے نظام انصاف اور سیاست دونوں میں اپنے مختلف کردار کی بنا پر شہرت یافتہ رہے۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے ملک قیوم آرائیں گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے والد جسٹس ملک محمد اکرم آرائیں بھی لاہور ہائی کورٹ کے جج رہے۔
ملک قیوم کا خاندان لاہور کا ایک بااثر گھرانے کے طور پر جانا جاتا ہے۔ ان کے ایک بھائی پرویز ملک کا گزشتہ برس انتقال ہوا، وہ ن لیگ کے رکن قومی اسمبلی رہے جبکہ دوسرے بھائی ڈاکٹر جاوید اکرم اس وقت پنجاب کے نگران وزیر صحت ہیں۔
بطور جج آڈیو تنازع
نواز شریف کے دوسرے دورِ حکومت 1998 میں ملک قیوم، جو کہ سپریم کورٹ کے وکیل تھے، انہیں لاہور ہائی کورٹ کا ایڈہاک جج تعینات کیا گیا۔ شریف حکومت کے بنائے گئے احتساب کمیشن نے انہیں ہائیکورٹ میں احتساب کے مقدمات کے مختص جج کے طور پر نامزد کر دیا تھا اور ان کے ذمے احتساب ریفرنسز کو سننا تھا۔
سیف الرحمن احتساب کمیشن کے سربراہ تھے۔ انہوں نے بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے خلاف کرپشن ریفرنس ملک قیوم کی عدالت میں بھیجا۔
ملک قیوم نے ابتدائی سماعت کے بعد ہی اس ریفرنس کو منظور کرتے ہوئے بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری پر ایف آئی آر درج کرنے کا حکم جاری کیا۔
اس وقت پیپلزپارٹی نے ان کی جانبداری پر اعتراض کرتے ہوئے نقطہ اٹھایا کہ ان کے بھائی پرویز ملک نواز شریف کی لاہور کی چھوڑی ہوئی نشست سے بلامقابلہ ایم این اے منتخب ہوئے ہیں اس لیے ان سے انصاف کی توقع نہیں ہے۔
بعد ازاں ایک آڈیو ٹیپ منظر عام پر آئی جس میں مبینہ طور پر شہباز شریف، جو اس وقت پنجاب کے وزیراعلی تھے، وہ انہیں بے نظیر اور آصف علی زرداری کو سزا سنانے پر مائل کر رہے تھے۔
اس آڈیو ٹیپ نے ایک بھونچال برپا کر دیا اور بالاخر ملک قیوم کو اپنےعہدے سے استعفی دینا پڑا۔ تاہم آج تک اس آڈیو ٹیپ کی تحقیقات منظر عام پر نہیں آ سکی ہیں اور نہ ہی ملک قیوم نے خود اس ٹیپ کی تصدیق کی تھی۔
تاہم بطور جج انہوں نے آئی سی سی کی جانب سے قومی کرکٹ ٹیم میں مبینہ بدعنوانیوں سے متعلق ایک کمیشن کی سربراہی بھی کی اور ایک تفصیلی رپورٹ جاری کی جس کو آج بھی جسٹس قیوم رپورٹ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
جنرل مشرف سے قربت
پرویز مشرف کے دورحکومت میں ملک قیوم سپریم کورٹ بار کے صدر منتخب ہوئے۔ انہوں نے حامد خان کے امیدوار کو شکست دی تھی۔
انہوں نے بطور صدر سپریم کورٹ بار پرویز مشرف سے ملاقات کی جس کو وکلا برادری نے شدید تنقید کا نشانہ بنایا، تاہم اس کے بعد وہ عملی طور پر وکلا سیاست سے الگ ہو گئے۔
سال 2007 میں اس وقت کے صدر جنرل  پرویز مشرف نے انہیں ملک کا اٹارنی جنرل مقرر کر دیا۔ اور ایک سال تک اس عہدے پر براجمان رہے۔ اس دوران انہوں نے مشرف کی طرف سے ہٹائے جانے والے ججوں کی بحالی کی بھر پور مخالفت کی۔
ملک قیوم دیوانی مقدمات کی وکالت میں ملکہ رکھتے تھے۔ اور متعدد بار عدالتیں انہیں پیچیدہ آئینی اور قانونی معاملات پر عدالتی معاونت کے لیے طلب کرتی رہتی تھیں۔